میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
اللہ کی معرفت

اللہ کی معرفت

منتظم
اتوار, ۲۰ نومبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

syed-amir-najeeb

سید عامر نجیب
دو افراد کی باہم لڑائی کا معاملہ ایک منصف کے روبرو پیش ہوا منصف نے پہلے صاحب سے پوچھا تم نے اسے مکا مار کر زخمی کیوں کیا ؟ موصوف بولے ” جناب اس نے مجھے ایک مہینہ پہلے گینڈا کہا تھا “ ۔ جب ایک مہینے پہلے تمہیں گینڈا کہا تھا اُس وقت تم نے جواباً مکا کیوں نہیں مارا ایک مہینے بعد یہ جواب کیوں دیا ۔منصف نے دوسرا سوال کیا ۔جناب اُس وقت میں نے گینڈا نہیں دیکھا تھا آج ہی میں چڑیا گھر سے گینڈا دیکھ کر آیا ہوں ۔ موصوف نے بڑی سادگی سے جواب دیا ۔
دراصل یہ ایک لطیفہ ہے اس لطیفے میں ایک واقعہ پر ایک آدمی کے دو مختلف رد عمل ہیں ایک شخص نے جب انھیں گینڈا کہا تو انھیں قطعی نا گوار نہیں گزرا اور نہ انھیں غصہ آیا کیونکہ انھیں معلوم نہیں تھا کہ گینڈا ہوتا کیا ہے وہ بد صورتی کی علامت ہے یا خوبصورتی کی ، وہ جرات و بہادری کا سمبل ہے یا بزدلی کا اپنی اس لاعلمی کی وجہ سے وہ فوری طور پر اپنا فطری رد عمل ظاہر نہ کر سکا لیکن جب اس نے گینڈے کو دیکھ لیا اور جان لیا تو فطری طور پر اسے نا گوار گزرا تا ہم وہ اپنے فطری غصے کو قابو کرنے کے بجائے اس کا جاہلانہ اظہار کر بیٹھا ۔
اسی طرح فطرت پر مبنی تعلقات کے قیام کے لئے بھی معرفت ضروری ہے مثلاً دو سگے بھائیوں میں فطری طور پر محبت اور قربت کا تعلق ہوتا ہے لیکن اگر دو بھائی بچپن میں بچھڑ گئے ہوں اور جوان ہونے کے بعد ایک دوسرے سے اجنبی کے طور پر ملاقات ہوجائے تو ظاہر ہے عدم معرفت کی وجہ سے ان کے تعلقات کی نوعیت وہ نہیں ہوسکتی جو دو سگے بھائیوں کی ہوتی ہے کیونکہ وہ ایک دوسرے کو اصل حیثیت سے نہیں پہچانتے ۔
اللہ تعالیٰ سے انسان کے فطری تعلق کی نوعیت خالق اور مخلوق عابد اور معبود ، ساجد اور مسجود ، حاکم اور محکوم وغیرہ کی ہے لیکن کیونکہ انسانوں میں اللہ کی پہچان مفقود ہے اسی لئے اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس کا فطری تعلق قائم نہیں ہوسکا اس وقت دنیا میں اللہ تعالیٰ سے بغاوت اور سرکشی کا جو طوفان برپا ہے وہ دراصل اللہ تعالیٰ کی پہچان ، شناخت اور معرفت ، کا بحران ہے جس طرح اپنی ماں کو پہچاننے والا کوئی سلیم الفطرت انسان اس سے محبت کیے بغیر نہیں رہ سکتا اسی طرح اللہ کو اس کی مختلف حیثیتوں سے پہچاننے والا کوئی انسان اسے معبود حقیقی مانے بغیر نہیں رہ سکتا ۔اللہ کے احکامات سے سرکشی اور بغاوت اور اس کی ذات سے متعلق غلط فہمیوں پر مبنی عقائد کی وجہ اللہ تعالیٰ کی درست معرفت اور شناخت کا نہ ہونا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کو جاننے اور پہچاننے والا کوئی انسان کبھی اس کے مقابلے میں سرکشی نہیں کر سکتا کیونکہ وہ جانتا ہوگا کہ ” وہ اللہ پناہ دیتا ہے اور اس کے مقابلے میں کوئی پناہ نہیں دے سکتا “ ( سورة المومنون 88 ) اللہ کو جاننے والا کوئی شخص کیسے سرکشی کر سکتا ہے جبکہ اسے معلوم ہے کہ اللہ کے مقابلے میں اس وسیع و عریض کائنات میں کوئی جائے پناہ نہیں ہے نہ اس سے چھپا جا سکتا ہے نہ اس سے بھاگا جا سکتا ہے نہ اس سے اقرا جس سکتا ہے بلکہ وہ اللہ ہم سے بے پرواہ ہوجائے اسے تو کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن ہم ایک لمحے کے لئے بھی اس سے بے پرواہ ہو کر برقرار نہیں رہ سکتے اللہ کو جاننے والا اس کے مقابلے میں اپنے کوبالکل بے بس محسوس کرتا ہے اسی لئے وہ صرف اسی کے سامنے عاجزی اور تضرع کرتا ہے۔ اسی کو راضی کرنے کی کوشش کرتا ہے اسی کی پسند و ناپسند کا خیال کرتا ہے مشکلات اور پریشانیوں میں اسی کو مدد کے لئے پکارتا ہے یہی وہ فطری تعلق ہے جو اللہ اور انسان کے درمیان قائم ہوتا ہے تاہم اس تعلق کے قیام کا تمام تر انحصار اللہ کی معرفت پر ہے اللہ کی گہری پہچان رکھنے والے کبھی اس سے متعلق بد عقیدوں میں مبتلا نہیں ہوتے اور اللہ کی ذات اور صفات سے لاعلم لوگ ہمیشہ عقیدو ں کی خرابی میں مبتلا ہوجاتے ہیں اس لئے اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپکے اپنے گرد و پیش میں موجود لوگوںکے عقائد ٹھیک ہوں انھیں اللہ کی معرفت کرائیے انھیں بتائیے کہ اللہ کی ذات کن کن صفات کی حامل ہے ۔
اللہ کی معرفت کے دو ذرائع ہیں ایک اللہ کی کتاب یعنی قرآن مجید جس میں اللہ نے خود اپنے بارے میں معلومات دی ہے ۔ مثلاً یہ کہ ” اللہ ہر چیز پر قادر ہے“ زمینوں اور آسمانوں میں جو کچھ ہے اس سب کا مالک اکیلا اللہ ہے اللہ نے ہمیں اور ہم سے پہلے تمام انسانوں کو پیدا کیا “ وغیرہ وغیرہ ۔ قرآن ہی کے ذریعے اللہ یہ بتاتا ہے کہ اسے کون سے اعمال پسند ہیں اور کون سے نا پسند ، اللہ یہ بھی بتاتا ہے کہ انسانوں کے مرنے کے بعد میں نے ان کے ساتھ کیا کرنا ہے ۔ قرآن مجید دراصل اللہ کی معرفت کی کتاب ہے اور جو کوئی جتنا قرآن سے جڑتا ہے وہ اتنی ہی زیادہ اللہ کی معرفت حاصل کرتا ہے اور اللہ کی معرفت حاصل کرنے والا انسان اللہ سے محبت کیے بغیر نہیں رہ سکتا ہے اور نہ ہی اس سے بے خوف ہوسکتا ہے ۔
اللہ کی معرفت کا دوسرا بڑا ذریعہ یہ پوری کائنات ہے ۔ زمین و آسمان اور ان کے درمیان جو کچھ بھی ہے سب کا سب اللہ کے وجود اور اس کی اعلیٰ صفات کی علامات ہیں ۔ انھیں اللہ نے اپنی نشانیاں قرار دیا ہے اور انسانوں کو ان پر غور و فکر اور تدبر کرنے کی ترغیب دلائی ہے ۔ اس کائنات پر غور و فکر کرنے والے اہل ایمان اللہ کی قدرتوں اور کمالات پر حیرت زدہ ہوتے ہیں اور پھر نہایت عاجزی کے ساتھ اعتراف کرتے ہیں کہ اللہ تو سب سے بڑا ہے تو ہر عیب سے پاک ہے ، تعریفوں کے لائق صرف تیری ذات ہے اور واقعی تیرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ۔ اللہ کی بنائی ہوئی حیرت انگیز وسعتیں رکھنے والی اس کائنات میں غور کرنے والے ایک اور حیرت انگیز انکشاف کرتے ہیں کہتے ہیں
سرسری تم جہاں سے گزرے
ورنہ ہرجا جہانِ دیگر تھا
ہم تو ہر چیز کو سطحی طور پر دیکھتے ہیں لیکن اگر غور کریں تو چھوٹی سی چھوٹی چیزوں میں خود ایک کائنات آباد ہے ۔
اصل بات یہ ہے کہ موجودہ معاشرتی بگاڑ جس میں حکمرانوں سمیت تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد اور عوام الناس سب شامل ہیں اسکی اصل وجہ اللہ کو نہ پہچاننا ہے وہ اللہ جس نے ہمیں پیدا کیا اور جس نے ہمیں مارنا ہے اور جس نے قیامت کے دن ہمارا حساب کتاب کر دینا ہے ۔
٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں