میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
امریکا کے ساتھ خارجہ پالیسی متوازن بنانے کی ضرورت

امریکا کے ساتھ خارجہ پالیسی متوازن بنانے کی ضرورت

منتظم
بدھ, ۲۰ ستمبر ۲۰۱۷

شیئر کریں

امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ دنوں افغان پالیسی کے حوالے سے اپنی تقریر میں پاکستان کو دھمکی دینے کے فوری بعد اس دھمکی کو عملی جامہ پہناتے ہوئے پاکستان کے علاقے پر ایک ڈرون حملہ کردیا ،تاہم امریکی صدر کو اس وقت شدید خفت کااحسا س ہوا ہوگا جب ان کے مشیروں نے انھیں بتایا ہوگا کہ وہ پاکستان کے خلاف تیز وتند تقریر سے پاکستان کو ڈرانے اور جھکنے پر مجبور نہیں کرسکے بلکہ اس کے برعکس پاکستان نے اس کے جواب میں امریکا کے ساتھ تعلقات پر نظر ثانی کرتے ہوئے امریکی حکام کے دوروں کے مواقع پر ان کے پروٹوکول میں تبدیلی کردی ہے۔ امریکیوں کے لیے ضابطے سخت کرنے کے ساتھ ساتھ ترکی، چین اور سعودی عرب کے لیے ضوابط نرم کرنے کا اعلان کیاگیا ہے اور پاکستان کے وزیر خارجہ نے امریکا کو نظر انداز کرتے ہوئے چین اور ترکی کے دورے کیے ہیں ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی تند وتیز اور غالباً نشے کے عالم میں کی گئی تقریر نے پاکستان کو اپنی خا رجہ پالیسی پر نظر ثانی کرنے پر مجبور کردیاہے اور اس کے نتیجے میں پاکستان کی خارجہ پالیسی بدل رہی ہے ،لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ خارجہ پالیسی ہم اپنی کوشش سے نہیں بدل رہے بلکہ دنیا نے ہمیں اپنی خارجہ پالیسی بدلنے پر مجبور کر دیا ہے کیونکہ پرانی پالیسی کے ساتھ دنیا کے ساتھ چلنا ممکن ہی نہیں رہا تھا۔ اسی لیے ہم اسے بدلنے پر مجبور ہو گئے ہیں ۔ لیکن تبدیلی کیا ہے۔ ابھی تک لگتا ہے کہ حکومت کی بھی سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ تبدیلی کیا ہے۔ کیا امریکا کے بعد اپنے سارے انڈے چین کی ٹوکری میں ڈال دینا ہی تبدیلی ہے۔ لیکن یہ کوئی تبدیلی نہیں بلکہ بیوقوفی ہے۔یہ تو ایک وڈیرے کی نوکری چھوڑ کر دوسرے وڈیرے کی نوکری اختیار کرنے کے مترادف ہے، اس لیے یہ تو کوئی تبدیلی نہیں ہے۔ اس طرح ہم ایک انتہا سے دوسری انتہا کی طرف جا رہے ہیں ۔ ہم امریکیوں پر سفارتی اور سفری پابندیاں لگا رہے ہیں ۔ بڑے فخر سے یہ اعلان کیا جا رہا ہے کہ امریکی ہم سے ملنا چاہتے ہیں ہم نے ملنے سے انکار کر دیا ہے۔ فی الوقت حکومت کی جانب سے ایسا تاثر دیا جارہا ہے کہ کرم ایجنسی میں بغیر اطلاع ڈرون حملے پر پاکستان نے احتجاج کیا ہے اور اس کے نتیجے میں امریکی افسران و عہدیداروں سے ملاقاتوں اور ان کے وزرا کے دوروں کے حوالے سے پروٹوکول تبدیل کردیا ہے۔اب جس عہدے کا افسر آئے گا اس عہدے کا افسر ملاقات کرے گا۔ دوسری طرف امریکی حکومت کی جانب سے پاکستان کے خلاف اقدامات کی تیاریوں کی خبریں سامنے آرہی ہیں ،غرض ایسا لگ رہا ہے کہ پاکستان اورامریکا کے درمیان تعلقات کشیدگی کی انتہا کو پہنچ رہے ہیں ۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکا کے ڈرون حملے میں تین افراد کی شہادت پر اتنا سخت ردعمل کیوں ؟ اس سے قبل امریکی ڈرون حملوں اور دیگر حملوں میں پاکستان میں بیک وقت ایک ہی مدرسے کے 80 بچے شہید ہوچکے ہیں لیکن اس وقت ایسا کوئی قدم کیوں نہیں اٹھایا گیا ۔ بظاہر یہ بتایا جارہا ہے کہ امریکی حکومت نے کرم ایجنسی میں ڈرون حملے کی اطلاع نہیں دی تھی تو کیا اطلاع دے کر یہی کارروائی کی جاتی تو پاکستان کا ردعمل کچھ اور ہوتا۔ اطلاع دے کر پاکستانی علاقے میں بمباری کرنا اور پاکستانیوں کو شہید کرنا کیسے جائز ہوسکتا ہے۔ اور بغیر اطلاع یہی عمل کرنے پر ناراض ہونے کی کوئی تو جیہہ بھی نہیں کی جاسکتی۔ یہی اصول اگر تسلیم بھی کرلیا جائے تو امریکیوں نے کرم ایجنسی سے قبل بھی بہت سے حملے پاکستانی علاقوں میں پاکستانی حکومت کو اطلاع دیے بغیر ہی کیے تھے۔ ان سب کو چھوڑیں پاکستانی حکمرانوں کا دعویٰ ہے کہ امریکا نے ایبٹ آباد کا آپریشن ہماری اطلاع کے بغیر کیا ہے۔
اگر چہ امریکی کہتے رہے کہ ہم نے اطلاع دیدی تھی لیکن پاکستانیوں کا یہی موقف رہا کہ ہمیں اطلاع نہیں دی تھی۔ اس آپریشن میں بھی یہ مسئلہ اپنی جگہ ہے کہ اگر اطلاع دے دی ہوتی تو کیا پاکستانی حکومت اور فوج امریکی کارروائی کو روک لیتی۔ یہ اور بات ہے کہ ایبٹ آباد آپریشن کی امریکی کہانی کے جھوٹ بلکہ 9/11 کے بعد کے سب سے بڑے جھوٹ ہونے کے زیادہ شواہد ہیں ۔ لیکن فی الحال بات یہ ہورہی ہے کہ امریکا کے خلاف پاکستانی حکومت نے جو اقدامات کیے ہیں ان کی اس حوالے سے کیا حیثیت ہے جو امریکا پاکستان کے خلاف کررہا ہے۔ امریکا تو پاکستان کا غیر نیٹو اتحادی کا درجہ ختم کررہا ہے۔ اسے دہشت گردوں کی پشت پناہ ملک قرار دینے کی بات کررہا ہے۔ اس کے نتیجے میں پاکستان کو ہتھیاروں کی فروخت اور آئی ایم ایف کے قرضے ملنے میں بھی مشکلات ہوسکتی ہیں ۔ جبکہ پاکستانی حکام یہ تاثر دے رہے ہیں کہ ہم نے امریکا کو سبق سکھا دیا ہے۔ اگر امریکی وزیر سے پاکستانی ہم منصب ملے یا سیکریٹری سے ہم منصب ملے تو یہ کون سی سختی ہے۔ یہ تو کسی بھی ملک کا پروٹوکول ہوسکتا ہے۔ کبھی کبھی چھوٹے سے ملک کے لیے پروٹوکول تبدیل کرکے سعودی بادشاہ بھی ملنے پہنچتے رہے ہیں اور کبھی کبھی بڑے ملک کے سربراہ کے لیے وزیر جاتا رہا ہے، اس کا مطلب احتجاج نہیں ہے۔ یہ تاثر دے کر پاکستانی حکومت یا طاقت کے مراکز یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ہم امریکا سے دبنے والے نہیں لیکن ایسا کام کرکے امریکا کو دبایا نہیں جاسکتا۔ امریکی الزامات اور متوقع اقدامات کو سامنے رکھیں تو صورتحال خطرناک نظر آرہی ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کا ایک معمولی افسر الزام لگا رہا ہے کہ پاکستان میں 20 دہشت گرد تنظیمیں سرگرم ہیں ۔ ہم خطے کے لیے خطرہ بنے ہوئے دہشت گردوں کے خلاف پاکستان کے اقدامات چاہتے ہیں ۔ لیکن پاکستانی کی دفتر خارجہ یا وزیر خارجہ سمیت کسی حکومتی ذمے دار، پاک فوج اور آئی ایس آئی نے یہ نہیں کہا کہ ساری دنیا کی دہشت گرد تنظیموں کی فنڈنگ کرنے والے ادارے امریکا میں موجود ہیں ۔
یہ تنظیمیں امریکا میں بھی موجود ہیں اور بہت سی تنظیموں کو خود امریکی حکومت امداد دیتی ہے۔ پاکستان کی طرف سے یہ ثابت بھی کیا جاسکتا ہے کہ کون کون سی امریکی تنظیم پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث ہے لیکن 20 کے جواب میں یہاں سے 2 کا نام بھی نہیں لیا جاتا۔ جب ریمنڈ ڈیوس پاکستان میں گرفتار تھا اس وقت امریکیوں کے اوسان خطا تھے، وہ حواس باختہ تھے ایک جاسوس کے لیے امریکی وزیر خارجہ دوڑے دوڑے پھررہے تھے اور بالآخر وہ ریمنڈ ڈیوس کو واپس لے گئے۔اگر پاکستانی ادارے امریکی جاسوس نیٹ ورک کو پکڑنا چاہیں تو دو دن میں اس نیٹ ورک کو پکڑ سکتے ہیں لیکن ایسا نہیں کیا جاتا۔
یہ درست ہے کہ امریکا کے ساتھ برابری کے تعلقات ہونے چاہئیں ۔ یہ برابری بدتمیزی سے نہیں ہو نی چاہئے جبکہ اب تک کی صورت حال سے ظاہر ہوتاہے کہ ہم امریکا کے ساتھ تعلقات میں ہوش سے زیادہ جوش دکھا رہے ہیں جس کا فائدہ ہونے سے زیادہ نقصان کا خطرہ ہے۔ بات چیت کے دروازے تو ہم بھارت سے بند نہیں کرتے تو امریکا سے کیوں بند کررہے ہیں ۔ ہمیں میز پر اپنا موقف پیش کرنے کا سلیقہ سیکھنا چاہیے۔ اگر پاکستانی حکمران واقعی کوئی ٹھوس قدم اٹھانا چاہتے ہیں اور امریکی جنگ سے باہر نکلنا چاہتے ہیں تو ایک مرتبہ گو امریکا گو کہنا پڑے گا۔ امریکی جاسوس نیٹ ورک پکڑنا ہوگا۔ امریکی فنڈنگ سے چلنے والے غیر ملکی اداروں کے خلاف کارروائی کرنا ہوگی۔ امریکا جیسے ملک کے ساتھ محض لفظی جنگ کا پاکستان کو نقصان ہوگا۔ دنیا بہر حال امریکا کے شکنجے میں ہے پاکستان نے کوئی ایسا گروپ بھی تیار نہیں کیا اور اپنی پوزیشن سے فائدہ بھی نہیں اٹھایا اور نہ ہی پاکستانی قیادت اتنی جرات مند ،باشعور اور سمجھدار ہے کہ امریکیوں کو نکیل ڈال سکے ۔ ضروری نہیں کہ ہر ایک کو دھمکی دیکر یا سخت جملے کہہ کر کوئی پالیسی تبدیل کی جائے۔ پالیسی میں تبدیلی کا مطلب پالیسی میں تبدیلی ہے، بیانات میں نہیں ۔ہمارے حکمراں صرف بیانات میں تبدیلی کرتے ہیں اور وہ بھی غلط سمت میں ۔ امریکا کے خلاف کچھ کرنا ہے تو سب سے پہلے سمت درست کریں نئی صفیں بنائیں اور اپنی صفوں کو درست کریں ۔ امریکا کے کہنے پر اپنے لوگوں کو مارتے رہیں گے تو اپنی صفیں مضبوط ہی نہیں ہوسکتیں ۔ ہمارے حکمرانوں کو اپنے لوگوں کو اعتماد دینا اور ان میں احساس تحفظ پیدا کرنا ضروری ہوگا۔ امریکا کی مجوزہ پابندیوں ، یا اقدامات سے بظاہر تو خراب تاثر اُبھر رہا ہے لیکن اگر ایک با وقار قوم یا آزاد قوم کے طور پر دیکھا جائے تو یہ اقدامات یا امریکی سزائیں پاکستان کے لیے خوش آئند ہیں ۔ پاکستان کو امریکی اسلحہ نہ ملے تو پاکستان کے لیے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ دنیا کے دوسرے ملکوں اور مارکیٹ سے بھی اسلحہ لیا جاسکتا ہے۔ چین، روس اور یورپ سے بھی اسلحہ لیا جاسکتا ہے۔ فرانس بھی جدید اسلحہ دے سکتا ہے۔ اصل پابندی آئی ایم ایف سے قرضہ لینے پر لگے گی یہ افراد اور باوقار قوم کے لیے اچھی علامات ہیں ۔ ہمیں ایک جرأت مند اور باشعور قیادت کی ضرورت ہے۔ یہ کہاں سے آئے گی اس کا فیصلہ عوام کو کرنا ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ پاکستانی قیادت عبوری حکومت، پاناما کیس، عدالت عظمیٰ، نیب، الیکشن کمیشن اور دیگر اداروں سے لڑنے میں مصروف ہیں اور امریکا پاکستان کے گرد شکنجہ کسنے میں ۔ ہمارے حکمران ،چین اور سی پیک کو پاکستان کا حفاظتی حصار تصور کرتے ہیں جبکہ یہ ایک حد تک حصار ہوگا ۔چین کے معاشی مفادات بھی ہیں لیکن وہ ایک حد سے آگے نہیں بڑھے گا۔ جو کرنا ہے پاکستان کو کرنا ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں