ایل این جی درآمد میں حکومتی تاخیر سے گیس بحران کا خدشہ
حکومت کی ایل این جی سیکٹر میں نجی شعبے کی شمولیت کی حوصلہ افزائی کی پالیسی کے باوجود متعلقہ سرکاری اداروں کی سست روی نجی شعبے کو ایل این جی درآمد کرنے میں مشکلات سے دوچارکردیاہے
شیئر کریںحکومت کی ایل این جی سیکٹر میں نجی شعبے کی شمولیت کی حوصلہ افزائی کی پالیسی کے باوجود متعلقہ سرکاری اداروں کی سست روی نجی شعبے کو ایل این جی درآمد کرنے میں مشکلات سے دوچارکردیاہے جس سے ملک میں گیس بحران کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔اوگرا کے مطابق، مالی سال 2023میں گیس کی طلب اور رسائی کا گیپ 2.7 ارب مکعب پہنچنے کا امکان ہے۔ذرائع کے مطابق گیس کے شعبے میں بھی توانائی بحران اور بڑھتے ہوئے گردشی قرضوں کے پیشِ نظر جولائی 2019 میں ای سی سی نے تیسرے فریق تک رسائی کے تحت نجی شعبے کو اضافی ٹرمینل سہولت کے ذریعے ایل این جی درآمد کرنے کی اجازت دی تھی، لیکن 15 ماہ سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی حکومت ودیگر حلقوں کے ذاتی مفادات نے نجی شعبے کے ذریعے ایل این جی درآمد میں قانونی اور آپریشنل رکاوٹیں کھڑی کردیں ہیں، جس کے نتیجے میں پاکستان سستے نرخوں پرحاصل والی گیس تک رسائی سے محروم رہا اور رواں سال موسمِ سرما میں ملک کو یومیہ تقریبا 1.5ارب کیوبک فٹ گیس کی قلت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ذرائع نے بتایا ہے کہ اوگرا نے تھرڈ پارٹی تک رسائی کے قواعد و ضوابط صرف ڈرافٹ فارم میں جاری کیے ہیں اور ایک ریگولیٹری باڈی کی حیثیت سے قواعد کو حتمی شکل دینے کیلئے اوگرا کو مارکیٹ پلیئرز سے مشورہ کرنا پڑے گا۔ذرائع کے مطابق مناست درخواستیں موصول ہونے کے باوجود اوگرا نے ملک میں سرمایہ کاری کی خواہشمند ایگزون، شیل، مٹسوبشی، ٹوٹل اور نجی شعبے کے دیگرپلئیرز کو تاحال ایل این جی مارکیٹنگ کا لائسنس جاری نہیں کیا جبکہ حکومتی پالیسی کے مطابق اس کا مقصد ایل این جی کے بنیادی ڈھانچے کی ترقی کیلئے اس شعبے میں نئی سرمایہ کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنا ہے۔ذرائع کے مطابق عالمی سطح پر 80 ملین ٹن سے زائد ایل این جی کی تجارت تیسری پارٹی تک رسائی کے نظام کے تحت سنبھالی جاتی ہے جو مجموعی طور پر ایل این جی سپلائی چین میں بہتر کارکاردگی اور مسابقت کی اجازت دیتا ہے، فی الوقت پاکستان میں دو ایل این جی ٹرمینلز پریشنل ہیں جن کی ری گیسیفیکیشن کی مجموعی صلاحیت تقریبا 1200 ایم ایم سی ایف ڈی ہے، چونکہ نئے ایل این جی ٹرمینل کو قائم کرنے میں تین سال کا عرصہ درکار ہے لہذا پاکستان موجودہ ٹرمینلز کی درآمدی صلاحیت اور اسٹوریج میں توسیع کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کیے بغیر ملک ایل این جی کی زیادہ درآمدی ترسیل کو سنبھال نہیں سکے گا۔ذرائع کے مطابق موجودہ ایل این جی ٹرمینل کی توسیع اسپاٹ مارکیٹ میں دستیاب سستی ایل این جی سے فائدہ اٹھانے اور اضافی آپریشنل لچک فراہم کرنے کیلئے اضافی صلاحیت فراہم کرے گی۔