میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
پناہ گزینوں کی موت سے بدتر زندگی

پناہ گزینوں کی موت سے بدتر زندگی

ویب ڈیسک
جمعرات, ۲۰ جون ۲۰۲۴

شیئر کریں

ڈاکٹر جمشید نظر

اکثر آپ نے میلوں میں موت کا کنواںدیکھا ہوگا جہاں موٹر سائیکل سوار یا کار ڈرائیور اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر موت کے کنویں کی گول دیواروں پر تیزی سے اپنی موٹر سائیکل یا کاردوڑاتاہے،خدانخواستہ کسی خرابی کی وجہ سے ڈرائیور کی گاڑی بند ہوجائے یا وہ اپنا بیلنس نہ رکھ پائے تو اس کی موت بھی واقع ہوسکتی ہے ، مرضی سے موت کے کنوئیں میںپرفارم کرنے کی وجہ سے اپنی موت کا ذمہ دار وہ خود ہی کہلاتاہے ٹھیک اسی طرح پناہ گزین جب جنگ،ظلم و تشدد ،نقض امن،سیاسی یا دیگر وجوہات کی بناء پر اپنا سب کچھ چھوڑ چھاڑکر غیر ملک میں پناہ لینے کے لئے خطرناک جنگلوں،صحراوں،دریاؤں اور سمندروں کا سفر کرتے ہیں تو ا ن کا یہ سفر موت کا سفرکہلاتا ہے جسے طے کرنے کے دوران ہزاروں پناہ گزین یا تو ہلاک ہوجاتے ہیں یا لاپتہ ہوجاتے ہیں۔اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے ادارے (یو این ایچ سی آر) کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق سن2022 کی پہلی سہ ماہی کے دوران تقریباًاٹھارہ ہزار سے زائد مہاجرین اور تارکین وطن نے یورپ پہنچنے کے لیے بحیرہ روم کو عبور کیا، مجموعی طور پر، پچھلے آٹھ سالوں میں 2.3 ملین افرادنے یہی سفر کیا ہے۔رپورٹ کے مطابق سن2014 سے لے کر سن 2021 کے درمیانی عرصہ میں تقریبا چوبیس ہزار چارسو سے زیادہ افراد بحیرہ روم کو عبور کرنے کی کوشش میں اپنی جانیں گنوا چکے ہیں یا لاپتہ ہو چکے ہیں۔ایک بین الاقوامی ویب سائٹ میں شائع خبروں کے مطابق رواں پچھلے برس اپریل کے مہینے میںشمالی افر یقی ملک تیونس کے ساحلوں کے قریب یورپ کی طرف سفر کرنے والے افریقی تارکین وطن کی دو کشتیاں سمندر میں ڈوب جانے سے تیرہ افراد ہلاک ہو گئے جن میںچھ خواتین اور چھ بچے بھی شامل تھے اسی طرح ایک اور خبر کے مطابق مارچ میں مراکش کے ساحل پرکشتی میں سوارخواتین اور نوزائیدہ بچوں سمیت چوالیس تارکین وطن اسپین پہنچنے کی آس دل میں لئے ڈوب گئے اس کے باوجود موت کے سفر میں بچ جانیوالے خوش نصیب پناہ گزینوں کو جو زندگی ملتی ہوتی ہے اس کو وہ موت سے بھی بدتر کہتے ہیںکیونکہ وہ ساری عمر بنیادی حقوق سے محروم رہتے ہیں۔
دنیا بھر میں اس وقت82 ملین سے زائدافرادنسلی تعصب،مذہبی کشیدگی،امتیازی سلوک، جنگ ،تشدد ، ظلم وستم یا سیاسی تناو سے اپنے کنبے کو بچانے کے لئے اپنا گھر بار،اپناوطن چھوڑکر دوسرے ممالک میںپناہ گزینوں کی زندگی بسر کررہے ہیں ۔بدقسمتی سے خراب حالات ا ور واقعات کے شکار افراد جن مصائب سے بچنے کے لئے جلا وطنی اختیار کرتے ہیں اس سے کہیں زیادہ مشکلات ان کو دیار غیر میں برداشت کرنی پڑجاتی ہیں۔سن1951 اور 1967میں رفیوجی کنونشن میں پناہ گزینوںکے حقوق اور میزبان ممالک کی ذمہ داریوں پرسب سے پہلے روشنی ڈالی گئی لیکن مختلف وجوہات کی بناء پر کئی ممالک پناہ گزینوں کو ان کے حقوق فراہم نہیں کررہے، اسی شعور کو اجاگر کرنے کے لئے اقوام متحدہ کے زیر اہتمام ہر سال 20 جون کو پناہ گزینوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔یہ عالمی دن اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میںپیش کردہ قرارداد کے فیصلے کے نتیجے میں سن 2000 سے منایا جارہا ہے،اس سال اس دن کا موضوع ہے(For a world where refugees are welcomed) یعنی ایک ایسی دنیا جہاں پناہ گزینوں کا خیرمقدم ہو۔
اقوام متحدہ کے بیا ن کردہ اسی تحفظ اور بنیادی حقوق کی تلاش میںشام کے بیس لاکھ سے زائد افراد اردن، لبنان، ترکی اور عراق میں پناہ گزینوں کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں اسی طرح اسرائیلی جارحیت کے باعث ہزاروںفلسطینی مسلمان اپنا وطن چھوڑ نے پر مجبور ہیں جبکہ قابض اسرائیلی حکومت روس اوریوکرین کی جنگ کی آڑ میں پچیس ہزار سے زائد یہودیوں کومقبوضہ فلسطین میں آباد کرچکی ہے۔ افغانستان کے چھبیس لاکھ سے زائد افراد مہاجر کی حیثیت سے دوسرے ممالک میںپناہ گزین کی حیثیت سے زندگی گذار رہے ہیں جبکہ عراق کے چودہ لاکھ چھبیس ہزار افراد، صومالیہ کے دس لاکھ سات ہزاراورسوڈان کے پانچ لاکھ سے زائد افراد دوسرے ممالک میں پناہ گزینوں کی زندگی گزار رہے ہیںاسی طرح مقبوضہ کشمیر اورانڈیا میں رہنے والے مسلمانوں پرظلم و تشدد کرکے انھیں پناہ گزین بننے پر مجبور کیا جارہاہے۔اقوام متحدہ اور عالمی برادری کو چاہئے کہ اس عالمی دن کے موقع پر مودی حکومت سمیت دنیا بھر میں مسلمانوں کوپناہ گزینوںکی زندگی گذارنے پر مجبور کرنے والے ممالک کا سماجی و معاشی بائیکاٹ کرنے کے لئے اپنا موثر کردار اداکرے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں