میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
جسٹس(ر) ریٹائرڈ محمد نور مسکانزئی کا بہیمانہ قتل

جسٹس(ر) ریٹائرڈ محمد نور مسکانزئی کا بہیمانہ قتل

ویب ڈیسک
جمعرات, ۲۰ اکتوبر ۲۰۲۲

شیئر کریں

وفاقی شرعی عدالت اور بلوچستان ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس جسٹس ریٹائرڈ محمد نور مسکانزئی کو مسلح افراد نے مسجد کے اندر عشاء کی نماز کے دوران بہیمانہ اور بزدلانہ طورگولیاں برسا کر قتل کردیا۔ یہ دلخراش سانحہ 14اکتوبر کو ان کے آبائی علاقے خاران میں پیش آیا ۔مسکانزئی خاران شہر میں رہائش پذیر تھے۔ حملے کے دوران ان کا بہنوائی حاجی ممتاز گولی لگنے سے زخمی ہوا ہے۔ ڈاکٹروں نے بتایا محمد نور مسکانزئی کو پیٹ میں چار گولیاں لگی ہیں ۔ کالعدم بلوچ لبریشن آرمی نے واقعہ کی ذمہ داری قبول کرلی ہے۔ یہ دھڑا نواب خیر بخش مری کے بیٹے حیربیار مری سے منسوب ہے۔ اس کالعدم مسلح گروہ سے پہلے پہل نواب خیر بخش مری کے چھوٹے بیٹے زامران مری نے الگ ہوکر یونائیٹڈ بلوچ آرمی( یو بی اے ) کے نام سے الگ تنظیم قائم کرلی تھی۔ حیربیار مری کی طرح زامران مری بھی بیرون ملک مقیم ہے۔ نواب مری کے بیٹے بالاچ مری نے 2000ء کی دہائی کے آغاز میں کالعدم بی ایل اے کھل کر سامنے آئی ۔بالاچ مری نے پہاڑوں پر جاکر خود مسلح کارروائیوں کی قیادت سنبھال لی۔ یہ مسلح گروہ ستر کی دہائی کے شورش کے بعد پس منظر میں چلا گیا تھا ۔ بالا چ مری 2002ء کے عام انتخابات میں پی بی23 کوہلو سے رکن بلوچستان اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔ چناں چہ اسی دوران ان کے بھائی حیربیار مری ، زامران مری اور گزین مری بیرون ملک چلے گئے۔ گزین مری نے البتہ ایک ڈیل کے نتیجے میں واپس پاکستان آگئے ۔ ان کے خلاف مختلف مقدمات درج تھے جس کا اس نے عدالتوں میں سامنا کیا۔سال2000ء جنوری میں کوئٹہ کے زرغون روڈ پر بلوچستان ہائی کورٹ کے جج ،جسٹس نواز مری ایک حملے میں قتل ہوئے۔ لواحقین نے نواب خیر بخش مری سمیت ان کے بیٹوں کو نامزد کردیا ۔جس پر نواب خیر بخش مری گرفتار کرلئے گئے تھے۔ اس مقدمہ قتل میں عبدالنبی بنگلزئی بھی اور چند دوسرے بھی گرفتار کرلیے گئے تھے۔ عبدالنبی بنگلزئی کالعدم بی ایل اے کے مرکزی کمانڈر تھے ۔ جیل سے رہا ہونے کے عبدالنبی بنگلزئی پھر رپوش ہوکر عسکریت پسندی کی راہ اپنا لی۔ بنگلزئی نے بعد ازاں حیر بیار سے الگ ہوکر ان کے چھوٹے بھائی زامران کی یو بی اے کی کمانڈ سنبھال لی۔ عبدالنبی بنگلزئی ابھی ضعیف ہے ،کہیں گوشہ نشین ہیں۔ کالعدم بی ایل اے سے کمانڈر اسلم اچھو اور بشیر زیب نے الگ ہوکر بی ایل اے ہی کے نام سے الگ ھڑا قائم کرلیا۔ اس گروہ کو سرداروں نوابزادوں کی بجائے متوسط طبقے کے نوجوانوں کی تنظیم سمجھا جاتا ہے۔ اس گروہ نے کئی سنگین حملے کئے۔ خودکش حملوں کا سلسلہ شروع کیا۔ اسلم اچھو کے افغان صوبہ کندھار کے پوش علاقے’’ عینو مینہ‘ ‘میں بم دھماکے میں مارے جانے کے بعد کمانڈ بشیر زیب کو سونپ دی گئی۔ گویا بلوچستان میں کالعدم بلوچ لبریشن فرنٹ( بی ایل اے ) کے سربراہ ڈاکٹر اللہ نذر اور اسلم اچھو کی بی ایل اے عملیات کے لحاظ سے نمایاں ہے۔ جسٹس محمد نور مسکانزئی پر حملہ البتہ حیربیار مری کے دھڑے کی ایک مدت بعد بڑی کارروائی ہے جس کے لیے جواز ’’ تو تک‘‘ میں مسلح لاشوں کی برآمدگی کے بعد جوڈیشل کمیشن کے فیصلے کو قرار دیا۔ یہ لاشیں جنوری2014ء میں خضدار کے علاقے ’’توتک مژی ‘‘میں برآمد ہوئی تھیں۔ صوبے میں سیاسی جماعتوں اور لاپتہ افراد کے لواحقین کی تنظیم نے اس مسئلے کو اٹھایا کہ یہ گمشدہ افراد کی باقیات ہیں ۔نور محمد مسکانزئی تب بلوچستان ہائی کورٹ کے جج تھے۔
وزیراعلیٰ عبدالمالک بلوچ ن ان پر مشتمل ایک رکنی عدالتی کمیشن بنایا۔ کمیشن نے مئی2014ء میں اپنی رپورٹ مکمل کرکے بلوچستان حکومت کو پیش کی۔ اگست 2014ء کو تین صفحات پر مشتمل کچھ مندرجات اور سفارشات ایک پریس ریلیز کی شکل میں عام کیے۔ اس پریس ریلیز کے مطابق کمیشن کی رپورٹ میں حکومت، فوج،خفیہ اداروں کے اجتماعی قبروں کے معاملے میں ملوث ہونے کے امکان کو مسترد کیا گیا اور یہ کہ ’’ایک گواہ کے سواکسی نے بھی حکومت اور اداروں کے خلاف بیان نہیں دیا۔ اس گواہ کا بیان بھی سنا سنایا،خود اخذ کردہ ،تجریات پر مبنی اور بغیر تائید کے تھا ‘‘۔تاہم کمیشن نے شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کے آئینی فرائض میں حکومت کو غفلت کا مرتکب قرار دیا اور مارچ سے دسمبر2013ء تک خضدار میں تعینات سول انتظامیہ کے افسران کے خلاف کارروائی کی سفارش کی۔ یہ بھی قرار دیا کہ’’ اشارے شفیق الرحمان اور اس کے ساتھیوں کی طرف جاتے ہیں‘‘۔دیکھا جائے تو کمیشن نے دستیاب اور معروضی شواہد کے تحت درست رپورٹ مرتب کی تھی ۔بہر حال صوبے کی ایک نمایاں اور اچھی شہرت کے حامل شخصیت کے بہیمانہ قتل پر صوبہ مغموم ہوا ہے۔ اس فعل کو نفرت کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے، بلکہ شرمناک کہا ہے ۔ بلوچستان کے جج اور وکلا تنظیموں نے سیاہ واردات کی مذمت کی ہے۔ 15اکتوبر کو کوئٹہ اور صوبے کے تمام اضلاع کی عدالتوں میں یوم سیا منایا گیا۔ عدالتی امور کا احتجاجاً مقاطعہ کیا گیا۔بلوچستان ہائی کورٹ ، ہائی کورٹ سرکٹ بینچزز اور تمام ضلعی عدالتوں میں تین روزہ سوگ منایا گیا۔کمانڈر 12 کور لیفٹیننٹ جنرل آصف غفور واقعہ کے اگلے روز خاران مسکانزئی کی رہائش گا ہ پہنچ گئے ۔لواحقین سے تعزیت کرلی ۔قرار دیا ہے کہ قاتلوں کو قانون کی گرفت میں لایا جائے گا۔ نیشنل پارٹی کی جانب سے قتل کی واضح الفاظ میں مذمت کی گئی ہے ۔پارٹی سربراہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا ہے کہ ’’بلوچستان ایک اہم اور قابل انسان سے محروم ہو گیا ہے ۔اور عام و بااثر افراد کو اس طرح نشانہ بنانے سے صوبہ مزید انارکی اور انتشار کی جانب گامزن ہو گا‘‘۔ڈاکٹر مالک بلوچ نے کہا ہے ’’کہ ایسے اقدامات سے قومی تحریک تقویت کی بجائے بلوچ معاشرہ مزید تباہی اور بربادی کی طرف جائے گا ‘‘ ۔ محمد نور مسکانزئی نماز کے دوران نشانہ بنائے گئے۔ ایسی واردات کی صوبے کے اندر شاز ہی مثال ملتی ہے۔ نور محمد مسکانزئی کی اپنے آبائی ضلع میں اس خاندان کی تعلیمی ،سماجی اور سیاسی خدمات ہیں۔ خاران میں تحصیل ناظم رہے ۔ آبائی ضلع میں تین پبلک کتب خانے قائم کر رکھے ہیں، جس سے عوام خصوصاً طلبہ مستفید ہورہے ہیں ، بعض کے لیے اپنی جائیداد وقف کر رکھی ہے۔ خاران میں یونیورسٹی سب کیمپس ، یتیموں کے لیے مفت رہائش اور تعلیم کے لیے دار الاحساس کے قیام میں اہم کردار ادا کیا۔
یہ علم دوستی اور عوام کی خدمت کا جذبہ اور احساس انہیں والد مرحوم سے وراثت میں ملا تھا۔ ان کے والد ڈاکٹر علامہ محمد قاسم عینی بلوچ، نامور شخص تھے ، جامشورو یونیورسٹی سندھ سے حدیث کے علوم میں پی ایچ ڈی کر رکھی تھی اور خاران کے اندر سب سے پہلا نجی تعلیمی ادارہ بھی انہوں نے قائم کیا تھا۔ نور محمد مسکانزئی چار دہائیوں تک وکالت اور قانون کے شعبے سے وابستہ رہے۔ یونیورسٹی لاء کالج کوئٹہ سے وکالت کرنے کے بعد 1980ء کی دہائی کے آغاز میں وکالت شروع کی ، پراسکیوٹر، اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل کے عہدوں پر فرائض انجام دیء یے ،بلوچستان بار کونسل کے وائس چیئرمین رہے۔ 2009ء میںپی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے ججز کی فراغت ہوئی تو بلوچستان ہائی کورٹ میں ججز کی کمی کے پیش نظر ججز کی تعیناتیاں ہوئیں ۔جن میںمحمد نور مسکانزئی بھی شامل تھے۔ دسمبر2014ء سے اگست2018ء تک بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس رہے۔ اس کے بعد انہیں مئی2019ء میں فیڈرل شریعت کورٹ کا چیف جسٹس مقرر کیا گیا ۔ تین سال تک اس عہدے پر کام کیا۔ اور سود کے خلاف 19سالوں سے زیر التوا درخواستوں کی شنوائی کی۔ سود کے خلاف فیصلہ دینے والے بنچ کے سربراہ تھے۔ بلوچستان میں ججز پر اس سے پہلے بھی حملے ہوچکے ہیں۔ جیسا کہ ذکر ہوا کہ 2000ء میں جسٹس نواز مری کا قتل ہوا۔ فروری 2007ء میں کوئٹہ کی ضلع کچہری کے کمرہ عدالت میں خودکش حملہ ہوا، سینئر سول جج عبدالواحد درانی اور سات وکلاء سمیت پندرہ افراد جاں بحق ہوئے۔اگست 2012ء میں ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ذوالفقار نقوی کو کوئٹہ میں محافظ اور ڈرائیور سمیت قتل کیاگیا۔
نومبر 2014ء میں انسداد دہشتگردی عدالت کوئٹہ کے جج نذیر احمد لانگوجو ہائی کورٹ کے موجودہ جج ہیں کی گاڑی پر بم حملے میں ایک شخص جاں بحق اور دو محافظوں سمیت تیس سے زائد زخمی ہوئے تھے تاہم وہ محفوظ رہے۔اگست 2016ء میں وفاقی شرعی عدالت کے جج ملک ظہور احمد شاہوانی بھی کوئٹہ کے زرغون روڈ پر ایک بم حملے میں بال بال بچ گئے تھے۔ اس حملے میں جج کے محافظوں سمیت 13 افراد زخمی ہوئے تھے۔8اگست2016ء کو سول ہسپتال کوئٹہ میں وکلا ء پر خودکش حملہ ہوا جس میں56وکلاء سمیت70سے زائد افراد جاں بحق ہوئے۔ ان واقعات پر وکیل اور ججز برادری تشویش میں مبتلا ہیں۔ حکومت نے محمد نور مسکانزئی کے قتل کی تحقیقات کے لیے ڈی آئی جی سی ٹی ڈی کی سربراہی میں تحقیقاتی ٹیم تشکیل دے دی ہے۔ جس میں ڈی آئی جی رخشان ڈویژن، ایس پی اسپیشل برانچ، آئی ایس آئی، ایم آئی، آئی بی ، ایف سی انٹیلی جنس کے نمائندے اور متعلقہ تفتیشی افسر شامل ہوگا۔ ٹیم تحقیقات ایک ماہ میں مکمل کر ے گی اور رپورٹ انسداد دہشتگردی عدالت میں جمع کرے گی۔ صوبے کے اندر کئی حوالوں سے حالات اطمینان بخش نہیں ہیں۔ پیر اسماعیل سے مچھ تک طویل پٹی میں مسلح گروہ نے گزشتہ چند ماہ سے کوئلہ کی صنعت بند کر رکھی ہے۔ ہزاروں افراد کا روزگار بند ہوا۔ ساتھ کوئلہ کی ترسیل منقطع ہے۔ہرنائی اور متصل علاقوں کے حالات مخدوش ہیں۔فورسز پر حملے کیے جاتے ہیں ۔شہری اور مزدور وں قتل کیے جاتے ۔ مگر صوبے کی حکومت اس پوری صورتحال سے غافل ہے۔ خصوصا کوئلہ صنعت بندش بارے باز پرس اور غور و خوص ہی نہیں کیا ہے۔ محمد نور مسکانزئی کا قتل، دوسرے واقعات صوبے کی حکومت کی نا اہلی اور نالائقی ظاہر کرتی ہے۔ بلکہ حکومت کے اس چہرے سے لوگ متفر ہورہے ہیں۔ گزشتہ دنوں بلوچستان کے ژوب،شیرانی، لورالائی ، قلعہ سیف اللہ اور متصل علاقوں میں تھریٹ الرٹ جاری ہوا ہے۔ بہر کیف شنید ہے کہ ریاست سردار اختر مینگل کے بھائی جاوید مینگل جن سے مسلح گروہ منسوب ہے اور نواب اکبر خان بگٹی کے پوتے براہمداغ بگٹی سے بات چیت میں بڑی حد تک پیشرفت کرچکی ہے جس کے بعد ان دو جلا وطن افراد کی وطن واپسی کے امکانات روش ہوئے ہیں۔ براہمداغ بگٹی نے ہمیشہ مسلح گروہ بی آر اے کی قیادت سے انکار کیا ہو۔ وہ کہتے آرہے ہیں کہ وہ اپنی سیاسی جماعت بلوچ ری پبلکن پارٹی کے سربراہ ہیں۔ براہمداغ بگٹی کے اس مؤقف کے پیش نظر کالعدم بلوچ ری پبلکن آرمی سے گلزار امام نے الگ دھڑا قائم کرلیا ۔براہمداغ بگٹی اگست2006ء کو منظر عام سے غائب ہوئے ۔ کابل پہنچے پھر وہاں سے جینوا منتقل ہوئے۔ براہمداغ بگٹی اور جاوید مینگل بلوچستان واپسی درست فیصلہ سمجھا جاتا ہے۔ان کی آمد سے سیاسی فضاء ہموار ہونے میںمدد ملے گی۔ غرضیکہ صوبے کی حکومت بھی ریاست کے لیے مسائل کی ایک بڑی وجہ ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں