میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
پوچھ پوچھ کر تھک گئے، لندن فلیٹس کے مالک کا کوئی نہیں بتارہا،سپریم کورٹ

پوچھ پوچھ کر تھک گئے، لندن فلیٹس کے مالک کا کوئی نہیں بتارہا،سپریم کورٹ

ویب ڈیسک
جمعرات, ۲۰ جولائی ۲۰۱۷

شیئر کریں

اسلام آباد (بیورو رپورٹ) پاناما کیس میں سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ پوچھ پوچھ کر تھک گئے ہیں کہ لندن فلیٹس کا مالک کون ہے مگر کوئی نہیں بتارہا، سعودی عرب، لندن جائیدادوں کے فنڈز کہاں سے آئے شریف فیملی اس بنیادی سوال کا جواب نہیں دے رہی۔ تفصیلات کے مطابق بدھ کو جسٹس اعجاز افضل خان کی سربراہی میں جسٹس عظمت سعید شیخ اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل سپریم کورٹ کے 3 رکنی عمل درآمد بینچ نے مذکورہ کیس کی سماعت کی۔سماعت شروع ہوئی تو وزیراعظم کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ گزشتہ روز میں نے وزیراعظم کا جے آئی ٹی میں بیان پڑھ کر سنایا تھا ٗ وزیراعظم نے جے آئی ٹی کو گوشواروں کی صورت میں آمدن اور اثاثوں کی تفصیلات دیں، لیکن جے آئی ٹی نے مزید کسی اثاثوں سے متعلق سوال نہیں کیا ٗجے آئی ٹی میں پیشی تک اور کوئی اثاثہ تھا ہی نہیں ٗ جے آئی ٹی کے پاس کچھ ہوتا تو سوال ضرور کرتی ٗوزیراعظم کے رشتہ داروں نے کوئی جائیداد نہیں چھپائی، جبکہ وزیراعظم کی کوئی بے نامی جائیداد نہیں ہے ٗنیب قوانین کے مطابق ایسا شخص جس کے بیوی بچوں کے نام اثاثے ہوں اس کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا ٗوزیر اعظم نے ٹیکس ریٹرن میں اثاثے ظاہر کیے ہیں اور انہوں نے کوئی اثاثہ نہیں چھپایا۔وزیراعظم کے وکیل نے دلائل کے دوران نیب قانون کی شق (5 اے) کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ نیب قوانین کے مطابق ایسا شخص جس کے بیوی بچوں کے نام اثاثے ہوں ٗ اسے اس کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جاسکتا جس پر جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیے کہ جس نیب قانون کا آپ حوالہ دے رہے ہیں ٗ وہ تو کیس سے مطابقت نہیں رکھتا۔جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ آمدنی ایک کروڑ اور جائیداد 5 کروڑ کی بنائی ہو تو اسے کیا کہیں گے؟خواجہ حارث نے جواب دیا کہ قبضے والی جائیداد اگر آمدن سے زائد ہو تو وہ جوابدہ ہوتی ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ بنیادی سوال یہ ہے کہ لندن فلیٹس کب لیے اور کس نے ادائیگی کی، منی ٹریل کہاں ہے، جواب نہیں دیا جارہا، فنڈز سعودی عرب، دبئی یاقطر میں تھے، کہاں سے پیدا ہوکر لندن پہنچے، وزیر اعظم نے کہا انکے پا ٹریلس تمام دستاویزات میں منی ٹریل موجود ہے، عدالت کوان سوالوں کے جواب نہیں دیئے جا رہے۔خواجہ حارث نے دلائل میں کہا کہ عام فیملی ممبرکے طور پر اسمبلی میں بیان دیا گیا جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ وزیر اعظم کو علم تھا کہ اسمبلی فلورپرکیا کہہ رہے ہیں، خواجہ حارث نے کہا کہ اگر وزیراعظم کا لندن فلیٹس سے تعلق ہو تو وہ جواب دہ ہو سکتے ہیں، 1993-95 تک بچے اپنے والد کے زیر کفالت تھے، فلیٹس سے متعلق تمام امور میاں شریف دیکھتے تھے، خاندان کے سربراہ میاں شریف کا سرمایہ کاری کا فیصلہ تھا، یہ جائیداد لندن عدالت میں کیس کے ساتھ منسلک تھی، اس کیس میں میاں شریف، شہباز اور عباس شریف کے نام ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس میں کہا کہ شریف خاندان کا موقف ہے کہ جائیداد 2006 میں حاصل کی گئی، کیا حسن اور حسین نے لندن کی جائیداد نواز شریف کے کہنے پر لی، اصل سوال ہے کہ سعودی عرب، دبئی اور لندن جائیدادوں کے فنڈز کہاں آئے، اس بنیادی سوال کا جواب نہیں مل رہا۔خواجہ حارث نے کہا کہ جو بیان میں نے پڑھا اس میں قطری سرمائے سے جائیداد خریدنے کا بتایا گیا جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس میں کہا کہ وزیر اعظم نے تقریر میں اسکا ذکر نہیں کیا جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ تمام ریکارڈ موجود ہے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ سوال یہ تھا کہ پراپرٹی کب خریدی گئی، فنڈزکہاں سے آئے اورکہاں گئے، وزیراعظم نے کہا تھا منی ٹریل دیں گے لیکن ابھی تک جواب نہیں دیا گیا، جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ جے آئی ٹی نے یہ نہیں کہا کہ وزیراعظم کی طرف سے کسی نے پراپرٹی خریدی، بے نامی کا مطلب ہوتا ہے کہ کسی دوسرے کے نام پراپرٹی رکھنا۔ وزیراعظم کے وکیل نے کہا کہ جلد نمبر 4 پرکچھ بات کروں گا جس پرجسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ والیم چارکے حوالہ سے محتاط رہیں اس میں بہت خطرناک دستاویز ہیں، اس میں ٹرسٹ ڈیڈ پر بات ہوئی ہے اور کچھ نتائج بھی اخذ کیے گئے ہیں۔وزیراعظم کے وکیل خواجہ حارث کا اپنے دلائل میں کہنا تھا کہ وزیراعظم نے کہا سیٹلمنٹ ہوئی تھی پر تفصیلات کا علم نہیں لندن فلیٹ سے وزیر اعظم کو جوڑنے کی جو بات تھی وہ قیاس آرائی پرمبنی ہے، کوئی شواہد کوئی دستاویز نہیں دوسرے فریق سے منسوب کرنا بھی قابل اعتراض ہے لیکن ابھی میں اس پر اعتراض نہیں اٹھا رہا جس پر جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ جے آئی ٹی نے کہا فلیٹس مشترکہ طور پر شریف فیملی رکھتی ہے ٗ اگرجے آئی ٹی کی رائے کے حوالے سے کوئی ثبوت نہیں تو اس کاوزن بھی نہیں ہو گا جے آئی ٹی کو چھوڑیں ہمیں دستاویز دیکھائیں اگر حسن ٗحسین کے پاس فلیٹس کسی کے نام پر ہیں تو وہ کون ہے ٗ حسین نے خود کو فلیٹ کا مالک کہا لیکن دستاویز نہیں دی، نیلسن، نیسکول، منروا کا مالک بھی خود کو بتایا لیکن دستاویز نہیں دی، منروا کی دستاویز پر مریم کو مالک کہا گیا ہے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ بحث کیلئے مانتے ہیں فلیٹس میاں شریف کے ہیں وفات کے بعد ان میں وزیر اعظم کا بھی شیئرہوگا وزیراعظم ہو یا حسین نواز ٗدونوں زبانی کہہ رہے ہیں ٗ تہہ در تہہ آف شور کمپنیاں قائم کی گئی ہیں ٗ کمپنیوں ٗ اثاثوں کی ملکیت اور فنڈز واضح نہیں۔جسٹس عظمت سعید نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ آف شور کمپنیاں دوسری کمپنیوں سے سروسز لے رہی ہیں، یہ سروسز کس کو دی جا رہی ہیں معلوم نہیں نام کس کے ہیں، پیسے کس نے دیئے کوئی بتا ہی نہیں رہا، کاغذ کوئی دکھا ہی نہیں رہا، یہ توہے کہ 88 فیصد منافع وزیر اعظم کو دیا گیا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس میں کہا کہ ایک ارب 17 کروڑ روپے وزیراعظم کودئیے گئے خواجہ حارث نے کہا کہ ہل میٹل حسین نواز کی کمپنی ہے جو کہ خود مختار ہے، حسین نوازنے اپنے والد کو پیسے بھیجے جس پرجسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیے کہ ساری چیزیں ہیں آنکھیں بند نہیں کریں گے۔ وزیراعظم کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل مکمل کرتے ہوئے کہا کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ میں وزیر اعظم کے خلاف کچھ نہیں ٗ ادب سے گزارش ہے کہ فیصلہ میں احتیاط برتی جائے جس پر جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ دیکھناہے کہ کیا کیس میں کوئی شواہد ہیں ،جو وزیراعظم کو معاملہ سے منسلک کرتے ہیں دیکھنا ہے ہم نے فیصلہ کرنا ہے یا ٹرائل کورٹ کوبھجوانا ہے، حقیقت یہ ہے کہ اس عدالت کے پاس فیصلہ کا اختیارہے آپ کو تمام پتے شو کروانا چاہیے تھے۔ بعدازاں سپریم کورٹ نے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو متعلقہ دستاویزات جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت (آج) صبح ساڑھے 9 بجے تک ملتوی کردی گئی۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں