ایم کیوایم کی شکست اصل میں کس کی شکست ہے؟
شیئر کریں
عام طور پر انتخابات چاہے وہ قومی ہوںیا صوبائی ،بلدیاتی ہوں یا پھر ضمنی ،ہمیشہ عوام کے حق رائے دہی کی طاقت کا مظہر سمجھے جاتے رہے ہیں اور اِن کے نتائج آنے کے بعد ملک میں سیاسی کشیدگی کسی نہ کسی حد تک تھم جایا کرتی ہے اور ملک رفتہ رفتہ سیاسی استحکام کی جانب بڑھنے لگتا ہے ۔ لیکن رواں ہفتہ ملک بھر میں ہونے والے ضمنی انتخابات کے بعد، وطن عزیز کی کشیدہ سیاسی فضا میں ٹہراؤآنے کے بجائے اُس کے ارتعاش میں مزید اضافہ ہوا ہے اور حکومت ِ وقت اور حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں کے مابین پرتشدد محاذ آرائی کے امکانات کم ہوجانے کے بجائے مزید بڑھ گئے ہیں ۔ شاید اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مذکورہ ضمنی انتخابات میں حکومت اور حزب اختلاف میں سے کوئی ایک فریق بھی مکمل جیت ،یا پھر مکمل ہار سے ہم کنا رنہیں ہوسکا۔ چونکہ حریف ،دوسرے حریف کے سامنے ابھی تک اپنے پاؤں پر کھڑا ہے ، اس لیے، دونوں میں سے کسی ایک کے دھول چاٹنے تک اگلی سیاسی بازی کھیلی جائے گی۔
سادہ الفاظ میں یوں سمجھ لیجئے کہ ضمنی انتخابات میں ملک کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن کو کم یا زیاد ہ بہرکیف دھچکا پہنچا ہے۔مثال کے طور پر پاکستان تحریک انصاف نے قومی اسمبلی کی چھوڑی ہوئی اپنی 6 نشستیںاور پنجاب اسمبلی کی تین میں سے دو نشستیں واپس لے لی ہیں اور قومی اسمبلی کی دو نشستیں اور پنجاب اسمبلی کی ایک نشست گنوا بھی دی ہے۔ جبکہ مسلم لیگ ن ،پنجاب اسمبلی کی صرف ایک نشست جیتنے کے علاوہ تما م نشستیں ہار کر سنگین سیاسی خسارہ سے دوچار ہوئی ہے۔ بلاشبہ، حالیہ ضمنی انتخابات میں مجموعی طور پر زیادہ نشستوں پر تاریخ ساز کامیابی کی وجہ سے پاکستان تحریک انصاف جشن منانے میں حق بجانب ہے مگر قومی اور صوبائی اسمبلی کی تین نشستیں جو اس نے عام انتخابات میں جیتی تھیں، اُنہیں ہارنے پر تحریک انصاف کے کارکنان ہلکی سی تلخی بھی ضرور محسوس کر رہے ہیں۔دراصل پاکستان تحریک انصاف کی جیت میں ہار کی تلخی کی مقدار بہت معمولی ہے ، جسے باآسانی حلق سے نیچے اُتارا جاسکتا ہے ۔ جبکہ ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ ن کی ہار اور شکست اتنی غیر معمولی اور زہر آلود ہے کہ اُس کی کڑواہٹ ،ن لیگ کے کارکنان کو ساری زندگی محسوس ہوتی رہے گی۔
لیکن ضمنی انتخابات کے نتائج نے جو ’’سیاسی کالک‘‘ ایم کیو ایم پاکستان کی جملہ’’مقبول قیادت‘‘ کے چہروں پر مل دی ہے ، اُس کی تیرگی و سیاہی تو بلاشبہ، نشانِ عبرت کا استعارہ بن چکی ہے ، اگر کوئی سمجھنا چاہے تو۔یاد رہے کہ گزشتہ چند ماہ میں کراچی میں ایم کیوایم کو انتخابی شکست کی صورت میں لگنے والا یہ اَب تک کا سب سے بڑا سیاسی جھٹکا ہے اور ضمنی انتخاب کے نتیجہ نے ثابت کردیا ہے کہ پی ڈی ایم کے ساتھ سیاسی معاہدہ کرنے کے بعد ایم کیو ایم کی عوامی مقبولیت میں صرف کمی نہیں، بالکل زبردست کمی آئی ہے ۔ جب ہی تو کراچی شہر کی نمائندہ سیاسی جماعت کہلانے والی ایم کیو ایم کو کراچی کے عوام نے دونوں نشستوں پر یکسر مسترد کردیا ہے اور متحدہ قومی موومنٹ پاکستان این اے237 ملیر اوراین اے 239 کورنگی کی نشست پر عوامی پذیرائی حاصل کرنے میں انتہائی شرم ناک حد تک ناکام رہی۔ایک نشست پر پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ ،عمران خان 50 ہزار 14 ووٹ لیکر کامیاب ہوئے، جبکہ ایم کیو ایم کے نیئر رضا 18 ہزار 116 ووٹ لیکر دوسرے نمبر پر رہے۔جبکہ دوسری انتخابی نشست پر پاکستان پیپلزپارٹی کے اُمیدوار عبدالحکیم بلوچ کامیاب ہوئے اور ایم کیوایم پاکستان کے اُمیدوار اِس انتخابی نشست پر مقابلہ کی دوڑ میں سرے سے شامل ہی نہیں ہوئے تھے، جس سے یہ سوال اٹھ گیا ہے کہ کیا کراچی میں ایم کیو ایم کی سیاست کا مکمل صفایا ہو گیا ہے؟۔
اس وقت ایم کیو ایم سیاسی زوال کے ساتھ اندرونی انتشار کا بھی شکار ہے۔ شاید یہ ہی وجہ ہے کہ لاکھوں ووٹ لے کر جیتنے والی اور بڑے بڑے جلسے کرنے والی سیاسی جماعت مسلسل اور بری طرح سے ہار رہی ہے، عوام کو نہ جلسوں میں لاپارہی ہے نہ ووٹ ڈالنے کیلئے نکال پارہی ہے۔ایم کیوا یم کی اِس سیاسی بے چارگی و لاچاری پر سب سے حسبِ حال اور دلچسپ تبصرہ ایم کیو ایم تنظیم بحالی کمیٹی کے سربراہ فاروق ستار نے کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’ ایم کیو ایم کی آنکھوں میں موتیا اتر آیا تھا، شاید اب کسی سرجن نے آپریشن کیا ہے اور بینائی بحال ہوئی ہے، میرے سرجن سے تعلقات اچھے ہوتے تو نہ سربراہی جاتی نہ پارٹی رکنیت جاتی،جس کامران ٹیسوری کو ایک زمانہ میں ہم سینیٹر نہیں بناسکے اب گورنر جیسے اعلیٰ عہدے پر فائز کردیا ہے۔ ایم کیو ایم کے سیاسی فیصلوں میں کمزوری نظر آرہی ہے اور جماعت کے کارکن مایوس ہوکر گھر بیٹھ گئے ہیں ، ایسی صورت حال میں ہار کے سوا ایم کیوایم کے حصہ میں اور آبھی کیا سکتاہے‘‘۔
فاروق ستار کے مذکورہ تبصرہ سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ جب ماضی میں ایم کیوا یم پاکستان سے متعلق سب سے قریبی اور اہم ترین رہنما اپنی سیاسی تنظیم کے حال اور مستقبل سے اس درجہ مایوس ہے تو پھر ایم کیو ایم پاکستان کا ایک عام کارکن اپنی سیاسی جماعت کی کارکردگی سے کس قدر مایوس اور بیزار ہوگا۔ المیہ یہ نہیں ہے کہ ایم کیوایم پاکستان ہر گزرتے لمحہ کے ساتھ عوامی مقبولیت کی پستیوں میں اُترتی جارہی ہے بلکہ لطیفہ تو یہ ہے کہ ایم کیوایم پاکستان کی قیادت کو سرے سے احساس ہی نہیں ہے کہ ماضی میں کراچی کی سیاست پر بلاشرکت غیرے راج کرنے والی سیاسی جماعت ،آج عوام کے دل سے ہی نہیں بلکہ اُن کے خیالوں سے بھی رفتہ رفتہ کسی حرفِ غلط کی مانند مٹتی جارہی ہے۔
ہماری دانست میں یہ سوچنا بھی ایم کیوایم پاکستان کی قیادت کی ایک بہت بڑی اور سنگین غلط فہمی ہی ہے کہ اُن کے کارکنان اُن کے اُلٹے سیدھے سیاسی فیصلوں سے تنگ آکر اپنے گھروں میں وقتی ناراض ہوکر بیٹھے ہوئے ہیں اور جیسے ہی وہ اپنا سیاسی قبلہ درست یعنی پی ڈیم ایم سے کراچی کی سیاست کی طرف کرنے کا اعلان کریں گے اُن کے کارکنان اگلے قومی انتخابات میں اُنہیں ووٹ دینے کے لیئے اپنے گھروں سے جوک در جوک نکل آئیں گے۔ اگر ایم کیوایم پاکستان کی قیادت واقعی ایسا سوچ رہی ہے تو ۔ایں خیال است ،محال است و جنوں اَست ۔ کیونکہ ایم کیوا یم پاکستان کے ووٹرز نارض ہوکر اپنے گھر نہیں بلکہ خراماں ،خراماں پاکستان تحریک انصاف کے سیاسی کیمپ میں جارہے ہیں ۔ بے شمار جاچکے ہیں اور مزید بس ! جایا ہی چاہتے ہیں ۔ ایم کیو ایم پاکستان کے جو کارکنان سیاسی ہجرت کرچکے ، اُن کی واپسی تو دیوانے کا خواب سمجھئے۔ ہاں ! جو کارکنان ابھی تک راستہ میں ہی کہیں کھڑے ہیں اور مڑ مڑ کر پیچھے کی جانب دیکھ رہے ہیں اُنہیں ضرورکسی’’نازک مقام‘‘ پر روکا جاسکتاہے لیکن اس کے لیے ایم کیوایم پاکستان کی قیادت کو بہت جلد، کچھ بڑا سیاسی چمتکار دکھانے ہوگا ۔
چلے گا کھیل سیاست کا کس، بل بوتے پر
بساطِ وقت پر کمزور، ہر پیادہ ہے
٭٭٭٭٭٭٭