میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
آئی ایم ایف اب بھی مطمئن نہیں!

آئی ایم ایف اب بھی مطمئن نہیں!

جرات ڈیسک
منگل, ۲۰ جون ۲۰۲۳

شیئر کریں

وزیراعظم شہباز شریف نے گزشتہ روزایک بیان میں امید ظاہرکی ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ جلد طے پاجائے گا اور معاشی سطح پر استحکام پیدا ہوجائے گا،جبکہ دوسری جانب پاکستان کے لیے آئی ایم ایف کی نمائندہ ایستھر پیریز روئز نے وزیرخزانہ اسحاق ڈار کی پیش کردہ بجٹ تجاویز پر عدم اطمینان کا اظہارکرتے ہوئے کہاہے کہ نئی ٹیکس ایمنسٹی پروگرام کی شرائط گورننس کے ایجنڈے کے خلاف ہے جو نقصان دہ مثال قائم کرتی ہے۔انھوں نے پاکستان حکومت کی جانب سے حال ہی میں پیش کیے گئے وفاقی بجٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے۔خبر رساں اداروں کے مطابق آئی ایم ایف کا یہ بیان غیر ملکی زرمبادلہ کی کمی کے شکارایک ایسے ملک کے لیے ایک دھچکا ہے جس کے بیل آؤٹ پروگرام کی میعاد ختم ہونے میں صرف دو ہفتے باقی ہیں۔ اس وقت حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے پاس بمشکل ایک ماہ کی درآمدات کو پورا کرنے کے لیے زرمبادلہ کے ذخائر باقی ہیں۔ پاکستان کو امید تھی کہ گزشتہ سال نومبر میں 1.1 ارب ڈالر کے فنڈز جاری ہوں گے لیکن آئی ایم ایف نے مزید ادائیگیوں سے قبل کئی شرائط لاگو کردیں جس کی وجہ سے آئی ایم ایف سے معاہدہ طے پاجانے کے بارے میں وزیراعظم شہباز شریف اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی خوش فہمیوں پر مبنی لن ترانیاں دھری رہ گئیں۔ آئی ایم ایف کی سربراہ کا کہناہے کہ پاکستان سے توقع کی جا رہی تھی کہ وہ ایسا بجٹ پیش کرے گا جو آئی ایم ایف کے پروگرام سے ہم آہنگ ہو۔ اس کے علاوہ توقع تھی کہ ایف ایکس مارکیٹ کا معمول کے مطابق کام بحال کیا جائے گا اور محصولات اور اخراجات میں 6 ارب ڈالر کے فرق کو ختم کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔یہ سب 6.5 ارب ڈالر کی ایکسٹینڈڈ فنڈ فیسیلیٹی (ای ایف ایف یعنی بیرونی قرض کی سہولت) کے لیے حتمی جائزے کی راہ ہموار کرنے کے لیے کیا جانا تھا لیکن وزیر خزانہ نے ایسا کچھ نہیں کیا۔پاکستان کے لیے آئی ایم ایف کی نمائندہ ایستھر پیریز روئز نے برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کو ایک ٹیکسٹ میسج میں بتایا ہے کہ آئی ایم ایف کاعملہ استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے پالیسیوں پر پاکستانی حکام سے بات کرنے میں مصروف ہے تاہم، مالی سال 24 کے بجٹ نے زیادہ ترقی پسند انداز میں ٹیکس کی بنیاد کو وسعت دینے کا موقع گنوا دیا ہے۔ نئے ٹیکس اخراجات کی طویل فہرست ٹیکس کے نظام کی شفافیت کو مزید کم کرتی ہے اور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں غریب طبقے کے لیے درکار وسائل کو کم کرتی ہے۔انھوں نے کہاکہ توانائی کے شعبے کے لیکویڈیٹی کے دباؤ سے نمٹنے کے لیے اقدامات کو بجٹ کی وسیع حکمت عملی میں شامل کیا جا سکتا تھا۔انھوں نے پیشکش کی کہ آئی ایم ایف کی ٹیم اس بجٹ کی منظوری سے قبل حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے تیار ہے۔اس کا مطلب ہے کہ پاکستان کے پاس ای ایف ایف پروگرام کے اختتام سے قبل نویں بورڈ جائزے کو بچانے کا موقع اب بھی موجود ہے۔اس سے قبل وزیراعظم شہباز شریف نے دعویٰ کیا تھا کہ وفاقی حکومت نے آئندہ مالی سال کے بجٹ کی تجاویز میں بعض اقدامات آئی ایم ایف کی سربراہ کی جانب سے عالمی ادارے کے فنڈز کی منظوری سے متعلق زبانی یقین دہانی کے بعد کیے ہیں۔ اسی بنیاد پر انھوں نے انتہائی وثوق کے ساتھ یہ دعویٰ کیاتھا کہ آئی ایم ایف کا نواں جائزہ اسی مہینے منظور ہو جائے گا اور فوراً بعد آئی ایم ایف کے بورڈ سے بھی اس کی منظوری مل جائے گی۔وزیراعظم شہباز شریف نے کہا تھاکہ ان کی حکومت نے آئی ایم ایف کی تمام شرائط پوری کی ہیں اور اب کوئی ایسی چیز باقی نہیں رہی جو قرض کی وصولی میں رکاوٹ بن سکے۔
آئی ایم ایف کی سربراہ کے تازہ ترین بیان سے اب صورتحال واضح تر ہوتی جارہی ہے کہ ہمارے وزیر خزانہ نے آئی ایم ایف کے کہنے پر کئی ایسے اقدامات کیے جن کی وجہ سے اسے مقامی سطح پر غیر مقبولیت کا سامنا کرنا پڑا لیکن اس کے باوجود آئی ایم ایف نے معاہدہ نہیں کیا۔ مسلسل کہا جاتا رہا کہ فلاں دوست ملک سے یہ ضمانت لاؤتو معاہدہ ہو جائے گا۔ ان شرائط کو پورا کرنے کے لیے چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے ہم سے بھرپور تعاون بھی کیا اور ان کے تعاون کی وجہ سے ہی پاکستان ابھی تک دیوالیہ ہونے سے بچا ہوا ہے۔ اسی دوران آئی ایم ایف نے یوکرین جیسے جنگ زدہ ملک کو ساڑھے 16 ارب ڈالر کی رقم دی جس سے یہ بات ایک بار پھر پوری طرح کھل کر سامنے آگئی کہ آئی ایم ایف مختلف ملکوں کو رقوم فراہم کرنے یا نہ کرنے کے فیصلے سیاسی بنیادوں پر کرتا ہے اور اس وقت امریکہ اور یورپی ممالک کیونکہ روس کے مقابلے میں یوکرین کے ساتھ کھڑے ہیں، اس لیے آئی ایم ایف نے ان کے کہنے پر بغیر کوئی شرط لگائے یا مطالبہ کیے یوکرین کو ایک خطیر رقم جاری کردی، اور اس رقم کی واپسی کا قابلِ قیاس مستقبل میں تو کوئی امکان دکھائی نہیں دے رہا۔امریکہ کی طرف سے ویسے تو اس قسم کے بیانات مسلسل جاری ہوتے رہتے ہیں کہ وہ پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات کا خواہاں ہے اور یہ نہیں چاہتا کہ پاکستان عدم استحکام کا شکار ہو لیکن عملی حوالے سے جائزہ لیا جائے تو اس کے ایسے بیانات زبانی جمع خرچ کے سوا کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ سیاسی عدم استحکام کے اس دور میں بھی جس ملک کو پاکستان کی سب سے زیادہ فکر ہے یہ امریکہ ہی ہے لیکن اس فکر مندی کا نہایت قابلِ غور پہلو یہ ہے کہ امریکہ کے جن 66 ارکانِ پارلیمان نے وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کو خط لکھ کر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ان سے اس معاملے میں اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنے کا کہا، ان میں سے 59 ایسے ہیں جو بھارت اور اسرائیل کے حامی ہیں، اور یہ ایک کھلا راز ہے کہ بھارت اور اسرائیل پاکستان کو کیسے دیکھتے ہیں اور ان کے حامی پاکستان سے کتنی محبت رکھ سکتے ہیں۔یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ امریکہ کے کہنے پر کوئی بین الاقوامی یا عالمی ادارہ پاکستان کو تنگ کررہا ہے، ماضی میں بھی ایسے کئی واقعات پیش آچکے ہیں اور مستقبل میں بھی ایسے واقعات کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اس سب کی وجہ بہت صاف اور سیدھی ہے کہ امریکہ پاکستان کو اپنا دست نگر بنا کر رکھنا چاہتا ہے اور یہ رویہ اس کا صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ اور بھی کئی ملکوں کے ساتھ ہے۔ اب جب اسے دکھائی دے رہا ہے کہ پاکستان روس اور چین کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید مستحکم بنارہا ہے اور خاص طور پر وہ ان دونوں ممالک کی مدد سے اپنے معاشی مسائل کو حل کرنے کے لیے کوشاں ہے تو یہ بات اسے ہضم نہیں ہورہی اور وہ ہر ممکن کوشش کررہا ہے کہ کسی بھی طرح پاکستان کو روس اور چین کے ساتھ معاملات آگے بڑھانے سے روکا جائے۔ آئی ایم ایف کی طرف سے پاکستان پر کڑی شرائط کا عائد کیا جانا اور تمام شرائط کو مان کر سخت اقدامات کرنے کے باوجود قرضے کی قسط کا جاری نہ کیا جانا اسی سلسلے کا ایک پہلو ہے جسے پورے منظر نامے کو سامنے رکھ کر سمجھنے کی ضرورت ہے۔ حقیقت کی نظر سے دیکھاجائے تومسئلہ امریکہ یا آئی ایم ایف سے بڑھ کر ہمارا اپنا ہے کہ ہماری سیاسی قیادت بالغ نظری کی اس سطح پر ابھی تک پہنچی ہی نہیں جس سے قومی مسائل کو حل کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ سیاسی عدم استحکام نے ملک کو ماضی میں بھی بہت نقصان پہنچایا ہے اور اس وقت بھی یہ ایک ایسی حد تک پہنچا ہوا ہے کہ اس کی وجہ سے ملک اور عوام کے حقیقی مسائل پس منظر میں چلے گئے ہیں۔ گزشتہ4-5برس سے ’میثاقِ معیشت‘ کا ذکر تواتر سے ہورہا ہے اور ہر سیاسی قائد یہ جانتا ہے کہ ایسا معاہدہ معیشت کو سہارا دینے کے لیے اشد ضروری ہے لیکن اس کے باوجود اس سلسلے میں کوئی پیش رفت نہیں ہو پارہی۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ سیاسی قائدین کی انائیں اس حد تک بڑھی ہوئی ہیں کہ وہ قومی مفاد کے پیش نظر بھی ان کی قربانی دینے کو تیار نہیں ہیں۔ ایسی صورتحال میں اگر عوام سیاسی قیادت کی بجائے غیر جمہوری یا غیر سیاسی قوتوں کی طرف دیکھتے ہیں تو اس کے لیے صرف اور صرف سیاسی قائدین ذمہ دار ہیں جو معاملات کو سلجھانے کے لیے درکار بصیرت کا مظاہرہ کرنے سے قاصر دکھائی دیتے ہیں۔کیا ہمارے قائدین ایک دوسرے پرالزام تراشی کے بجائے اس طرح دیکھنے کی بھی کوشش کریں گے۔
٭٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں