میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
عدلیہ کو نشانہ بنانے والے ہوش کے ناخن لیں، ملکی مفاد دیکھنا ہے جذبات میں فیصلے نہیں کرنے، چیف جسٹس

عدلیہ کو نشانہ بنانے والے ہوش کے ناخن لیں، ملکی مفاد دیکھنا ہے جذبات میں فیصلے نہیں کرنے، چیف جسٹس

ویب ڈیسک
جمعه, ۲۰ اکتوبر ۲۰۱۷

شیئر کریں

اسلام آباد(خبر نگار/ ایجنسیاں)جہانگیرترین کی نااہلی سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ عدلیہ کونشانہ بنانے والے ہوش کے ناخن لیںججزاور عدلیہ کااحترام لازمی ہے، کہاجاتاہے میری پوزیشن خراب ہورہی ہے، لیکن میں نے ملک کامفاد دیکھناہے جذبات پرفیصلے نہیں کرنے، معاشرے میں بہت سے معاملات بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ عدالت میڈیاکواحتیاط سے کام لینے کاکہتی ہے جج اوروکیل کی دلیل کو عام بندہ نہیں سمجھ سکتا،عدالت نے ایمانداری کاجائزہ لیناہے بے ایمانی کی ایک صورت کرپشن بھی ہے، والد گھر پر بچوں کو کہہ رہے ہیں باہر والے کو بتا دو پاپا گھر پر نہیں ہیں، یہ بھی ایک قسم کی بے ایمانی ہے، کیا گھر پر نہ ہونا کہہ دینا صادق اور امین کے زمرے میں آتا ہے؟ دیکھنا ہوگا ارکان پارلیمان کی نااہلی کے لیے ایمانداری کی نوعیت کیا ہوگی؟ آرٹیکل باسٹھ ون ایف کے ایک ایک لفظ کا جائزہ لینا ہوگا، فریقین کے وکلاء آرٹیکل باسٹھ ون پر معاونت کریں جمعرات کو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس فیصل عرب پر مشتمل عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بینچ جہانگیر ترین کی نااہلی کے لیے مسلم لیگ ن کے رہنما حنیف عباسی کی جانب سے دائر کی گئی درخواست کی سماعت کی سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے اخبار ات میں شائع ہونے والی خبروں کی وضاحت کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ ایسی آبزرویشن نہیں دی، جوگزشتہ روز ہائی لائٹ کی گئی، ہماری آبزرویشن کامطلب فیصلہ نہیں ہوتا۔ عدالتی آبزرویشن چیزوں کوسمجھنے کے لیے ہوتی ہے۔ انتہائی احتیاط اور محتاط انداز سے کارروائی کوچلارہے ہیں، اس پر جہانگیر ترین کے وکیل سکندر بشیر نے کہا کہ عدالت کے سوالات میرے لیے بہت معاون ثابت ہوتے ہیں،جب سے کیس شروع ہواہے اخبار پڑھنابندکردیا،یقین ہے میڈیاہیڈ لائین سے قطع نظر عدالت نے اپنافیصلہ کرناہے، چیف جسٹس نے کہا کہ ہم سوال تب پوچھتے ہیں جب کچھ سمجھ نہ آئے، جہانگیر ترین کے وکیل نے اپنے دلائل کا باقائدہ آغاز کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ جہانگیر ترین ایس ای سی پی کے معاملہ کو بند اور ختم کرنا چاہتے ہیں،جہانگیر ترین نے معاملہ کو ختم کرنے کے لیے ایس ای سی پی کو ازالہ کہ رقم ادا کی ہے، ان کے پاس ایس ای سی پی دفاع کے لیے جواز موجود تھا، وہ کسی تنازعہ میں نہیں پڑنا چاہتے تھے یہ انکی ایمانداری تھی۔ آرٹیکل 62ایک ایف ایمانداری کو ریگولیٹ کرتا ہے، اس پر جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ جہانگیر ترین جے ڈی ڈبلیو کے شیئر ہولڈر تھے اور انہوں نے بطور ڈائریکٹر اندرونی معلومات پر کمپنی کے شیئرز خریدے، اس پر سکندر بشیر نے کہا کہ آرٹیکل 62ان کا راستہ روکتا ہے، جو صادق امین نہ ہوں، ایس ای سی پی کا سیکشن 15اے اور 15بی آئین سے متصادم ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ قانون کے سیکشن کو چیلنج کرنے پر اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کرنا پڑے گا، فاضل وکیل نے کہا کہ اٹارنی جنرل معاونت کے لیے پہلے ہی نوٹس جاری ہوچکا ہے، اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ قانون کے سیکشنز پر الگ سے ایک نوٹس کرنا پڑے گا، جہانگیر ترین کے وکیل نے کہا کہ جہانگیرترین ایس ای سی پی کے کسی قانون کی خلاف ورزی نہیںغیرآئینی قانون پرنااہلی نہیں ہوسکتی، چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگرقانون غیرآئینی ناہواتوپھرآپ کا موقف کیاہوگا؟سکندر بشیر نے کہا کہ میراموقف ہوگاکہ جہانگیرترین کے کاغذات نامزدگی کوکسی نے چیلنج نہیں کیا،جہانگیرترین کے خلاف کسی عدالتی فورم کافیصلہ بھی نہیں ہے، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ درخواست گزار کی جانب سے الزام لگایا گیا ہے کہ جہانگیرترین نے اپنے ملازمین کے ذریعے حصص خریدے، جبکہ ملازمین کے پاس حصص خریدنے کے لیے رقم نہیں تھی اور ملازمین جہانگیرترین کے بے نامی دارتھے عدالت نے ایمانداری کاجائزہ لیناہے، والد گھر پر بچوں کو کہہ رہے ہیں باہر والے کو بتا دو پاپا گھر پر نہیں ہیں، یہ بھی ایک قسم کی بے ایمانی ہے، کیا گھر پر نہ ہونا کہہ دینا صادق اور امین کے زمرے میں آتا ہے؟ دیکھنا ہوگا ارکان پارلیمان کی نااہلی کے لیے ایمانداری کی نوعیت کیا ہوگی، بے ایمانی کی ایک صورت کرپشن بھی ہے، آرٹیکل باسٹھ ون ایف کے ایک ایک لفظ کا جائزہ لینا ہوگا۔ فریقین کے وکلاء آرٹیکل باسٹھ ون پر معاونت کریں اس پر سکندر بشیر نے کہا کہ آرٹیکل 62ون ایف کااطلاق صرف کرپشن پرنہیں ہوتا، عدالت نے جعلی ڈگری پرآرٹیکل 62پرنااہل کیا ۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں