میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
پی ڈی ایم کا دوسرا بڑا شو، نوازشریف کی تقریر نہ ہوسکی!

پی ڈی ایم کا دوسرا بڑا شو، نوازشریف کی تقریر نہ ہوسکی!

ویب ڈیسک
منگل, ۲۰ اکتوبر ۲۰۲۰

شیئر کریں

نجم انوار

٭ابھی تک اپوزیشن کی سیاسی تحریک کا کوئی مشترکہ رنگ ظاہر نہیں ہوسکا، سب جماعتیں اسٹیج پر اپنا اپنا الگ الگ رنگ رکھتی ہیں۔ ابھی تو سیاسی قائدین کے درمیان میں مشترکات کو طے کرنے کی ضرورت ہے
٭پیپلزپارٹی کی طرح جے یوآئی نے بھی اپنے کارکنان کراچی کے علاوہ سندھ بھر سے بلائے تھے۔چنانچہ جلسے پر یہی رنگ غالب تھا۔ سندھی کے علاوہ پشتون رنگ اس جلسے کی خاص بات تھا

کراچی میں سیاسی جلسوں کا ذکرہوتو ذہن نشتر پارک یا پھر ککری گراونڈ کی طرف جاتا ہے، مگر گزشتہ کچھ برسوں سے سیاسی جماعتیں نامعلوم وجوہ کی بناء پپر نشتر پارک میں جلسوں سے گریز کرنے لگی ہیں، اب کراچی میںجلسوں کے لیے جناح باغ سیاسی جماعتوں کی توجہ کا مرکز ہے۔یہ جگہ زیادہ جھنجھٹ کے بغیر کامیاب جلسوںکے لیے اب موزوں سمجھی جاتی ہے۔ جس میں لوگوں کی شرکت زیادہ مسئلہ نہیں ہوتی۔ ہو سکتا ہے کہ اس کا محرک بھی سانحہ کارساز ہی رہا ہو، جب بے نظیر بھٹو دہشت گردوں کا نشانا بنی اور اُن کی منزل بھی مزار قائد تھا۔ پیپلزپارٹی کے لیے اس جگہ کا انتخاب دراصل ایک استعارہ پیدا کرتا ہے کہ بے نظیر بھٹو کو جہاں جانے سے روکا جارہاتھا، ہم وہاں موجود ہے۔ مگر باقی سیاسی جماعتوں کے لیے بھی اب جناح اسٹیڈیم نسبتاً بہتر انتخاب بننے لگا ہے۔ یہاں پر تحریک انصاف بھی اپنے جلسے منعقد کرچکی ہیں۔ جمعیت علمائے اسلام کا 2012 کا جلسہ بھی آج تک لوگوں کے ذہنوں سے محو نہیںہوسکا۔ ایم کیوایم سے علیحدگی کے بعد جب مصطفی کمال نے اپنی نئی جماعت کی بنیاد رکھی تو اپنی طاقت کے اظہار کے لیے اسی جگہ کا انتخاب کیا تھا۔ اس جلسے کے انتخاب کا ایک روایتی مطلب بھی ہے۔ یہاں عوام کو ہانکنے والی سیاسی قیادت اور اُن کی حمایت کرنے والی نئی اور نسبتاً اشرافی کلاس کے لوگوں کے لیے رسائی زیادہ آسان ہے۔ تحریک انصاف کراچی میں جن حلقوں کے اندر اپنا وجود رکھتی ہے، وہ زیریں متوسط سے کچھ اوپر کی کلاس ہے اور اُن کے لیے یہی جگہ مناسب ہے۔پیپلزپارٹی گزشتہ کچھ عرصے سے اسی جگہ پر میدان سجاتی آرہی ہے۔ پیپلزپارٹی پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے دوسرے جلسے کی کراچی میں میزبان تھی، توا س کے لیے سانحہ کارساز کے اندوہ ناک واقعے کی مناسبت سے جگہ کا انتخاب پہلے سے ہی طے تھا۔

 

گوجرانوالہ جلسے کے بعد ملک بھر کے سیاسی مبصرین کی نگاہیں کراچی کے جلسے پر مرکوز تھی ۔ سب کے ذہنوںمیں صرف ایک سوال تھا کہ کیا اس جلسے میں سابق وزیراعظم نوازشریف کا خطاب ہوتا ہے یا نہیں؟ درحقیقت نوازشریف نے گوجرانوالہ جلسے سے اپنے خطاب میں فوجی سربراہ کو تاک تاک کر نشانا بنایا تھا اور یہ پاکستان کی پوری تاریخ کا ایک منفرد واقعہ تھا جس نے ملک بھر میں ایک سنسنی پید ا کردی تھی۔ سوال یہ تھا کہ کیا نوازشریف کے فوج مخالف سیاسی بیانئے کا بوجھ پی ڈی ایم کی باقی سیاسی قیادت اُٹھا پائے گی یا نہیں؟ظاہر ہے کہ نوازشریف اس جلسے سے خطاب نہ کرسکے۔ تاہم اس جلسے میںبھی پی ڈی ایم کے سربراہ نے فوجی سربراہ کا نام ایک مرتبہ ضرور لیا۔ یہ چلن آگے کیا نتائج لے کر آتا ہے، اس بارے میں ابھی کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا۔

 

بعض سیاسی مبصرین یہ پہلو بھی خاص طور پر زیربحث لائے کہ گوجرانوالہ جلسے کے مقابلے میں جناح گراونڈ کے جلسے میں خواتین کی شرکت غیر معمولی تھی ، مگر یہ کوئی غیر معمولی نکتہ نہیں۔ پیپلزپارٹی کے سیاسی جلسوں میں لیاری کی خواتین ہمیشہ فعال ہوتی ہیں۔ کراچی کے تمام بڑے جلسوں میں پیپلزپارٹی کا انحصار عام طور پر لیاری کی خواتین اور اندرونِ سندھ سے آنے والے لوگوں پر ہوتا ہے، جن میں بھی خواتین کی ایک قابلِ لحاظ تعداد موجود ہوتی ہے۔ پیپلزپارٹی کے مخالفین پیپلزپارٹی پر ہمیشہ یہ الزام لگاتے آئے ہیں کہ وہ یہ مخصوص شناخت کے چہرے اپنے اجرتی بندوبست سے کرتی ہیں۔ اسے ابھی حکومت مخالف تحریک کے ایک رجحان کے طور پر زیربحث لانا قبل از وقت ہوگا۔

 

اگر جلسے کے شرکاء کا نہایت باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو اس میں درحقیقت پیپلزپارٹی کے علاوہ اگر کسی جماعت کا کارکن عملاً شریک تھا، تو وہ صرف اور صرف جمعیت علمائے اسلام تھی۔ پیپلزپارٹی کی طرح جے یوآئی نے بھی اپنے کارکنان کراچی کے علاوہ سندھ بھر سے بلائے تھے۔چنانچہ جلسے پر یہی رنگ غالب تھا۔ سندھی کے علاوہ پشتون رنگ اس جلسے کی خاص بات تھا۔جلسے میں سب سے زیادہ دھچکا جمعیت علمائے پاکستان کو پہنچا ہوگا جن کے پاس اب کارکنان نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہ گئی۔ ماضی میں جمعیت علمائے پاکستان بھی اُن سیاسی جماعتوں میں شامل رہی جو شہر کے مخصوص حصوں میں اپنا اثرورسوخ رکھتی تھی اور کارکنوں کی ایک قابل لحاظ تعداد کو متحرک بھی کرنے میں کامیاب ہوجاتی تھی۔ مگر پی این اے، ایم آرڈی اور متحدہ مجلس عمل میں قیادت کی سطح پر متحرک رہنے والی شاہ احمد نورانی مرحوم کی جماعت اس جلسے میں اپنی جماعت کی سطح پر کوئی رنگ پیدا نہیں کرسکی۔ اُن کا وجود محض گیارہ جماعتی اتحاد کا برائے نام حصہ دکھائی دیا۔ مرحوم شاہ احمد نورانی کے صاحبزادے اویس نورانی کی تقریر کے دوران میں یہ بات خاص طور پر محسوس کی گئی کہ کارکنا کے بغیر سیاسی رہنما محض ڈھم ڈھن بجتی ڈھول رہ جاتے ہیں۔ واضح رہے کہ جے یوپی میں اندرونی اختلافات نے اسے رفتہ رفتہ غیر فعال کردیا۔ اور اب وہ اس مخصوص مذہبی شناخت کے لوگوں کی بھی کوئی ترجیح نہیں رہی۔ اس فرقے کے لوگوں نے اپنے الگ الگ ڈسپلن بنالیے ہیں۔ کچھ عرصے قبل اس خلاء کو تحریک لبیک نے پورا کیا تھا۔ مگر وہ بھی بعدازاں اپنے متنازع کردار کے باعث بڑے پیمانے پر سیاسی حمایت سے محروم ہوگئی۔

 

گوجرانوالہ جلسے میں عوام کی ایک بڑی تعداد تھک گئی تھی۔ جس کا سبب مختلف جماعتوں کے قائدین کا الگ الگ وقت پر جلسہ گاہ پہنچنا تھا۔ مگر کراچی میںاس حوالے سے مناسب تبدیلی دیکھی گئی۔ جلسے میں مولانا فضل الرحمان، بلاول بھٹو اور مریم نوازایک ساتھ اسٹیج پر آئے۔ جس سے جلسہ مناسب وقت پر ختم ہوسکا اور جلسہ گاہ میں موجود کارکنان کی توجہ کا مرکز بنا رہا۔ ابھی تک اپوزیشن کی سیاسی تحریک کا کوئی مشترکہ رنگ ظاہر نہیں ہوسکا۔ سب جماعتیں اسٹیج پر اپنا اپنا الگ الگ رنگ رکھتی ہیں۔ ابھی تو سیاسی قائدین کے درمیان میں مشترکات کو طے کرنے کی ضرورت ہے۔ سب کی اپنی اپنی ڈفلی اور اپنا اپنا راگ ہے۔پیپلزپارٹی کی میزبانی میںا سٹیج کا انتظام پہلے پاکستان پیپلز پارٹی کے پاس تھا لیکن بعد میں جمعیت علما ئے اسلام بھی اس میں شریک ہوگئی ۔ ظاہر ہے کہ جمعیت علمائے اسلام اپنے بندوبست پر انحصار ہی کرتے ہیں۔ اس لیے صوبائی رہنما راشد سومرو بھی اسٹیج پر اپنا جادو جگانے پہنچ گئے۔ اسٹیج سے پہلے صرف پی پی کے سیاسی نغمے چل رہے تھے لیکن بعد ازاں دیگر سیاسی جماعتوں کے نغمے بھی سنائی دیے جانے لگے۔
واضح رہے کہ کارساز دھماکے میں جاں بحق کارکنوں کی برسی کو پی ڈی ایم کا جلسہ اعلان کیا گیا تھا ۔ جلسے کے دوران پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے اسے راشد ربانی کے نام منسوب کیا جن کا دو روز قبل ہی انتقال ہوا تھا۔ پی ڈی ایم اے کے مرکزی قائدین مولانا فضل الرحمان بلاول بھٹو اورمریم نواز کی آمد سے قبل ہی جلسہ گاہ کی کرسیاں بھر چکی تھیں۔جلسہ گاہ میں موجودتعداد کو کسی بھی طرح کم نہیں کہا جاسکتا ۔ سیکیورٹی پولیس کے ساتھ سیاسی جماعتوں کے رضاکاروں کے ہاتھ میں تھی۔ واک تھرو گیٹس سے گزرنے کے باوجود پاکستان پیپلز پارٹی، جے یو آئی اور اے این پی کے رضاکار شرکا کی جسمانی تلاشی بھی لے رہے تھے۔میڈیا کے ساتھ سلوک بھی اچھا نہیں رہا۔ لوگو ں کی جانب سے دیوار پھلانگنے کی کوششوں پر پولیس کی جانب سے لاٹھی چارج کے واقعات بھی سامنے آئے۔
یہ رجحان اب عام ہورہا ہے کہ جلسوں کی کوریج کے لیے سوشل میڈیا کا سہارا لیا جارہا ہے۔ ذرائع ابلاغ کو پابندیوںکی شکایت ہے جبکہ اسٹیج سے عام طور پر ایسی باتیں ہورہی ہیں جس کاچلن پہلے سیاست میں نہیں تھا۔ چنانچہ عوام کی ایک بڑی تعداد سوشل میڈیا کی کوریج پر انحصار کرنے لگی ہے جہاں ساری تقاریر اور سرگرمیاں بلاتعطل دیکھی جاسکتی ہیں۔

 

بعض سیاسی مبصرین یہ پہلو بھی خاص طور پر زیربحث لائے کہ گوجرانوالہ جلسے کے مقابلے میں جناح گراونڈ کے جلسے میں خواتین کی شرکت غیر معمولی تھی ، مگر یہ کوئی غیر معمولی نکتہ نہیں۔ پیپلزپارٹی کے سیاسی جلسوں میں لیاری کی خواتین ہمیشہ فعال ہوتی ہیں۔ کراچی کے تمام بڑے جلسوں میں پیپلزپارٹی کا انحصار عام طور پر لیاری کی خواتین اور اندرونِ سندھ سے آنے والے لوگوں پر ہوتا ہے، جن میں بھی خواتین کی ایک قابلِ لحاظ تعداد موجود ہوتی ہے۔

 

جلسے میں سب سے زیادہ دھچکا جمعیت علمائے پاکستان کو پہنچا ہوگا جن کے پاس اب کارکنان نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہ گئی۔ ماضی میں جمعیت علمائے پاکستان بھی اُن سیاسی جماعتوں میں شامل رہی جو شہر کے مخصوص حصوں میں اپنا اثرورسوخ رکھتی تھی اور کارکنوں کی ایک قابل لحاظ تعداد کو متحرک بھی کرنے میں کامیاب ہوجاتی تھی۔ مگر پی این اے، ایم آرڈی اور متحدہ مجلس عمل میں قیادت کی سطح پر متحرک رہنے والی شاہ احمد نورانی مرحوم کی جماعت اس جلسے میں اپنی جماعت کی سطح پر کوئی رنگ پیدا نہیں کرسکی۔

جلسے کے مسائل اور پینے کا پانی

حکومت کی جانب سے جلسوں کے اجازت ناموں کو کورونا وبا کی احتیاطوں کے ساتھ مشروط کیا جارہا ہے۔ پاکستان بھر میں سب سے زیادہ کورونا وبا پر حساسیت کا مظاہرہ سندھ حکومت کی کوجانب سے کیا جاتا رہا ہے۔ مگر جناح باغ کے جلسے میں ایسی کوئی خاص احتیاط دیکھنے میں نہیں آئی نہ ہی پیپلز پارٹی نے اپنی کسی روایتی حساسیت کا مظاہرہ کیا۔ شرکاء بلاخوف وخطر جلسہ گاہ میں کندھے سے کندھا ملائے موجود رہے۔ جلسے میں سب سے بڑی شکایت پینے کے پانی کی فراہمی اور رفع حاجت کے نظام کی کمی کے حوالے سے تھا۔ ظاہر ہے کہ اس جلسے میں زیادہ تر لوگ غیر مقامی تھے۔ سکھر، گھوٹکی، جیکب آباد سمیت کئی دور دراز علاقوں سے آنے والے لوگوں کا اس حوالے سے پریشان ہونا بالکل فطری تھا۔ جبکہ پینے کا پانی نہ ہونا تو کارکنوں کے ساتھ بے حسی کے مظاہرے کی بدترین مثال تھی۔ منتظمین کی جانب سے پینے کا پانی صرف قیادت اور صحافیوں کے لیے مخصوص تھا جس پر پیاسے شرکاء نے منتظمین کو گالیاں تک دیں۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں