واٹر سپلائی میں گھپلے سندھ ہائیکورٹ میں ملزم کو مخبوط الحواس قرار دے کر بری کرانے کی کوشش ناکام
شیئر کریں
تہمینہ حیات
سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس احمد علی شیخ کی زیر قیادت دو رکنی بینچ نے گزشتہ روز نیب سے سندھ کے سابق وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ کے حلقہ انتخاب سمیت صوبے کے مختلف اضلاع میں غیر ملکی امداد سے شروع کی جانے والی واٹر سپلائی اسکیم میں مبینہ طورپر اربوں روپے کے گھپلوں اور خورد برد کی تحقیقات کے حوالے سے پیش رفت کی رپورٹ طلب کرلی ہے اور خصوصی پراسیکیوٹر کو 15 نومبر کو اس حوالے سے تفصیلی اورمکمل رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی ہے۔
سندھ ہائیکورٹ میں سندھ کے سابق وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ کے حلقہ انتخاب خیرپور میںواٹر سپلائی ڈیولپمنٹ اسکیم میںمبینہ طورپر گھپلوں میں ملوث ایک ملزم ٹھیکیدار میر شوکت علی نیب کی جانب سے گرفتار کئے جانے کے خدشے کے پیش نظر ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست دائر کی گئی اس درخواست میں درخواست گزار کے وکیل نے یہ موقف اختیار کیاتھا کہ نیب نے ان گھپلوں میں112 افراد کو نامزد کیاہے جس میں درخواست گزار ٹھیکیدار میر شوکت علی بھی شامل ہے جبکہ درخواست گزار ذہنی معذور اور مخبوط الحواس ہے اس لیے نیب کو اسے گرفتار کرنے اورشامل تفتیش کرنے سے روکا جائے اور اسے اس الزام سے بری کیاجائے ، اس درخواست کی سماعت کے دوران اس وقت دلچسپ صورت حال پیدا ہوگئی جب سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس احمد علی شیخ نے سوال کیاکہ ملزم نے اس ٹھیکے میں کتنی رقم وصول کی ہے اور ملزم کے کتنے بچے ہیں ، اس موقع پر عدالت میں موجود ملزم میر شوکت علی نے فوری جواب دیا کہ اس کے ٹھیکے کی مالیت صرف 10 ہزار روپے تھی اور اس کاایک کمسن بیٹا ہے۔اس پر چیف جسٹس احمد علی شیخ نے درخواست گزار کے وکیل سے کہاکہ ان کاموکل تو بہت تیز طرار ہے اور کسی بھی طرح ذہنی معذور اور مخبوط الحواس معلوم نہیں ہوتا۔
سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس احمد علی شیخ نے خصوصی پراسیکیوٹر کو ضلع خیرپور میں کالعدم نارتھ سندھ اربن سروسز کارپوریشن کے زیر انتظام شروع کی جانے والی واٹر سپلائی کی 613 ترقیاتی اسکیموں کی تمام تر تفصیلات بھی 15 نومبر کو پیش کرنے کی ہدایت کی ۔یہ اسکیم ایشیائی ترقیاتی بینک سے حاصل کردہ قرض کی رقم سے شروع کی گئی تھی۔نیب کے پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ کالعدم نارتھ سندھ اربن سروسز کارپوریشن کے زیر انتظام شروع کی جانے والی فراہمی اورنکاسی آب کی اسکیموں میں مبینہ طورپر 34 کروڑ روپے خورد برد کئے گئے ہیں۔پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ اس پراجیکٹ کے تحت لاڑکانہ ،شکارپور،سکھر اور خیر پور کے اضلاع میں ترقیاتی اسکیمیں شروع کی گئی تھیں اوران اسکیموں میں اربوں روپے خورد برد کئے گئے ہیں اور مزید تفتیش کے بعد خورد برد کی گئی رقم کی اصل مالیت سامنے آجائے گی۔ان اطلاعات پر چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ نے اپنی آبزرویشن میں کہاکہ اگر ان اسکیموں پر ایمانداری کے ساتھ پوری طرح عملدرآمد کیاجاتا تو بالائی سندھ کو جدید ترین خطوط پر استوار کیاجاسکتا تھا۔
سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس احمد علی شیخ نے اس صورت حال پر مایوسی کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ فنڈز لوگوں کوپینے کا صاف پانی فراہم کرنے کی اسکیموں کے لیے تھے ان کو ایمانداری سے خرچ کیاجاتاتو خود اس خورد برد میں ملوث افراد ان کے بچے اور خاندان والوں کو بھی پانی کی قلت سے نجات مل سکتی تھی اور انھیں پینے کاصاف پانی میسر آسکتاتھا لیکن ظالموں نے اس مقصد کے لیے مختص فنڈز بھی خورد برد کرلیے۔
پانی کی قلت پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ تصور کیاجاتا ہے ، پانی کی اس قلت یا کمی کی وجہ سے دیہی اور نواحی علاقے تو کجا شہر کے معروف اور متوسط طبقے کے شہریوں کو پینے کے صاف پانی کی فراہمی بھی متعلقہ حکام کے لیے ایک بڑا مسئلہ ہے ، یہاں تک کہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر اورسندھ کے دارالحکومت کراچی کے شہری پانی کی عدم دستیابی کی وجہ سے باقاعدہ سڑکوں پر نکل کر مظاہرے کرنے پر مجبور ہورہے ہیں ،پاکستان میں پانی کی اس قلت کے دو بنیادی اسباب ہیں اول یہ کہ ہمیں بدقسمتی سے ایک ایسے بدنہاد پڑوسی کاسامنا ہے جو پانی کو بھی ہتھیار کے طورپر استعمال کرکے پاکستان کی وسیع وعریض اراضی کو صحرا میں تبدیل کرنے اورپاکستان کی 20 کروڑ آبادی کو پانی کی ایک ایک بوند کے لیے ترسانے کے درپے ہے اور اس کی دوسری وجہ یہ ہے کہ ہماری حکومتوں نے کبھی بھی پانی کی اس قلت پر قابو پانے اور بارشوں کے دوران ضائع ہوجانے والے پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے کوئی قابل عمل حکمت عملی بنانے اور اس پر عمل کرنے کی نہ صرف یہ کہ کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی بلکہ اس حوالے سے سامنے والی تجاویز کو سیاست کی نذر کردیاگیا،جس کے نتیجے مین ملک میں پانی ذخیرہ کرنے کے لیے کوئی نیاڈیم بنانا ممکن نہیں ہوسکا اس صورت حال کے سبب ایک طرف پانی کی قلت کی یہ صورت حال ہے اور دوسری جانب چیئرمین واپڈا لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ مزمل حسین کی رپورٹ کے مطابق پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کم ہونے کے باعث پاکستان سالانہ 25 ارب روپے مالیت کا پانی ضائع کر دیتا ہے۔ حکومت کو اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے قابل عمل حکمت عملی تیار کی جانی چاہئے۔
واٹر سپلائی اسکیموں میں اربوں روپے کے گھپلوں اوراس پر حکومت سندھ کی پراسرار خاموشی سے اس خیال کوتقویت ملتی ہے کہ جاگیردارعمومی طورپر نہیں چاہتے کہ اس صوبے کے غریبوں کو مسائل سے نجات مل سکے یاان کی مشکلات میں کمی ہواور وہ معاشی طور پر مستحکم ہوسکیں ، اس لیے پانی کے مسئلے کومبینہ طورپر جان بوجھ کر سیاسی رنگ دیاجارہا ہے، اور صوبے کے عوام کو پینے کے صاف پانی کی فراہمی اور گندے پانی کی نکاسی کی سہولت فراہم کرنے کے لیے ملنے والی غیر ملکی مالیاتی اداروں کی امداد کوبھی گھپلوں اور خورد برد کی نذر کردیاجاتاہے۔ اب جبکہ یہ معاملہ سندھ ہائیکورٹ کے سامنے پہنچ چکاہے اور چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ اس معاملے کی مکمل اور تفصیلی رپورٹ طلب کرچکے ہیں امید کی جاتی ہے کہ سندھ کے دیہی علاقوں کے غریب عوام کو پینے کے صاف پانی کی فراہمی کی اسکیموں میں گھپلوں اور خورد برد میں ملوث ملزمان کے ساتھ ہی ان کے سہولت کاروں کو بھی سامنے لایاجائے گا اور ان کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے سخت ترین سزائیں دی جائیں گی تاکہ اس صوبے کے عوام کو ان کاحق غصب کرنے والوں کاچہرہ پہچاننے کاموقع مل سکے۔