میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
بروقت انتخابات نگران حکومت کی اولین ذمہ داری ہے!

بروقت انتخابات نگران حکومت کی اولین ذمہ داری ہے!

جرات ڈیسک
اتوار, ۲۰ اگست ۲۰۲۳

شیئر کریں

نگراں وزیراعظم کی زیرصدارت نگراں کابینہ کے پہلے اجلاس میں یہ واضح کیا گیاہے کہ الیکشن کرانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے، اگر وہ کہتے ہیں تو ہم تیار ہیں ہم ایک دن کے نوٹس پر بھی الیکشن کرادیں گے۔اجلاس کو بتایا گیا کہ چیف الیکشن کمیشن کے ساتھ پہلی ہی ملاقات میں کمیشن کوبتادیاگیاہے کہ حکومت کمیشن سے بھرپور تعاون کرے گی، الیکشن کمیشن 90 دن میں الیکشن کا کہے گا تو ایک گھنٹہ کرسی پر نہیں بیٹھیں گے۔ ملک کو معاشی عدم استحکام کا شکار نہیں کریں گے، پچھلی حکومتوں کے مقابلے میں کابینہ کا سائز کم ہے، کابینہ کے زیادہ تر اراکین کا تعلق متعلقہ شعبوں سے ہے، پچھلی حکومت کے فیصلوں کا تسلسل برقرار رکھیں گے۔ الیکشن والے دن پہلا ووٹ نگراں وزیراعظم اور کابینہ کاسٹ کرے گی، جب تک رہیں گے اپنی آئینی ذمہ داریاں پوری کریں گے، ہمارا کام بولے گا،  ملک کو عوام کے منتخب نمائندے ہی چلائیں گے۔نگراں کابینہ کے پہلے اجلاس میں نگراں وزیراعظم نے کابینہ کے سرکاری اخراجات کم کرنے پر زور دیا ہے،اپنی کابینہ کے ارکان پر یہ واضح کردیاہے کہ زیادتی ہوگی کہ ملک اس حال میں ہو اور کابینہ اللے تللے کرے، آئی ایم ایف کا منجمد پروگرام بڑی مشکل سے دھکا لگا کر اسٹارٹ کیا گیا، آئی ایم ایف سے کچھ وعدے کئے گئے ہیں، وعدوں میں شامل ہے کہ بہت زیادہ سبسڈی نہیں دیں گے، مہنگائی کے باعث لوگوں کی مشکلات کا اندازہ ہے، معاشی بدحالی ایک حقیقت ہے اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا، توجہ ملک کی معیشت پر رہے گی آمدنی نہیں بڑھ رہی تو اخراجات نہیں بڑھائیں گے۔ پوری کوشش ہوگی کے اپنے حلف کی پاسداری کریں۔اجلاس میں نگراں وزیراعظم نے ہر وزیر سے اس کی وزارت پر بریفنگ لی ہے، نگراں وزیراعظم نے کہا ہے کہ مسئلہ کشمیر کو نہ نظر انداز کرسکتے ہیں نہ کریں گے۔ کسی مذہب کی تضحیک نہیں ہونے دیں گے، انھوں نے ملک میں انفراسٹرکچر کی بہتری پر زور دیا ہے، کابینہ نے ملک میں صوفی ازم کو فروغ دینے پر زور دیا ہے۔
تحریک انصاف کے سوا شاید کوئی دوسری جماعت فوری الیکشن نہیں چاہتی۔تحریک انصاف ہی الیکشن کمیشن کو خطوط لکھ رہی ہے اور عدالتی چارہ جوئی بھی کر رہی ہے کہ کسی طرح آئینی مدت کے دوران الیکشن ہو جائیں۔ حیرت ہے کہ ایک جماعت جو اِس وقت پوری طرح زیر عتاب ہے،جس کے چیئرمین قید بھگت رہے ہیں، مقدمات کے حصار میں ہیں،جس کا پارٹی پرچم لہرانے پر مقدمات درج کیے گئے ہیں اور جس کے رہنما ایک ایک کر کے پارٹی چھوڑ رہے ہیں،وہ انتخابات چاہتی ہے اور باقی سیاسی جماعتیں جنہیں ہر طرح کی آزادی ہے،فوری الیکشن کا مطالبہ نہیں کر رہیں۔اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟نظر تو یہی آتا ہے کہ تحریک انصاف کے سوا باقی سب جماعتیں سمجھتی ہیں کہ فی الحال حالات انتخابات میں ان کو کامیابی ملنے کا کوئی امکا ن نہیں،یہ انتخابات ان کے لئے سازگار نہیں۔ مسلم لیگ(ن) کے رہنما تو اگلے سال کے آغاز تک الیکشن ہوتے نہیں دیکھ رہے،جبکہ پیپلزپارٹی اگرچہ بروقت الیکشن کامطالبہ کرتی رہی ہے لیکن وہ بھی اِس حوالے سے دوٹوک موقف دینے کو تیار نہیں۔آئین میں نگران حکومت کا زیادہ سے زیادہ عرصہ 90 دن رکھا گیا ہے تاکہ اِس دوران نئے انتخابات ہو جائیں اور حکومت معرض وجود میں آ جائے، لمبے عرصے تک غیر نمائندہ حکومت کے ذریعے ملک چلانا مسائل کو جنم دیتا ہے۔یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے اور اسے تسلیم کیا جانا چاہئے،جبکہ فی الوقت اس کے برعکس سوچا جا رہا ہے۔ سپریم کورٹ نے جب ایک سماعت کے دوران الیکشن کمیشن کے حکام سے پوچھا کہ عام انتخابات کب کرا رہے ہیں تو انہوں نے لاعلمی کے انداز میں کندھا اُچکایا،گویا ملک کی سب سے بڑی عدالت کو بھی یہ نہیں بتایا گیا کہ الیکشن کب ہوں گے،حالانکہ الیکشن کمیشن کو اس حوالے سے بالکل واضح موقف سامنے لانا چاہئے تھا جبکہ عدالت سے باہر آنے کے بعد الیکشن کمیشن نے واضح طور پر کہہ دیاکہ الیکشن وقت پر نہیں ہوسکتے۔انوار الحق کاکڑ نے اپنے منصب کا حلف اٹھانے کے بعد پہلا بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کا کام لوگوں کی زندگی میں آسانیاں پیدا کرنا ہے۔ نگراں حکومت اپنی مختصر مدت میں اپنی تمام توانائیاں معیشت کی اصلاح پر خرچ کرتے ہوئے ملکی معاشی پالیسیوں کے تسلسل کو قائم رکھے گی اور اقتصادی بہتری لائے گی۔ حالانکہ نگراں حکومت کا بنیادی کا م الیکش کرانا ہیں اس لئے اپنے بیان میں انہیں سب سے پہلے انتخابات کے نظام الاوقات اور اس کے لیے اقدامات کی تفصیلات پر بات کرنی چاہئے تھی نگران وزیر اعظم اور ان کی حکومت کا بنیادی مقصد تو بروقت منصفانہ اورشفاف انتخابات کو یقینی بنانا ہے، کیونکہ آئین ان کو اس بات کا پابند کرتا ہے کہ وہ 90 دنوں میں انتخابات کو یقینی بنائیں، اور ایسا نہ کرنے سے یہ نگراں حکومت آئین کی پامالی کی مرتکب ہوگی۔ اگرچہ ابھی تک نگراں حکومت نے ایسا کوئی عندیہ نہیں دیا کہ وہ وقت پر انتخابات نہیں کروائے گی۔ لیکن بہت سوں کا خیال ہے کہ انتخابات اگلے برس فروری یا مارچ میں ہی ہوسکتے ہیں۔ دیکھنا ہے کہ الیکشن کمیشن اس بارے میں کیا حتمی فیصلہ کرتا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا الیکشن کمیشن کے پاس یہ فیصلہ کرنے کا اختیار ہے؟ یا فیصلہ کہیں اور سے ہی آئے گا کہ انتخابات کب ہوں گے اور کیسے ہوں گے، ان کی شرائط کیا ہوں گی۔ اسی طرح ایک اہم مسئلہ انتخابات کی شفافیت کا ہے۔ اگر انتخابات ہوتے ہیں تو کیا شفاف ہوں گے؟ یا یہ بھی ماضی کے دیگر انتخابات کی طرح سیاسی انجینئرنگ کے کھیل کا ہی حصہ ہوں گے؟ کیونکہ اگر انتخابات ہونے ہیں تو سب سے اہم یہ سوال ہوگا کہ پی ٹی آئی کے ساتھ انتخابات کے حوالے سے کیا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ کیونکہ ابھی تک کے جو حالات ہیں وہ یہی ظاہر کرتے ہیں کہ پی ٹی آئی کو انتخابات میں بھرپور حصہ لینے کے حوالے سے خاصے مسائل کا سامنا ہے۔ پی ٹی آئی کے سربراہ کو انتخابی عمل سے ہی دور رکھا جارہا ہے اور یہ فیصلہ بتارہا ہے کہ طاقت ور حلقوں میں یہ طے ہوچکا ہے کہ فی الحال پی ٹی آئی اوربالخصوص اس کے سربراہ کو کسی قسم کی رعایت نہیں دی جائے گی۔ سوال یہ ہے کہ اگر ایک جماعت کے لیے لیول پلیئنگ فیلڈ کا فارمولہ کچھ اورہی ہے اور اس کا مقصد اس جماعت کو فی الحال دیوار سے ہی لگانا ہے تو پھر انتخابات کی شفافیت کا سوال کدھر جائے گا؟ اس طرح انتخابات سے پہلے انتخابی عمل کو ہی متنازع بنایا جارہا ہے،اس طرح کے رویہ سے کیسے انتخابات کی ساکھ کو قائم کیاجاسکے گا؟ اسی طرح اگر انتخابات بروقت نہیں کروائے جاتے اور انتخابات میں جان بوجھ کر تاخیری حربے اختیار کیے جاتے ہیں تو یقینی طور پر اس سے سیاسی جماعتوں اور نگراں حکومت سمیت اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ٹکراؤ پیدا ہوگا۔ نگرانوں کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ ان کے پاس ایجنڈا یہی ہے کہ پنجاب اورخیبر پختون خوا میں اسٹیبلشمنٹ کے سہارے بننے والی دو نئی جماعتوں یعنی جہانگیر ترین کی جماعت کو پنجاب اور پرویز خٹک کی جماعت کو کے پی کے میں بھرپور سیاسی حمایت دی جائے اور ان کو پی ٹی آئی کے مقابلے میں نئی سیاسی طاقت دی جائے۔ یعنی پہلے پی ٹی آئی کا سیاسی بندوبست ہو اور پھر ہم انتخابات کا راستہ اختیارکریں۔
پنجاب اور خیبر پختون خوا میں نئی جماعتوں کی تشکیل پر مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی کے تحفظات ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ یہ سب کچھ ان کو بھی کمزور کرنے کے کھیل کا حصہ ہے۔کہا جارہا ہے کہ نگرانوں کو یہی ٹاسک دیا گیا ہے کہ پہلے مرحلے میں پی ٹی آئی اور دوسرے مرحلے میں مسلم لیگ (ن) کو کمزور کرنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ یا نگراں حکومت کے سیاسی عزائم پر مسلم لیگ (ن) میں تشویش دیکھنے کو مل رہی ہے اگرچہ رانا ثنا اللہ اور خواجہ آصف اپنے بیانات سے یہ تاثر دے رہے ہیں بات طے ہوچکی ہے اور اب نواز شریک کی واپسی میں کوئی رسک نہیں ہے لیکن وہ نہیں بتاتے کہ یہ بات کس سے ہوئی ہے،عدالت سے پیشگی ضمانت دلوانے کا کس کو اختیار ہے۔مسلم لیگ ن کے اندرونی حلقے اس حوالے سے تشویش میں مبتلا ہیں اور اب ان کو شاید یہ محسوس ہورہا ہے کہ کھیل کا دوسرا حصہ ان کے خلاف ہی ہوگا۔نگراں وزیراعظم اقتصادی امور اور معاشی اصلاحات کی پالیسیوں میں تسلسل کی بات کرکے ان تمام شبہات کو تقویت پہنچا رہے ہیں کہ عبوری حکومت کی آئینی مدت میں اضافہ یقینی ہے کیونک3 ماہ کی مختصر مدت میں معاشی بحران کی سمت کوئی قابل ذکر پیش رفت نہیں ہوسکتی،  9اگست کو اسمبلی برخواست ہوئی،آج اِس بات کو بھی دس دن گزر چکے ہیں،گویا90دِنوں میں سے اسی دن رہ گئے ہیں اگر الیکشن نہیں کرانے تو اِس حوالے سے بھی کوئی واضح موقف سامنے آنا چاہئے تاکہ ملک پر جو بے یقینی چھائی ہوئی ہے اُس کے بادل چھٹ سکیں۔ ضروری ہے کہ فریقین کو انتخابی مقابلے کیلئے مساوی میدان فراہم کیا جائے۔ سابق حکومت نے ریاستی اداروں کو آئین کے مطابق چلانے کی بجائے، اپنی جگہ بنانے اور خود کو احتساب سے بچانے کیلئے ایک کے بعد دوسرا حربہ استعمال کیا۔ حکمران گروہ کے اس طرزِ عمل نے ریاست کی بنیادوں کو بے پناہ نقصان پہنچایا۔ سابق حکمرانوں نے تحریک انصاف کو انتخابی دوڑ سے باہر کرنے کی نیت سے ریاستی اداروں کا بے دریغ استعمال کیا۔تحریک انصاف کے 10 ہزار سے زائد کارکن پابند سلاسل ہیں نگراں حکومتوں کا مقصد تمام سیاسی جماعتوں کو یکساں مواقع فراہم کرنا ہے۔ یہ حکومت ایک مقررہ مدت کیلئے آتی ہے اور نگران حکومت کا کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں ہوتا۔ ان کا کام تمام سیاسی جماعتوں میں توازن برقراررکھنا ہے۔ موجود حالات میں نگران حکومت کا منصفانہ طرزِعمل جمہوری اقدار پر عوام کے اعتماد میں پختگی و تقویت کا موجب بنے گا۔ اس وقت ملک سیاسی انتشار سے دوچار ہے جس کا واحد حل مقررہ مدت میں انتخابات کا انعقاد ہے۔ کچھ سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ موجودہ سیاسی کشمکش کے باعث نگران سیٹ اپ کا دورانیہ طویل ہو سکتا ہے،لیکن یہ بات یقینی کہ اگر انتخابات میں تاخیر کی گئی تو ملک میں مزید افراتفری کی راہ ہموار ہو سکتی ہے اور عوام میں بھی اضطراب بڑھ سکتا ہے۔ موجودہ حالات کے تناظر میں اب ملک انتخابات میں تاخیر کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اس لیے نگران سیٹ اپ کو اپنی ساری توجہ اس جانب دینی چاہیے اور الیکشن کمیشن سمیت تمام ریاستی اداروں کو اس معاملے میں نگران حکومت سے تعاون کرنا چاہیے تاکہ بروقت انتخابات کا انعقاد ممکن ہواور ملک کو سیاسی انتشار سے نکالا جاسکے کیونکہ ایک منتخب عوامی حکومت ہی ملک کو بحران سے نکال کر عوام کو ریلیف مہیا کرسکتی ہے۔

 


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں