تیل بطور ہتھیار
شیئر کریں
جاوید محمود
یوم کپور جنگ کے دوران 1973ء میں عرب تیل پیدا کرنے والوں نے اسرائیل کے اتحادیوں کو برآمدات منقطع کر دی لیکن غذا پر آج کی اسرائیلی جنگ کا سامنا کرتے ہوئے خلیجی ریاستیں تیل کے ہتھیار کے استعمال کے خیال کو مسترد کرتی ہیں۔ یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ انہوں نے فلسطینی کاز کو کتنا ترک کیا ہے۔ اکتوبر 1973کو کویت میں ہونے والے ایک اجلاس میں عرب اوپیک کے 17ارکان نے مغربی ریاستوں کو برآمدات روکنے اور اسرائیلیوں کے مقبوضہ عرب علاقوں سے انقلاب تک ماہانہ تیل کی پیداوار پانچ فیصد تک کم کرنے کا فیصلہ کیا۔ ایک بیرل تیل کی قیمت چار گنا بڑھ گئی۔ یہ تیل کا پہلا جھٹکا تھا جس نے مغربی معیشتوں کو بھار ی نقصان پہنچایا ۔امریکہ میں تیل کی درآمدی قیمتوں میں اضافے سے مجموعی معیشت پر تباہ کن اثرات مرتب ہوئے ۔امریکی محکمہ خزانہ کے مطابق تقریبا 20بلین ڈالر کی کمی واقع ہوئی اور صرف چھ ماہ میں 50لاکھ افراد نے اپنی ملازمتیں کھو دیں۔ اسی محکمے نے یہ بھی نوٹ کیا کہ اوپیک کی پابندیوں کی وجہ سے امریکی تیل کے کل بل میں اضافہ ہوا اور اس وجہ سے امریکی ادائیگیوں کے توازن میں نمایاں کمی واقع ہوئی۔
فرانس میں جب کہ 1970میں برآمدی محصولات کا 10فیصد تیل کا بل ادا کرنے کے لیے کافی تھا۔ 1974تک یہ بڑھ کر 24 فیصد ہو گیا ،اگرچہ اوپیک کی پابندی مارچ 1974میں ہٹا دی گئی تھی لیکن اس نے امریکہ اور یورپی دنیا میں دیرپا معاشی نقصان چھوڑا ۔تقریباً سات ماہ قبل جب اسرائیل نے غزہ پر اندھا دھند بمباری شروع کی تو دنیا کے نو ممالک نے اسرائیل کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات معطل کیے ان میں سے چھ غیر مسلم ممالک تھے اور بیشتر کا تعلق لاطینی امریکہ سے تھا ۔کسی مسلم ملک کویہ توفیق نہیں ہوئی کہ انسانی قتل عام کے الزام میں اسرائیل کو عالمی عدالت میں لے جاتا ۔یہ فریضہ بھی جنوبی افریقہ کو ادا کرنا پڑا۔اس جنگ میں اب تک لگ بھگ 36ہزار فلسطینیوں کی جان لے لی ہے۔ اس وقت بھی ہزاروں ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔ غزہ کی فضا میں چاروں طرف بارود کی بو ہے۔ 70فیصد گھر رہنے کے قابل نہیں رہے ۔بچے صرف گولیاں اوربموں سے نہیں مر رہے۔ بہت سی ہلاکتیں خوراک کی کمی اور آلودہ پانی سے ہوئی ہیں۔اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت تک پیدا ہونے والی فضائی آلودگی کاڈیڑھ لاکھ ٹن کوئلہ جلانے کے برابر ہے ۔بموں میں استعمال ہونے والے سفید فاسفورس سے زرعی زمین پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ غزہ کے 23لاکھ شہری پہلے بھی 365 مربع میل میں قید تھے ۔اب بہت سے لوگ شمال سے جنوب کی جانب ہجرت کر گئے ہیں۔اس سے جنوب میں آبادی کی کثافت مزید بڑھ گئی ہے جس سے نت نئے سماجی اور نفسیاتی مسائل جنم لے رہے ہیں غزہ کی جنگ کا واضح اثر ابراہیمی معاہدوں پر ہوا ہے۔ متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات معطل کر دیے ہیں۔ بحرین نے یہ قدم پہلے ہی اٹھا لیا تھا ۔اردن کی حکومت اس وقت شدید دباؤ میں ہے اور وہاں روزانہ مظاہرے ہو رہے ہیں۔ یاد رہے کہ اردن کی 70 فیصد آبادی فلسطینیوں پر مشتمل ہے ۔غزہ کی جنگ کا عالمی تجارت پر بھی بڑا منفی اثر پڑا ہے۔ نہرسوئز سے گزرنے والے جہاز بہت کم رہ گئے ہیں۔ حسین میرا میزائلوں کے ڈر سے اب بحری جہاز جنوبی افریقہ کے راستے یورپ جا رہے ہیں۔ یورپ اور ایشیا کے درمیان سمندری سفر لمبا اور مہنگا ہو گیا ہے۔ جہازوں کے کرائے اور انشورنس کا خرچ بھی بڑھ گیا ہے۔ سب سے دلچسپ پوزیشن بھارت کی رہی ہے مودی اور نیتن یاہو میں سالوں سے دوستی ہے۔ دونوں انتہا پسند ہیں۔ بی جی پی اور اسرائیل کی لکوت پارٹی میں بہت سی اقدار مشترک ہیں۔ دونوں مسلم دشمن سیاسی جماعتیں ہیں بھارت نے 17اکتوبر کے فوراً بعد اسرائیل کی مکمل حمایت کی اور پھر عالمی رائے عامہ کو دیکھ کر فلسطینی حقوق کی بات کرنا شروع کر دی۔ فلسطین کے معاملے پر بھارت کی فارن پالیسی گرگٹ کی طرح رنگ بدلتی رہی ہے ۔غزہ کی جنگ پاکستان کے لیے بھی لمحہ فکریہ ہے۔ کل کو اگر مقبوضہ کشمیر میں غذا کی طرح مزاحمت شروع ہوتی ہے تو بھارت بھی مقبوضہ کشمیر پر بے رحمانہ بمباری کرے گا۔ ہزاروں کشمیری بے گھر ہو کر پاکستان کا رخ کریں گے ۔اس صورت میں پاکستان کی حکمت عملی کیا ہوگی ہم مسٹر کی طرح سنگ دلانہ رویہ اختیار کریں گے یا کشمیری بھائیوں کو گلے لگائیں گے ۔فلسطینیوں نے شہادتیں دے کر دنیا کے دل جیت لیے ہیں کیا ہم عالمی سطح پر کشمیر کے موقف کی وکالت کر سکیں گے ۔ماہرین کا کہنا ہے کہ غزہ میں اسرائیلی فوجی مہم کا شمار اب تک تاریخ کی سب سے مہلک اور تباہ کن مہموں میں سے ایک کے طور پر کیا جا سکتا ہے۔ اس دوران کی جانے والی کارروائیاں 2012اور 2016 کے درمیان شام کے شہرحلب یوکرین کے ماریوپول یا پھر دوسری عالمی جنگ میں جرمنی اتحادیوں کی بمباری سے کئی زیادہ تباہ کن ہیں۔ امریکی قیادت والے اتحاد کی اسلامک اسٹیٹ گروپ یا داعش کے خلاف تین سالہ مہم کے مقابلے میں اس لڑائی میں اب تک زیادہ عام شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔ اسرائیلی فوجی اس بارے میں بہت کم وضاحت کرتی ہے کہ اس نے غزہ میں کس قسم کے بم اور توپ خانے کا استعمال کیا ہے لیکن متاثرہ علاقوں پر ملنے والے بم کے ٹکڑوں اور حملے کے فوٹیج کے جائزے سے ماہرین کو یقین ہے کہ محصور علاقے پر گرائے گئے بموں کی اکثریت امریکی ساختہ ہے۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس کے سامنے دو اہداف ہیں ایک تو حماس کو تباہ کرنا اور دوسرے ان یرغمالیوں کو بازیاب کرانا جو ابھی تک حماس کے قبضے میں ہیں۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ جنگ کے دوران اس نے حماس کے بہت سے مقامات اور سینکڑوں سرنگوں کو تباہ کر دیا ہے اور اندازے کے مطابق 30ہزار حماس جنگجوؤں کو ہلاک کر دیا ہے۔ اسرائیلی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ مزید یرغمالیوں کی رہائی کا واحد راستہ شدید فوجی دباؤ ہے لیکن یرغمالی افراد کے کچھ خاندانوں کو خدشہ ہے کہ بمباری سے ان کے عزیزوں اور پیاروں کی جانوں کو خطرہ ہے۔ 1973 میں یوم کپور جنگ کے دوران عرب ممالک نے تیل کو ہتھیار کے طور پر استعمال کر کے اسرائیل کو گھٹنے ٹیکنے میں مجبور کر دیا تھا جبکہ موجودہ جنگ کے دوران عرب ممالک نے جو پالیسی اپنائی ہے، اس نے عالمی سطح پر مسلمانوں کو بڑا رنجیدہ کیا ہے جبکہ دنیا بھر میں فلسطین کی حمایت میں مظاہرے ہو رہے ہیں۔ ان میں امریکہ کی یونیورسٹی کے طلبہ اور طالبات کے علاوہ کینیڈا آسٹریلیا اور یورپ کی دیگر ممالک میں بھی فلسطینیوں کی حمایت میں مظاہرے جاری ہیں۔ اب بھی وقت ہے عرب ممالک کو اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔