مقبوضہ وادی اور ڈھونگ انتخابات
شیئر کریں
ریاض احمدچودھری
5 اگست 2019 کو بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کردیا تھا، ساتھ ہی حکومت نے اسے تقسیم بھی کردیا۔بھارتی حکومت نے خاطر خواہ ہندو آبادی رکھنے والے جنوبی جموں اور مسلم اکثریتی وادی کشمیر کو ایک ریاست بنادیا جس کی علیحدہ اسمبلی ہوگی، اسی اسمبلی کے انتخابات کا اعلان کیا گیا ہے۔بھارتی حکومت نے 5 اگست 2019 کے فیصلے میں چین کے ساتھ سرحد پر موجود لداخ کے علاقے کو بھی علیحدہ کرکے اسے براہ راست مرکز کے زیر انتظام کردیا تھا۔بھارت کی سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو ہدایت کی تھی کہ وہ 30 ستمبر 2024 سے پہلے جموں و کشمیر میں اسمبلی انتخابات کرائے جب کہ بھارتی حکومت سے کہا تھا کہ وہ جموں و کشمیر کی ریاستی حیثیت یا اسٹیٹ ہوڈ کو جتنی جلدی ممکن ہو سکے بحال کرے۔
مقبوضہ جموں و کشمیر میں 5 اگست 2019 سے نئی دہلی کی براہِ راست حکمرانی ہے۔ چیف الیکشن کمشنر راجیو کمار نے نئی دہلی میں میڈیا کوبتایا کہ خاصے طویل وقفے کے بعد ہم جموں و کشمیر میں انتخابات کرانے والے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جموں و کشمیر میں مجموعی طور پر 87 لاکھ افراد ووٹ دینے کے اہل ہیں۔مقبوضہ جموں و کشمیرکے دور و نزدیک کے تمام علاقوں سے جمع کردہ ووٹوں کی گنتی 4 اکتوبر کو ہوگی اور اسی دن انتخابی نتائج کا اعلان بھی کیا جائے گا۔بھارتی حکومت ڈھنڈورا پیٹ رہی ہے کہ عوام کو حقِ رائے دہی کے استعمال کا موقع دیا جارہا ہے تاکہ وہ اپنے نمائندوں کو اپنی مرضی سے منتخب کرسکیں جبکہ ناقدین کا کہنا ہے کہ صرف تعلیم اور ثقافت کے معاملات میں 90 نشستوں کی اسمبلی کو معمولی سے اختیارات ملیں گے جبکہ اہم ترین امور میں تمام فیصلے نئی دہلی کے ہاتھ میں رہیں گے۔ اس کے نتیجے میں خطے کی سیاسی و معاشی کیفیت وہی رہے گی جو ہے۔بھارتی پارلیمنٹ میں مقبوضہ کشمیر کی پانچ نشستوں کے لئے پولنگ جون میں ہوئی تھی۔ تب ٹرن آؤٹ 58.6 فیصد رہا تھا۔ 2019 کی پولنگ میں ٹرن آؤٹ 28 فیصد تھا۔مقبوضہ جموں و کشمیر کی اسمبلی کے لئے آخری بار پولنگ 2014 میں ہوئی تھی۔ تب بھارتیہ جنتا پارٹی نے پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے ساتھ مل کر حکومت بنائی تھی۔ 2018 میں جب بی جے پی حکومت سے الگ ہوئی تو حکومت گرگئی اور اسمبلی تحلیل کردی گئی تھی۔2019 میں مودی سرکار نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی نیم خود مختارانہ حیثیت ختم کرکے اِسے مرکز کے زیرِانتظام یونین ٹیریٹری میں تبدیل کردیا تھا۔ اس تبدیلی نے مقامی انتخابات کی راہ مسدود کردی تھی۔ تب سے اب تک یہ خطہ نئی دہلی کے متعین کئے ہوئے گورنر کے تحت کام کرتا رہا ہے۔
مقبوضہ جموں و کشمیر میں آج بھی کم و بیش پانچ لاکھ فوجی تعینات ہیں۔ 35 سالہ تحریکِ آزادی کے دوران ہزاروں افراد جاں بحق ہوچکے ہیں۔بھارت ہرانتخابی عمل کی آڑ میں مقبوضہ کشمیرمیں فوج کی تعداد میں اسی طرح اضافہ کرتا آیاہے۔ نام نہاد انتخابات کے انعقاد کی آڑ میں لائے جانے والے ان فوجیوں کو بعد میں مستقل طور پر مقبوضہ علاقے میں ہی رکھا جاتا ہے اور انہیں کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو دبانے کے لیے استعمال کیا جاتاہے۔ مقبوضہ کشمیر میں غاصب بھارتی فوج کی بربریت پرہٹلرکی روح بھی کانپ اٹھی ہے،مگرنہتے کشمیریوں پرظلم کے پہاڑتوڑتے ہوئے بھارتی حکومت اورفوج کو شرم نہیں آئی۔کشمیریوں پر بد ترین ریاستی دہشت گردی کر کے حقوق انسانی کی کھلی خلاف ورزی کی جارہی ہے۔دنیا اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہے کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر کے عوام کو محض عسکری طاقت کے بل بوتے پر نہ صرف اپنا غلام بنا رکھا ہے بلکہ اس نے کشمیری عوام پر ظلم و ستم اور جبر و تشدد کے ایسے پہاڑ توڑے ہیں جن کا کوئی اخلاقی یا سیاسی جواز پیش نہیں کیا جا سکتا۔
مقبوضہ کشمیر کی صورتحال دن بدن ابتر ہوتی جا رہی ہے اور بھارتی افواج کی بربریت میں اضافہ ہونے کی وجہ سے نہتے کشمیریوں اور آزادی کے متوالوں پر مظالم بڑھتے جا رہے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں ریاستی دہشت گردی، بھارتی افواج کے مظالم اور بھارتی پارلیمنٹ کے انتخابات کے خلاف مظاہروں میں شدت آگئی ہے۔ ان زندہ حقیقتوں کے باوجود بھارتی حکومت کشمیر کو اٹوٹ انگ قرار دیتی ہے تو اسے بھارت کی ہٹ دھرمی کے سوا اور کیا نام دیا جا سکتاہے۔ وادی میں دس لاکھ قابض بھارتی فوج کی موجودگی میں انتخابات ڈھونگ ہیں۔ بھارت کا مقبوضہ کشمیر میں انتخابات کا مقصد عالمی رائے عامہ کو گمراہ کرنے کی کوشش ہے۔ بھارتی فوج جس طرح بے گناہ کشمیریوں کو مجاہدین قرار دے کر شہید کر رہی ہے۔ اس سے عوام کے دلوں میں نفرت مزید بڑھ رہی ہے۔ مجاہدین بھی اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر کے جدو جہد آزادی کی نئی تاریخ رقم کر رہے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کی یہ صورتحال بھارتی قیادت کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہونی چاہیے۔ بھارتی لیڈروں کو اب یہ حقیقت تسلیم کرلینی چاہیے کہ وہ زیادہ دیر تک کشمیر پر اپنا قبضہ برقرار نہیں رکھ سکتے۔ لہذا وقت آگیا ہے کہ بھارتی قیادت اس تنازعہ کو حل کرنے لئے پاکستان سے نتیجہ خیز مذاکرات کرے کیونکہ اس کے بغیر خطہ میں امن ممکن نہیں ہوگا۔اگر بھارت اپنے تمام وسائل، عسکری قوت اور خزانہ بھی مقبوضہ کشمیر میں بروئے کار لائے تو پھر بھی وادی کی ہیئت تبدیل نہیں ہو گی۔ بھارتی قیادت کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ دھونس اور دبائو کی پالیسی سے جذبہ آزادی ختم نہیں ہو گا۔