میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
بلوچستان،دہشت گردی اور قومی مردم شماری

بلوچستان،دہشت گردی اور قومی مردم شماری

منتظم
منگل, ۲۰ دسمبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

jalal-noor-zayi

اخوندزادہ جلال نورزئی
پاکستان کی اعلیٰ عدالت نے یکم دسمبر 2016ءکوحکم دے دیا ہے کہ حکومت پورے ملک میں 15 مارچ 2017سے مردم شماری شروع کرائے ۔یوں مشترکہ مفادات کونسل نے بھی مذکورہ ماہ و تاریخ سے قومی مردم شماری کرانے پر اتفاق کیا ۔ پیش ازیں مردم شماری کرانے کا فیصلہ ہوچکا تھا تاہم حکومت کوئی پیشرفت نہ کرسکی ۔ امن وامان کا مسئلہ آڑے آگیا۔ مردم شماری میں تاخیر یقینا درست نہیں اس سے بہت سارے مسائل پیدا ہوں گے ۔ بلوچستان میں بلوچ سیاسی جماعتیں معترض تھیں کہ اول تو صوبے میں امن خراب ہے ۔ دوئم ،مختلف علاقوں میں بلوچ عوام نقل مکانی کرچکے ہیں جس کیلیے وہ ڈیرہ بگٹی، کوہلو اور مکران کی مثال دیتے ہیں ۔ سوئم ،افغان مہاجرین لاکھوں کی تعداد میں صوبے کے اندر رہائش پذیر ہیں۔ نیشنل پارٹی کے پاس جب اڑھائی سال وزارت اعلیٰ کا منصب تھا تو تب اس جماعت نے بہت سارے حوالوں سے مصلحت کوشی اختیار کر رکھی تھی، گو مگو کی کیفیت تھی ۔ البتہ بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) واشگاف الفاظ میں ایک ہی مو¿قف بیان کرتی رہی ۔ بلوچستان نیشنل پارٹی افغان مہاجرین کی بلوچستان میں سکونت کے حوالے سے سخت لب و لہجہ اختیار کئے ہوئی ہے۔ سپریم کورٹ کے حکم کے بعد بھی یہ جماعت افغان مہاجرین کی موجودگی میں مردم شماری ناقابل قبول قرار دے رہی ہے۔ جبکہ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی نے عدالت عظمیٰ کے فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے ۔ بلوچ سیاسی جماعتیں اور بعض لکھاری یہ کہتے ہیں کہ افغان مہاجرین بلوچستان کی معیشت پر بوجھ ہےں، جو لاکھوں کی تعداد میں پاکستانی شناختی کارڈ حاصل کرچکے ہیں ۔ اگر مردم شماری ہوتی ہے تو اس سے آبادی کا توازن بگڑ جائے گا ،یعنی پشتون آبادی بڑھ جائے گی۔ یہ جماعتیں اور دانشور یہ الزامات بھی دھرتے ہیں کہ افغان مہاجرین ہی دراصل ملک اور صوبے میں دہشتگردی، تخریب کاری اور لاقانونیت میں ملوث ہیں۔ اس امر میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ بلوچستان میں افغان مہاجرین و افغان تارکین وطن بڑی تعداد میں سکونت پذیر ہیں۔ بڑے بڑے کاروبار اور جائیدادوں کے حامل ہیں۔ سیاست اور تجارت کی سرگرمیوں میں حصہ دار بن چکے ہیں،ملازمتیں حاصل کر رکھی ہیں اور بطور مزدور بھی یہ طبقہ دستیاب ہے۔ مگر یہ کہنا کہ افغان باشندے ہی دہشتگردی اور جرائم میں شریک ہیں، درست نہیں ۔ خطہ دہشتگردی کی لپیٹ میں ہے۔ دہشتگرد تنظیمیں متحرک ہیں، لہٰذا دہشتگردی کی اپنی ایک الگ تعریف ہے ۔ یہ کسی علاقہ ، نسل اور قوم کے ساتھ مخصوص نہیں ہے۔ افغانستان جس کا سرپرست اعلیٰ بھارت بنا ہوا ہے، سے بلوچستان اور پاکستان میں دہشتگردی ہورہی ہے۔ بلوچستان کی علیحدگی پسند تنظیموں کی پشت پناہی بھارت افغان سرزمین پر کررہا ہے ۔ اسی طرح تحریک طالبان پاکستان ، جماعت الاحرار اور القاعدہ کے ٹھکانے افغانستان میں موجود ہیں۔ لشکر جھنگوی جو کہ اب لشکر جھنگوی العالمی کے نام سے سرگرم ہے کا مرکز افغانستان ہے۔ اس تنظیم سے وابستہ افراد کی اکثریت مقامی رہی ہے۔ 5دسمبر2016ءکو انٹیلی جنس بیورو اور کوئٹہ پولیس نے صوبائی دار الحکومت سے متصل شمال میں واقع ضلع پشین میں حرمزئی کے مقام پر ایک کارروائی میں پانچ مسلح افراد کو مارا۔ ان سب کا تعلق لشکر جھنگوی العالمی ، جیش الاسلام اور تحریک طالبان پاکستان سے بتایا گیا۔ مارے جانے والوں میں8اگست کو سول اسپتال میں وکیلوں پر خودکش حملے کے ماسٹر مائنڈ جہانگیر بادینی عرف محمد عرف امیر صاحب بھی شامل تھا۔جہانگیر بادینی خضدار انجینئرنگ یونیورسٹی کا فارغ التحصیل تھا یعنی انجینئر تھا ۔ ہلاک افراد نے لاءکالج کوئٹہ کے پرنسپل بیرسٹر امان اللہ اچکزئی کو قتل کیا تھا بلکہ ایک ملزم علی حسن عرف دلاور بیرسٹر امان اللہ اچکزئی کا ہمسایہ تھا۔ باقی افراد کی شناخت میزئی اڈہ قلعہ عبداللہ کے رہائشی سید نور، کوئٹہ کے کیچی بیگ کے رہائشی حبیب اللہ لہڑی اور چمن ہاﺅسنگ اسکیم کوئٹہ کے رہائشی سمیر آفریدی کے نام سے ہوئی۔سول اسپتال کے خودکش حملہ آور کی شناخت بھی ہوگئی۔ خودکش بمبار احمد علی ولد سجاد احمد قوم اعوان کوئٹہ شہر میں کلی دیبہ کا رہائشی تھا۔ حملے سے پہلے ماسٹر مائنڈ جہانگیر بادینی نے احمد علی کو کوئٹہ کے جناح روڈ پر واقع ایک دکان سے سیاہ جوتے خرید کردیئے یعنی وکلاءکے یونیفارم کا بندوبست بھی کرکے دے دیا تھا،تاکہ وہ وکیل کے بھیس میں داخل ہوکر سول اسپتال میں اپنے ساتھی کی ٹارگٹ کلنگ کے بعد جمع ہونے والے وکلاءکو نشانہ بناسکے۔ وزیر داخلہ سرفراز بگٹی کے مطابق جہانگیر بادینی کالعدم تنظیم کا سربراہ تھا اور خود ان واقعات میں براہ راست ملوث رہا۔ آٹھ اگست کی صبح منو جان روڈ پر بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے صدر بلال انور کاسی کو ٹارگٹ کیا اور اس سے قبل بیرسٹر امان اللہ اچکزئی کو شہید کیا۔ رمضان المبارک میں محلہ فقیر آباد میں سب انسپکٹر ملک مشتاق کو مسجد میں سجدے کی حالت میں شہید کیا۔ اکتوبر میں سبزل روڈ پر تین ایف سی اہلکاروں کو شہید کیا ۔ اور کرانی میں چار خواتین کو نشانہ بنایا جو لوکل بس میں ہزارہ ٹاو¿ن جارہی تھیں۔ صوبائی وزیر لیبر و مین پاور سرفراز چاکر ڈومکی پر حملے سمیت مختلف وارداتوں میں ملوث تھا۔ پہلے پہل تحریک طالبان پاکستان نے قرار دیا کہ ان کے ساتھیوں نے پاکستانی سیکورٹی فورسز کے ساتھ جنگ میں ڈٹ کر مقابلہ کیا اور جام شہادت نوش کیا اور کہا کہ وہ ساتھیوں کی شہادت پر فخر کرتے ہیں۔ ما بعد لشکر جھنگوی العالمی کے ترجمان علی بن سفیان نے مقابلے کو جعلی قرار دیا اورکہا کہ فورسز نے مقابلے کا ڈھونگ رچایا ۔ اس تنظیم کا دعویٰ ہے کہ تنظیم
کے پہلے سے گرفتار ساتھیوں کو مارا گیا۔ غرضیکہ دونوں تنظیموں نے تسلیم کیا ہے کہ مارے جانےو الے افراد کا تعلق ان سے تھا۔ اور پھر دونوں تنظیموں کا آپس میں تعلق بھی ثابت ہوا ہے۔ چنانچہ تحریک طالبان پاکستان آپریشن ضرب عضب کے بعد کہاں منتقل ہوگئی ، یہ بھی راز نہیں۔ افغانستان کے اندر ان تنظیموں کی پوری قیادت موجود ہے۔ بلوچستان میں لشکر جھنگوی کی قیادت اور ارکان سب کے سب مقامی رہے ہیں اور جو افغان باشندے دہشتگردی میں ملوث پائے گئے ان کا تعلق بھی افغان خفیہ ادارے این ڈی ایس سے تھا یعنی افغان حکومت بلوچستان میں دہشتگردی کرانے کے مذموم واقعات میں ملوث ہے ۔ چنانچہ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ کہنا کہ افغان مہاجرین دہشتگرد ہیں ،قطعی درست نہیں۔ بعض دانشور غیر منطقی اور ہوائی باتوں کے ذریعے عوام الناس کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ افغان مہاجرین اور افغان باشندے بلاشبہ بلوچستان میں آباد ہیں۔ ان کی اپنے ملک افغانستان واپسی ضروری ہے بلکہ ایسا پاکستان اور بلوچستان کے عوام کے مفاد میں ہے ۔ یہ مطالبہ بھی درست ہے کہ جن غیر مقامی افراد نے پاکستانی دستاویزات حاصل کر رکھے ہیں وہ فوری طور منسوخ کئے جائیں تاکہ مردم شماری کا عمل شفاف طریقے سے ممکن ہو ۔ اگر بلوچستان کے کسی علاقے سے بوجہ امن وامان کی صورتحال کے نقل مکانی ہوئی ہے تو یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ ان افراد کی واپسی یقینی بنائے ۔ یا ان خاندانوںکا مردم شماری میں اندراج بہر طورکرایا جائے۔صوبے کے اندر مردم شماری کا تنازع کھڑا ہے ۔ایسے میں محمود خان اچکزئی نے ایک اور منطق پیش کردی ۔ان کی نئی تاویل یوں ہے کہ ”ارکان پارلیمنٹ اور وزراءسمیت آدھے پاکستانیوں نے دہری شہریت حاصل کر رکھی ہے، پھر افغان مہاجرین کو پاکستان کی شہریت کیوں نہیں مل سکتی “مزید تجویز یا مطالبہ یہ کر دیا کہ ”افغان مہاجرین کے لیے بارڈر (سرحد) سے لیکر اٹک اورمیانوالی تک الگ صوبہ بنایا جائے ،جس کا نام افغانیہ ہو “۔سو محمود خان اچکزئی کے اس نئے خیال اور منطق پر فقط اتنا کہا جا سکتا ہے کہ کیا ایسا ممکن ہے ؟؟؟
٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں