میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
تاریخ ِ بیت المقدس اور اسرائیلی خام خیالی

تاریخ ِ بیت المقدس اور اسرائیلی خام خیالی

منتظم
بدھ, ۲۰ دسمبر ۲۰۱۷

شیئر کریں

پروفیسراویس خالد
حرم قدسی شریف (مسجد اقصیٰ) قبلہ اوّل( خانہ کعبہ) اور مسجد نبویؐ شریف کے بعد تیسرا مقدس ترین مقام ہے۔اس پر اسرائیل قابض ہے۔یہ مشرقی یروشلم میں واقع ہے۔عام طور پر کہا جاتا ہے کہ مسلمانوں کے علاوہ یہودی اور عیسائی یعنی تینوں ادیان کے لوگ اس مقام کواپنی بعض مذہبی وجوہات کی بنا پر مقدس مانتے ہیں۔لیکن خیال رہے کہ پروردگار شش جہات کے ہاں دین صرف ایک ہے اور وہ اسلام ہی ہے۔باقی خدائے بزرگ و برتر کسی کو بطور دین تسلیم نہیں کرتا۔سادہ سی بات ہے کہ یہودیوں نے حضرت عیسی ؑ کو نہیں مانا اور عیسائیوں نے نبی آخر الزمانؐ کے در کی گدائی اختیار نہ کر کے خود کو دنیا و آخرت کی ہر قسم کی خیر و بھلائی سے محروم کر لیا۔اس لحاظ سے دونوں یہود و نصاریٰ منکرِ حکم ذوالجلال ٹھہرے۔ آج اسرائیل کا یروشلم کواپنا دارلخلافہ بنانے کا اعلان بھی اسی وجہ سے ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ بیت المقدس کے نیچے ہیکل سلیمانیؑ ہے جس کے آثار وہ دریافت کر کے دنیا کو دکھا کر اپنی یا اپنے مذہب کی عظمت کا ڈنکا بجائیں گے۔ جب کہ وہ اس کا استحقاق ناصرف مذہبی طور پر بلکہ عالمی قوانین کی رو سے بھی کھو چکے ہیں۔
آئیے کچھ تاریخی حقائق کا جائزہ لیتے ہیںجس سے اسرائیلی خام خیالی کا ثبوت واضح ہو جائے گا۔مسجد اقصیٰ سب سے بڑی مسجد ہے جس میںپانچ ہزار نمازیوں کی گنجائش ہے اور صحن حرم میں بھی ہزاروں افراد سما سکتے ہیں۔اس مقام کا ذرا ذرا مقدس ہے۔اکثر انبیاء ؑ اسی شہر میں مبعوث ہوئے۔نبی مکرمؐ صحابہؓ کے ہمراہ تقریبا سترہ ماہ تک اسی طرف اپنارخِ انور کر کے نماز ادا کرتے رہے۔سفرِمعراج میں بھی اسی مقام کوآپؐ کی پہلی منزل ہونے کا شرف حاصل ہوا۔اور یہاں ہی آپؐ نے اُس نماز کی امامت فرمائی جس میں مقتدی کی حیثیت سے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء ؑ شامل تھے۔(بحوالہ سورۃ بنی اسرائیل آیت نمبر۱)۔مفہوم حدیث ہے کہ” حضرت ابوذر غفاریؓ سے روایت ہے۔ آپؓ فرماتے ہیںکہ میں نے حضورؐ سے دریافت فرمایا کہ زمین پر سب سے پہلے کونسی مسجد بنائی گئی؟آپؐ نے ارشاد فرمایا :مسجدحرام یعنی خانہ کعبہ۔پھر دریافت کیا تو فرمایا:مسجد اقصیٰ اور ان کے درمیان چالیس سال کا عرصہ ہے۔پھر فرمایا کہ جہاں نماز کا وقت آ جائے وہیں پڑھ لو۔”حضرت دائود ؑ اور ان کے بیٹے حضرت سلیمانؑ کے علاوہ بے شمار انبیاء ؑ کے مزاراتِ مقدسہ اسی شہر میں ہیں۔حضرت دائود ؑ نے اس شہر پر تیس سال حکومت فرمائی۔اس دوران آپ ؑ نے بہت سی جنگیں لڑیں جس کا فائدہ یہ ہوا کہ بنی اسرائیل جو کئی قبائل میں منقسم تھی ایک قوم بن گئی۔حضرت دائود ؑ کی دلی خواہش تھی کہ ایک معبد بنائیں۔اسرائیلی روایات کے مطابق ان کو خواب میں ہی بتا دیا گیا تھا کہ مستقل گھر ان کے بیٹے کے عہد میں تعمیر ہو گا۔
چنانچہ سلیمانؑ نے 1012 قبل مسیح میں اس کی تعمیر شروع کرائی۔سات سال تک مسلسل تعمیر جاری رہی اور دو لاکھ افراد تعمیر میں وقتاً فوقتاً حصہ لیتے رہے۔بعد میں یہ عمارت ہیکل سلیمانیؑ کے نام سے موسوم ہو گئی۔یہ فن تعمیر کا شاہکار تھی۔اس کی لمبائی نوے فٹ،چوڑائی تیس فٹ اور اونچائی پینتالیس فٹ تھی۔اس کے اندر مقدس ترین جگہ پر تابوتِ سکینہ بھی رکھا گیا۔حضرت سلیمان ؑ کے وصال مبارک کے بعد بنی اسرائیل دو حصوں میں بٹ گئی۔ عیش و عشرت میں یوں پڑی کہ بتوں کی پوجا کرنے لگے۔رجہان بن سلیمان کو ابھی تخت پر بیٹھے پانچ سال نہیں گذرے تھے کہ شاہ مثری شاق نے یروشلم پر حملہ کر دیا۔شاہی خزانے کے ساتھ ساتھ ہیکل سلیمانی اور عبادت گاہ کی بہت سی قیمتی متبرک چیزیں بھی اٹھا کر ساتھ لے گیا۔ہزکیا نے 740 قبل مسیح تا 700 قبل مسیح اپنے دور میں ہیکل سلیمانی کی عظمت کو دوبارہ بحال کیا۔
یہود کی پہلی قوم کی تباہی بخت نصر کے ہاتھوں 598 قبل مسیح میں ہوئی۔اس حملے میں نا صرف ہیکل سلیمانی کا نام و نشان مٹ گیا بلکہ دیگر صحائف کے ساتھ ساتھ تورات بھی غائب ہو گئی۔بخت نصر کے حملے کے بعد تابوت سکینہ بھی ایسا غائب ہوا کہ آج تک اس کا سراغ نہیں لگایا جا سکا۔539 قبل مسیح میں ایران کے پہلے کسریٰ نے بابل کو فتح کیا تو اس نے یہودیوں کو ان کے وطن واپس جانے کی اجازت دے دی۔انہوں نے یشوع بن یوزدیق اور ذرد باہل ائیل کی قیادت میں ہیکل کی تعمیر دوبارہ شروع کی۔516 قبل مسیح میں تعمیر مکمل ہوئی لیکن رومیوں نے اس کا محاصرہ کر کے اسے پھر تباہ کر دیا۔لیکن ہیرو دواعظم کے دور میں( جو رومی شہنشاہ کے باجگذار کی حیثیت سے یہاں کا بادشاہ بنا تھا )مسجد اقصیٰ نے دوبارہ حضرت سلیمانؑ کے دور والی عظمت حاصل کر لی۔بقول کیپٹن وارن ہیرو کے ،وسیع کردہ ہیکل کا رقبہ ایک ہزار فٹ تھا ۔70 قبل مسیح میں جب رومی شہنشاہ یہاں آیا تو رومی سپاہی اندر گھس گئے۔ایک سپاہی نے جلتی مشعل اندر پھینک دی جس سے سب جل کر راکھ ہو گیا۔رومیوں نے اس پر ہل چلا دیے۔شہنشاہ ہیسٹرین نے اس کا نام ایلیا اور بعد میں قیسطولینیا رکھ دیا۔ماہرین تسلیم کرتے ہیں کہ ہیروط کا ہیکل تباہ ہونے کے بعد صدیوں تک یہاں لوگ یہودیوں کی نفرت کی وجہ سے غلاظت پھینکتے رہے۔
حضرت عمر فاروق ؓ کے دور میں اسے مسلمانوں نے فتح کیا تو اس وقت وہاں یہودیوں کا کوئی معبد نہ تھا،بلکہ کھنڈر تھا۔حضرت عمرؓ نے ان کھنڈرات پر مسجد تعمیر فرمائی۔قدیم سیاح عاقلف نے بھی مسلمانوں کی اُس مسجد کا تذکرہ کیا جسے 670 ء میں وہ دوران سیاحت دیکھ چکا تھا۔اس تعمیر کے پچاس سال بعداموی خلیفہ عبد الملک بن مروان نے 72 ہجری میں مسجد اقصیٰ اور قبطۃ الصخریٰ کی بنیاد اٹھائی ۔وہ صرف قبطۃ الصخریٰ کی تعمیر کر پایا۔مسجدکی تعمیر کا کام ولید بن عبد الملک نے پورا کیا۔اب یہودی اس مقام کو بیت اللحم کے نام سے پکارتے ہوئے خود سے منسوب کرتے ہیں۔ڈاکٹر مرکلے کے مطابق یہ حرم پینتیس ایکڑ پر مشتمل ہے اور مسجد اقصیٰ اور قبطۃ الصخریٰ اسی حرمت والی جگہ میں واقع ہے۔حرم شریف میں چار حوض وضو کے لیے اور واعظین کے لیے چار ہی منبر موجود ہیں۔اندرونی بیرونی دروازوں کی مجموعی تعداد پچاس ہے،مستورات کے لیے تین مقصور ہیں۔مسلمان یہاں محرابوں میں کثرت سے نوافل ادا کرتے ہیں۔
مسجد اقصیٰ کا اطلاق اس پورے علاقے میں ہوتا ہے۔مسلمانوں کے اس موقف کی تصدیق ابن تیمیہ کے اس بیان سے بھی ہوتی ہے جس میں انہوں نے کہا کہ مسجد اقصیٰ وہ سارا علاقہ ہے جو حضرت سلیمان ؑ نے تعمیر فرمایاتھا اور بعد میں حضرت عمرؓ نے بھی اس وقت تعمیر فرمائی جب وہاں کھنڈرات کے سوا کچھ نہیں تھا۔ یہ مسلمانوں کے لیے مقدس مقام ہے اور اس مقام پر نماز پڑھنا بڑا افضل ہے۔21 اگست1969 کو ایک آسٹریلوی یہودی ڈینس مائیکل روہان نے بیت المقدس میں آگ لگا دی۔تین گھنٹے تک آگ بجھائی نہ جا سکی۔جنوب مشرق کی جانب کا بڑا حصہ گر گیا۔بیت المقدس کی فتح کے لیے سلطان صلاح الدین ایوبیؒ نے 16 جنگیں لڑیں جو صلیبی جنگوں کے نام سے مشہور ہیں۔سلطان ہر جنگ میں ایک منبر کو اپنے ساتھ رکھتے تھے۔آخر فتح کے بعد وہ منبر سلطان نے خود اپنے ہاتھوں سے وہاں نصب کیا لیکن اس آگ میں وہ منبر بھی جل کر راکھ ہو گیا۔ اس واقعے کے ایک ہفتے بعد 156اسلامی ممالک پر مشتمل OIC قائم ہوئی لیکن 1973ء میں لاہور میں اپنے دوسرے اجلاس کے بعد غیر فعال ہو گئی۔جس کی کئی وجوہات تھیں۔بہرحال یہودی کسی صورت بھی ہیکل سلیمانی کا وجود مسجد اقصیٰ کی جگہ پر ثابت نہیں کر سکتے جس کو بنیاد بنا کروہ یروشلم پر اپنا قبضہ جمائے ہوئے ہیں یہود و نصاریٰ کی طرف سے اب اس جگہ کو خود سے منسوب کرنا محض ان کی خام خیالی ہے۔انہیں اپنے اس باطل موقف سے اعراض کرنا ہو گا،بصورت دیگر وہ یاد رکھیں کہ پوری مسلم امہ بیت المقدس کی حفاظت کے لیے مثلِ جسد واحد ہیں۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں