میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
بدیسی پرندوں کا شکار اور عرب شیوخ

بدیسی پرندوں کا شکار اور عرب شیوخ

منتظم
اتوار, ۲۰ نومبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

anwaar-haqqi

انوار حسین حقی
خطہ عرب سے عالم اسلام اور پاکستان کی محبت اور عقیدت میں کسی کو کلام نہیں ہے ۔ لیکن عرب ممالک کے متمول حکمرانوں کا معاملہ الگ ہے ۔ ان کی دولت کی فراوانی نے بہت سے ترقی پذیر ممالک پر اپنا بے پناہ اثر و رسوخ قائم کر رکھا ہے ۔اسلامی دنیا کے غریب اور ترقی پزیر ممالک کے اکثر حکمران اپنے ممالک میں عرب حکمرانوں اور ان کے خاندان کے افراد سے تعلقات نبھاتے وقت اپنے ممالک کے قوانین کو خاطر میں نہیں لاتے ۔ عرب شہزادے اور مالدار شیوخ پاکستان کی سیاست اور معاشرت پر بھر پور انداز میں اثر انداز ہوتے ہیں ۔ صحرا کے ان شیخوں کی سرشت بڑی عجیب ہے۔ ان میں سے بعض اپنے ملک میں چوروں کے ہاتھ کاٹتے ہیں لیکن دوسرے ملکوں کے ”من پسند وں“ کو تحفظ فراہم کرتے ہیں ۔
ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ پانچ عرب ممالک سے تعلق رکھنے والے شاہی خاندان کے افراد کو تلور سمیت سائبیریا سے آنے والے آبی پرندوں کے شکار کے اجازت نامے جاری کر دیئے گئے ہیں “اب ہوگا یہ کہ عرب شاہی خاندان کے قافلے سی ون طیاروں کے ذریعے بھاری سامان جن میں ایئر کنڈیشنز خیموں ، گاڑیوں اور آلات سمیت سندھ، پنجاب اور بلوچستان کے الاٹ کردہ علاقوں میں پہنچنا شروع ہو جائیں گے ۔ جہاں وہ نومبر سے مارچ تک ان پرندوں کا شکار کریں گے ۔پاکستان میں جہاں انسانی خون کی ارزانی کا دور دورہ ہے وہاں ان دنوں شدید ترین سردی کے باعث خوراک اور پناہ کی تلاش میں پاکستان آنے والے آبی پرندوں کے بے دریغ شکار کی اطلاعات عام ہیں ۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ”تلور“ بین الاقوامی قوانین کے مطابق نایاب پرندوں کی اُس ریڈ لسٹ میں شامل ہے جن کی نسل کو معدومیت کا خطرہ ہے ۔ ایک رپورٹ کے مطابق 60 سینٹی میٹر لمبے اور 140 سینٹی میٹر پروں کے پھیلاو¿ والے اس پرندے کی دنیا بھر میں کل تعداد ایک لاکھ سے بھی کم رہ گئی ہے ۔ پاکستان میں اس پرندے کی دو فیصد آبادی ایک سیزن میں شکار ہو جاتی ہے ۔ ہمارے ہاں 1992 ءسے 2004 ءتک مختلف عدالتیںاس کے شکار پر پابندی عائد کرتی رہی ہیں اور اعلیٰ عدالتوں میں اپیل کے بعد یہ پابندی ختم ہوتی رہی ہے ۔
ماضی قریب میں جب اس پرندے کے شکار پر مکمل پابندی عائد تھی تو عرب شیوخ نے پاکستان میں ایک ادارے کے ذریعے اس پابندی کے مقامی آبادی کے روزگار پر پڑنے والے مضر اثرات پر بھاری سرمائے کی لاگت سے دستاویز ی فلم بھی تیار کر وائی تھی ۔
تلور منگولیا ، سائبیریا اور سینٹر ل ایشیاءکے سرد ترین علاقوں سے سخت ترین سردی کے موسم میں پانچ سے سات دنوں کے مختصر عرصے میں ساڑے پانچ ہزار کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے ٹھٹھہ ، دھابیجی ، جنگ شاہی ، جامشورو، جھمپر ، خیر پور، نواب شاہ ، ننگر پارکر ، مچھ، چاغی ، ڈیرہ بگٹی ، قلعہ سےف اللہ ، چشمہ بیراج ، چولستان ، ڈیرہ غازی خان ، ڈیرہ اسماعیل خان اور بہاولپور کے علاقوں میں پہنچتے ہیں ۔
پنجاب کے شمال مغربی ضلع مےانوالی سے موسم سرما کے چار مہےنوں اکتوبر سے جنوری تک آبی پرندے بڑی تعداد مےں شکار کیے جاتے ہےں۔ رواےتی شکارےوں کے ساتھ ساتھ بڑے بڑے بےوروکرےٹ اور سےاستدان بھی اس ممنوعہ شکار مےں دلچسپی لیتے ہیں ۔قدرت نے ہمارے ملک کو موسموں کی نعمتوں کے ساتھ ساتھ فطرت کی تمام ترخوبصورتےوں سے نوازا ہے۔ موسم سرما کی شدت کے ساتھ ہی روس کے برفانی علاقوں سے ہجرت کرنے والے مختلف اقسام کے خوبصورت پرندوں کی بڑی تعداد ہماری جھےلوں کا رُخ کرتی ہے۔ ان مےں مرغابی، نےل سر اور سائبرےن کرےن( سفےد کونج ) شامل ہےں۔ جس بڑی تعداد مےں ےہ خوبصورت پرندے پاکستان کا رُخ کرتے ہےں اُسی بے دردی کے ساتھ ےہ شکاریوں کا نشانا بن جاتے ہےں۔ ہجرتوں کے موسموں اور بے درےغ شکار نے فطرت کے شاہکار ان خوبصورت پرندوں مےں سے تلور کے ساتھ ساتھ سفےد کونج (Siberian Crane ) کی نسل کی بقاءکو شدےد ترےن خطرات سے دو چار کر رکھا ہے۔
سائبےر ےا کے درےائے ” اوب“ کے کنارے چھوٹی بڑی آبگاہوں کے پھےلے ہوئے طوےل سلسلہ مےں پےدا ہونے اور پروان چڑھنے والی سفےد کونج موسمِ سرما کے آغاز مےں اس وقت نسبتاً گرم علاقوں کا رخ کرتی ہے جب سردی اور برف جمنے کی وجہ سے درےاو¿ں اور جھےلوں کی مچھلےاں پانی کی تہ مےں چلی جاتی ہےں۔سفےد کونج کا چہرہ چونچ سے لے کر آنکھوں سے کچھ اوپر تک سرخ رنگ کے نقاب سے ڈھکا ہوا ہوتا ہے۔جو اس سفےد بُراق رنگ کے آبی پرندے کے حسن کو چار چاند لگا دےتا ہے۔سفےد کونج کو انگرےزی مےں سائبےرےن کرےن (Siberian Crane )اور سائنسی اصطلاح مےں اس کی نسل کو Leucogeranus Gurs کہتے ہےں۔اس کا قد اےک اعشارےہ چار مےٹر تک بلند ہوتا ہے۔سفےد کونج کے پروں کی لمبائی 2.1 سے 2.3 ،مےٹر تک ہوتی ہے جبکہ وزن 4.9 سے 8.6 کلو گرام تک ہوتا ہے۔نر اور مادہ کونج تقرےباً اےک جےسی ہی جسامت اور رنگ و روپ رکھتی ہےں۔تاہم نر کونج کا قد ذرا نکلتا ہوا ہوتا ہے۔سائبےرےامےں اس کونج کی تےن بڑی آبادےاں ہےں۔ کونجوں کی دوسری بڑی آبادی ” مرکزی“(جو کہ مغربی سائبےرےا مےں ہے) سے ہر سال سفےد کونجوں کی بڑی تعداد 3700 مےل کا فاصلہ طے کرکے افغانستان اور پاکستان کے مختلف علاقوں سے پرواز کرتے ہوئے بھارت کے علاقے راجھستان مےں واقع کےولا نےشنل پارک اور بھرت پور تک پہنچتی ہے۔مئی اور جولائی کا وسط سائبےرےن کونج کے انڈے دےنے کا موسم ہوتا ہے۔ےہ صرف دو انڈے دےتی ہے جن مےں سے صرف اےک بچہ نکلتا ہے۔ اس لئے اس کی افزائشِ نسل بہت ہی محدود ہے۔ماحول پر کام کرنے والے کہتے ہیں کہ سائبےرےا سے ہجرت، سرمائی ٹھکانوں کی ترقےاتی سرگرمےوں اور بے درےغ شکار نے سفےد کونج کی نسل کی بقاءکو سنگےن خطرات سے دوچار کر رکھا ہے۔ہمارے علاقوں مےںجاری تلور، سرخاب ، سائبیرین کرین ،مرغابےوں اور دےگر آبی پرندوں کے بے درےغ شکار نے ان نایاب پرندوں کی نسل کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچاےا ہے۔ سائبےرےن کرےن کی نسل کی بقا کے لیے 1970 ءسے کوششےں کی جارہی ہےں۔لےکن اس کے باوجود اس کی نسل مےں تےزی سے کمی واقع ہو رہی ہے۔ تلور کی طرح ےہ خوبصورت پرندہ بھی ماحول کی عالمی انجمن ” آئی ےو سی اےن“ کی بقاءکے خطرات سے دو چار جانوروں اور طےور( پرندوں) کی سرخ فہرست2002 (Red list ) مےں شامل ہے۔اور اسے شدےدخطرات سے دوچار پرندے کا درجہ دےا گےا ہے۔سائبےرےن کرےن کو خطرات سے دوچار جانوروں اور پودوں کی عالمی تجارت سے متعلق معاہدے CITES اور ہجرت کرنے والے پرندوں سے متعلق عالمی معاہدے جسے ” بون کنونشن“ بھی کہتے ہےں کی فہرست مےں بھی شامل کےا گےا ہے۔
چاروں صوبوں مےں وائلڈ لائف کے تحفظ کے لئے محکمے قائم ہےں۔ اربوں روپئے کے فنڈز ان محکموں پر خرچ کیے جارہے ہےں۔ لےکن ےہ محکمے جنگلی حےات کے تحفظ مےں بری طرح ناکام نظر آتے ہےں۔
ہمارے ملک مےں قتل و غارت گری اس قد ر بڑھ گئی ہے کہ انسان کی کوئی قےمت نہےں رہی۔ اےک انسان کے قتل کو پوری انسانےت کے برابر قرار دےنے والے دےن پر دعویدار ملک میں انسانی جان کی قےمت اس قدر ارزاں ہے کہ کوئی سوچ بھی نہےں سکتا۔ اےسے ماحول مےں ہمار ی توجہ فطرت کی دےگر نعمتوں کے تشکر اور تحفظ کی جانب کم ہی پڑتی ہے۔ ملک بھر مےں جھےلوں کے کنارے بدےسی پرندوں کا قتلِ عام جاری ہے۔ لےکن ہم مےں سے کوئی بھی اس جانب متوجہ نہیں ہو رہا ہے۔
پاکستان نے ” رےو کانفرنس“ مےں حےاتےاتی تنوع کے معاہدے کو تسلےم کرنے اور اس پر عمل پےرا ہونے کا وعدہ بھی کےا تھا اور اس معاہدے پر دستخط بھی کیے تھے لےکن اس کے باوجود پاکستان مےں ماحول اور حےاتےاتی تنوع خطرات سے دو چار ہے۔ تمام جانداربشمول انسان خالقِ کائنات کی زمےن کے ماحولےاتی نظام مےں اےک دوسرے سے پےوست کڑےاں ہےں لےکن اگر تلور اور سفےد کونج کی نسل بے دریغ شکار کی وجہ سے ختم ہو گئی تو زمےن کے ماحولےاتی نظام کی اس کڑی کے نقصان کی انسان کےسے تلافی کرے گا۔
٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں