میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
کارپوریٹ فارمنگ یا غلامی کاسفر؟

کارپوریٹ فارمنگ یا غلامی کاسفر؟

ویب ڈیسک
بدھ, ۲۰ ستمبر ۲۰۲۳

شیئر کریں

سمیع اللہ ملک
پچھلے چندہفتوں سے ملک میں بیرونی سرمایہ کاری کے ساتھ کارپوریٹ فارمنگ میں اربوں ڈالرکی سرمایہ کاری کابڑاچرچاہے لیکن کیاہم نے لمحہ بھرکیلئے سوچاہے کہ کیایہ سرمایہ کاری ہمارے ملک کیلئے مفیدہوگی یاپھرہماری بربادی کانیامنصوبہ ہے؟ اوراس طرح ہم غیرملکی سرمایہ کاروں کواپنے ملک میں راغب کرسکیں گے یااس سرمایہ کاری میں کچھ ایسے نقصانات مضمرہیں جن کی طرف غورنہیں کیاگیا؟
دراصل یہ غلامی کے سفریاآزدی کی نعمت کوختم کرنے کاتیزاورجدیدترین طریقہ ہے۔اب میں اس کی تشریح کردیتاہوں تاکہ سمجھے میں آسانی ہو۔اب تک توہم اپنے قومی اثاثے بیچتے رہے ہیں،ہمارے ملک کے ائیرپورٹس،موٹرویز،100فیصدٹیلی کام،80فیصدبینکنگ اورچنددیگرادارے غیرملکیوں کوفروخت کیے ہیں، ہم بھول گئے ہیں کہ جس غیرملکی کمپنی نے پی ٹی سی ایل خریدا،کل جب وہ پرائیوٹائزہوگی اوراپنے یہی اثاثے جب مارکیٹ میں فروخت کرے گی توانڈین یااسرائیلی سرمایہ کاراس کوخریدلیں گے توپھرہماراملکی سیکورٹی پیراڈائم کہاں کھڑاہوگا؟ ذاتی مشاہدے کی بنا پرایسی ہی ایک مثال پنجاب کے ایک واقعے کی طرف مبذول کرواناچاہتاہوں۔2750ایکڑزمین پر3500خاندان کاشت کررہے تھے،،اس کوایک کارپوریٹ فارم بناکران تمام خاندان کوفارغ کردیاگیا،اب اس میں 300 مزدور مستقل بنیادوں پرکام کرتے ہیں اورمزیدپانچ سوافرادفصل کی کٹائی کے وقت عارضی طورپربلائے جاتے ہیں،کام ختم ہونے پران کوفارغ کردیاجاتاہے۔روزگارپرپہلاخوفناک اثرتویہ پڑاہے کہ فرض کرلیں کہ اگرایک خاندان کے چھ افرادگن لیے جائیں تو گویا 21 ہزار افراد کا رزق ختم کرکے18سوافراد سے یہ کام لیاجارہاہے۔
اس طرح کے پراجیکٹس کاآغازسب سے پہلے افریقاکے کئی ممالک میں میں شروع کیاگیا۔ کارپوریٹ فارمنگ والوں کاطریقہ کاریہ ہے کہ سرمایہ کاری کے معاہدے میں یہ گارنٹی دی جاتی ہے کہ ساری پیداوارپران کایہ حق فائق تسلیم کیاجاتاہے کہ وہ اس کومکمل طور پر ایکسپورٹ کرسکتے ہیں یااس کاکچھ حصہ جتناوہ چاہیں،وہ مقامی منڈی میں فروخت کر سکتے ہیں لیکن اس کیلئے وہ پابندنہیں۔ظلم کی بات تویہ ہے کہ وہ کاشتکارجوان کے ملازم ہیں،وہ بھی گندم یادیگرفصل کاایک بھی دانہ اپنے گھرنہیں لے جاسکتاکیونکہ وہ وہاں پرتنخواہ دارہے اورکام کرنے سے پہلے وہ اپنے معاہدے میں یہ تمام شرائط تسلیم کرچکاہے۔ دوسری بڑی بدنصیبی یہ ہے کہ وہ بازاریاغلہ منڈی سے بھی وہ گندم یا فصل نہیں خریدسکتاکیونکہ وہ ساری فصل توسوفیصد مالک اپنے معاہدے کے تحت اپنی مرضی سے اپنے ملک یاکسی دوسرے ملک کواچھے داموں فروخت کرنے کاحق رکھتاہے۔یہ کوئی نئی بات نہیں، افریقامیں یہ ہوا ہے۔
پھرتیسری اہم بات یہ ہے کہ یہاں وہ چیزیں کاشت کی جاتی ہیں جواکثرمقامی ملک کی ضرورت بھی نہیں ہوتی،اس فصل کامعیاروہ ہوتاہے جوان کے اپنے ملک یاجہاں یہ فصل ایکسپورٹ ہوگی،ان کے غذائی معیارکے مطابق ہوگا،اگران سے مقامی منڈی کیلئے کچھ درخواست کی بھی جائے تواس کے دام ایکسپورٹ کوالٹی کے مطابق غیرملکی کرنسی میں وصول کئے جائیں گے گویاعوام کی دسترس سے باہر ان کی قیمت ہوگی۔یہاں یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہماری زمین پرجدیدفارمولوں کے تحت کاشتکاری کاجومہنگاپیٹرن استعمال ہوگا، وہ دن بدن ہماری زمین کی پیداواری صلاحیت کوبتدریج اس قدرکمزورکردے گاکہ کل کلاں جب تک یہ لیزکامعاہدہ ختم ہوگا،یہ زمین ہمارے لئے دردسر بن کررہ جائے گی اورہم ویسے مہنگے جدیدفارمولے کی کاسٹ کے متحمل نہیں ہوں گے۔
ہم نے اس پرتوغورہی نہیں کیاکہ جہاں کاشتکاربیدخل ہوجائیں گے وہاں مقامی زمینداربھی بیدخل ہوجائیں گے۔اس طریقہ کارسے ہماری زمینداروں کی پوری نسل غائب کردی جائے گیاوران کی جگہ یہ کمپنیاںآجائیں گی جس میں”پارٹ اونرفوج ہے اوریہ غیرملکی کمپنیاں” ہوں گی۔یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اتنا سرسبزخوشنما منظرنامہ نہیں ہے جتناٹی وی پر بتاکرعوام کادل خوش کیاجارہاہے۔جب سے میں نے اس سارے معاملے کی تحقیق شروع کی توحقائق سامنے آنے کے بعدمیں لرزکررہ گیاہوں کہ مجھے مستقبل میں اس کارپوریٹ فارمنگ کی کامیابی کے بعدکے مناظربہت خوفناک دکھائی دے رہے ہیں۔بڑی تیزی سے اس ملک کاکریکٹربدل دیاجائے گا،ہماری برائے نام جوسیاسی،معاشی خود مختاری باقی ہے،وہ بھی بتدریج ختم ہوجائے گی اورہم جلدسدرن افریقی ملکوں کی طرح ہوجائیں گے کہ جہاں کمپنی کاجنرل منیجر یہ طے کرے گاکہ آئندہ ملک کاصدرکون بنے گا،باقی ملکی عہدوں کی تقرریاں توشائداسسٹنٹ منیجرکی منظوری سے ہوں گی۔ میں یہ حقیقت بیان کررہاہوں جواس وقت سدرن افریقامیں ہورہاہے۔گویاایسٹ انڈیاکمپنی سے بھی زیادہ ”ہولڈ”ہوگا ۔ میں افریقاکے ان ممالک کاذکرکررہاہوں جہاں سونے،ڈائمنڈزاوردیگرقیمتی دھاتوں کی کانوں پران غیرملکی یورپی کمپنیوں کاقبضہ ہے بلکہ ایسے ہی معاہدوں کے ذریعے وہ ان کے مالک بن چکے ہیں۔
ان معاہدوں کے بعدشدت سے یہ محسوس ہی نہیں بلکہ یقین ہورہاہے کہ ہم اب اس لیول پرجارہے ہیں جہاں مقامی لوکل مینجرمعاہدے کے تحت اس ملک کے صدرکی تقرری کرتا ہے۔ویسے بھی اب توموجودہ سنیاریوتویہ سامنے آگیاہے کہ اب دوگھرانے یہ طے کرتے ہیں کہ اب اگلاوزیراعظم کون ہوگا،صدارت کس کے پاس ہوگی اوراسمبلیوں اورسینٹ میں کن افرادکوبھیجاجائے گا۔ذراسوچئے کہ ہمیں تویہ کرپٹ افرادقبول نہیں لیکن جب کوئی غیرملکی ٹیلی کام کمپنی،بیئررکمپنی یاکارپوریٹ کمپنی کاغیرملکی منیجر قوم کی قسمت کے فیصلے صادر کریں گے توہم کہاں کھڑے ہوں گے؟یہ ہے وہ خوفناک سنیاریوجوہمارے اوپرمسلط ہونے کی تیاریاں کررہاہے جہاں نہ صرف تشویشناک غذائی اجناس کی قلت ہوگی بلکہ ہمارے موجودہ خودمختاری اورکلچرکے پرخچے اڑادیے جائیں گے بلکہ ایسی بیروزگاری بھی پیداہوجائے گی جہاں افریقاکے ملکوں کی طرح امن وامان کانہ تھمنے والاماحول بھی پیدا ہو جائے گا۔یقیناجب گھرمیں بھوک سے بچے تڑپ رہے ہوں گے،علاج معالجہ کیلئے ادویات خریدنے کی استطاعت نہ ہوگی تواگلامنظرآپ خودسوچ لیں کہ پھرکیاہوگا۔اس ماحول میں ہمیں کسی غیرملکی دشمن کی ضرورت نہیں ہوگی بلکہ ہم خودہی اپنے ہاتھوں سے یہ کہہ کرجلاکرخاکسترکریں گے کہ مرنے سے پہلے ان ظالموں کوبھی ختم کردو۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں