میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
فارما مافیا کی بلیک ملینگ اور بدمعاشیاں قیام پاکستان سے آج تک مسلسل جاری

فارما مافیا کی بلیک ملینگ اور بدمعاشیاں قیام پاکستان سے آج تک مسلسل جاری

ویب ڈیسک
جمعرات, ۲۰ جون ۲۰۱۹

شیئر کریں

(جرأت انوسٹی گیشن سیل) فارما سیوٹیکل مافیا کی بدمعاشیوں اور حکومتوں کو بلیک میل کرنے کا سلسلہ کچھ نیا نہیں ہے۔ ادویہ ساز ادارے قیام پاکستان کے کچھ عرصے بعد سے آج تک ہر دور میں غیر اخلاقی ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے منتخب حکومتوں کو بلیک میل کرتے آ رہے ہیں۔ ٹیکس چوری، منی لانڈرنگ، ڈرگ کارٹیل بنانے اور ادویات کی مصنوعی قلت پیدا کرکے اپنے مطالبات تسلیم کروانا ان کا وطیرہ ہے۔ ادویہ ساز اداروں کی طاقت (بلیک میلنگ، بدمعاشیوں) کا اندازاتو اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے تحریک پاکستان کے سرگرم کارکن اورپاکستان پیپلز پارٹی کے چیئر مین ذوالفقار علی بھٹو کے معتمد خاص شیخ محمد راشد کوبھی ناکوں چنے چبوا دیے۔


فارما سیوٹیکل مافیا نے ادویات کی قلت اور بلیک مارکیٹنگ کے ہتھکنڈے آزماتے ہوئے بھٹو کی طاقت ور حکومت کو نہ صرف گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا بلکہ شیخ محمد راشد کی وزارت بھی تبدیل کروادی


ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں اس وقت کے وزیرِ صحت شیخ محمد راشدنے برانڈ نام کے ساتھ ادویات کی فروخت پر پابندی عائد کردی تھی، ان کے اس فیصلے کے بعد تمام قومی اور کثیر القومی ادویہ ساز اداروں کو ’جینرک‘ نام کے ساتھ ادویات بنانے اور فروخت کرنے کا حکم جاری کیا گیا۔ ملک بھر کے ڈاکٹروں پر ’سخت پابندی عائد کردی گئی کہ وہ اپنے نسخوں میں ادویات کے ’برانڈ نہیں لکھ سکتے تھے، انہیں ’پیناڈول‘ کے بجائے اس کا جینرک نام’پیرا سیٹا مول‘ لکھنے کی ہدایات جاری کی گئیں۔ ڈاکٹروں کے ساتھ ساتھ ملک بھر کے تھوک اور خوردہ فروشوں پر بھی برانڈ نام کے ساتھ آنے والی ادویات کی خرید و فروخت پر مقدمات اوربھاری جرمانے لگائے گئے۔ شیخ محمد راشد کے اس جرأت مندانہ اقدام کی بدولت پورے پاکستان میں ادویات کی قیمتوں میں راتوں رات کمی واقع ہوگئی تھی، جس کی وجہ سے ادویہ ساز اداروں کی اجارہ داری اور ناجائز منافع خوری کا سلسلہ رک گیا۔ تاہم فارما سیوٹیکل مافیا کی طاقت اور اثر و رسوخ کے آگے یہ اسکیم بھی محض چند ماہ ہی چل سکی۔
فارما سیوٹیکل مافیا نے ادویات کی قلت اور بلیک مارکیٹنگ کے ہتھکنڈے آزماتے ہوئے بھٹو کی طاقت ور حکومت کو نہ صرف گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا بلکہ شیخ محمد راشد کی وزارت بھی تبدیل کروادی۔ شیخ محمد راشد نے خود اپنی خود نوشت ’جہد مسلسل‘ میں فارما سیوٹیکل مافیا کے ان کالے دھندوں کا کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ادویات کو ’برانڈ‘ نام کے بجائے ’جینرک‘ نام کے ساتھ فروخت کرنے کی اسکیم کو ختم کرنے کے لیے ادویہ ساز اداروں نے انہیں پہلے بھاری رشوت دینے کی کوشش کی، نہ ماننے پر ان پر ہر طرف سے دباؤ ڈالا گیا اور یہ معاملہ اتنا سنگین ہوگیا کہ ذوالفقار علی بھٹو کو مداخلت کرنی پڑی، بھٹو نے اس اسکیم کو ختم کردیا اور شیخ محمد راشد سے صحت کی وزارت واپس لے کر انہیں ’لینڈ ریفارم کمیشن‘ کا چیئر مین تعینات کردیا۔


ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی پاکستان متعین کردہ قیمت سے زائد اضافے کرنے والی فارما سیوٹیکل کمپنیوں کے خلاف سخت کارروائی اور لائسنس معطل کرنے کے بجائے ان کے مفادات کا تحفظ کر رہی ہے
 حکومت کی جانب سے برانڈ نیم کو ختم کر کے جینرک کی بنیاد پر ادویات کی فروخت کی اسکیم متعارف کرانے سے قومی و کثیر القومی فارما سیوٹیکل کمپنیوں کی اجارہ داری ختم ہوجائے گی اور قیمتوں میں پچاس سے ستر فیصد تک کمی بھی واقع ہوگی


پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں ادویہ ساز اداروں کوخام مال کی درآمد پر ٹیکس میں نوے فیصد تک کی چھوٹ کے باوجود اس خام مال سے تیار ہونے والی ادویات کی قیمتیں بہت زیادہ ہیں۔ پاکستان ایک غریب ملک ہے لہٰذا یہاں ادویات کی قیمتیں کم ہونی چاہئیں، اگر ہم پاکستان میں قومی اور کثیر القومی ادویہ ساز اداروں کی قیمتوں کا جائزہ لیں تو پاکستان میں ادویات بھارت، بنگلہ دیش اور افغانستا ن سے بھی بہت زیادہ مہنگی ہیں۔ پاکستان میں غریب عوام سے ناجائز منافع کمانے کی اس دوڑ میں قومی اور کثیرالقومی کمپنیاں برابر کی شریک ہیں۔ پاکستان میں عوام کو مہنگی ادویات کے ساتھ ساتھ جعلی اور غیر معیاری ادویا ت کی شکل میں ملنے والے زہر کا سامنا بھی ہے۔ نوے کی دہائی کے آغاز تک پاکستان میں ادویات کی قیمتوں میں اضافے کا کوئی فارمولا نہیں تھا، ادویہ ساز کمپنیاں قیمت میں اضافے کی درخواست کرتی اور اور وزارت صحت فورا ً ان کی خواہش پوری کرتے ہوئے انہیں قیمتیں بڑھانے کی منظوری دے دیتی۔ اپنے پہلے دورِحکومت میں نوازشریف نے ادویات کی قیمتوں میں اضافے کے ایک بھارتی ماڈل کو پاکستان میں متعارف کروایا جس کے تحت تمام رجسٹرڈ مصنوعات کو دو حصوں (کنٹرولڈ اور ڈی کنٹرولڈ) میں تقسیم کردیا۔ کنٹرولڈ ادویات میں بین الاقوامی ادارہ برائے صحت (ڈبلیو ایچ او) کی فہرست میں شامل 821 ادویات کو جب کہ دیگر ادویات کو ڈی کنٹرولڈ کے زمرے میں رکھا گیا۔اس وقت یہ طے پایا تھا کہ کنٹرولڈ ادویات کی قیمتوں کو وزارتِ صحت جب کہ ڈی کنٹرولڈ ادویات کی قیمتوں کا تعین مارکیٹ کی صورت حال کے مطابق کیا جائے گا۔ اس فارمولے میں ایک انوکھی شق یہ بھی شامل تھی کہ اگر ایک کثیرالقومی کمپنی کی ایک دوا کی قیمت سو روپے اور مقامی کمپنی کی اسی فارمولے پر بننے والی دوا کی قیمت پچاس روپے ہے تو وہ قومی کمپنی بتدریج اپنی پراڈکٹ کی قیمت کو سو روپے کی سطح پر لے جاسکتی ہے۔ 1994میں ایک ایس آر او (نمبر 1038) کے تحت ادویات کی قیمتوں کا تعین کرنے کے لیے ایک اور فارمولا طے ہوا۔ اس وقت تک ادویات کے خام مال پر کسٹم ڈیوٹی کی شرح آج کی نسبت زیادہ اور ادویات کی قیمتیں آج کی نسبت کم تھیں۔
رواں سال جنوری میں ڈریپ کی جانب سے ادویات کی قیمتوں میں اضافے کا نوٹیفکیشن جاری ہوتے ہی فارما سیوٹیکل مافیا کو ناجائز منافع خوری کا ایک اور بہانہ مل گیا اور ہر کمپنی نے اپنی استطاعت کے مطابق عوام کو لوٹنے کی کوشش کی۔ادارہ جرأت کی تحریک اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر شورہونے کے بعد وزیر اعظم نے مداخلت کی، بہتر گھنٹے میں ادویات کی قیمتوں کو پرانی قیمت پر لانے کا حکم جاری ہوا۔ کچھ میڈیکل اسٹورز اور تقسیم کنندگان پر چھاپے مارے گئے لیکن اس بار بھی جیت ’فارما سیوٹیکل مافیا‘ کی ہوئی اور تبدیلی سرکار ہانپنے لگی۔ ڈریپ اور حکومت کی سب سے بڑی نا اہلی تو یہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے ادویات کی قیمتوں میں اضافے کے ذمہ داروں کا تعین کرنے کے لیے قائم کمیٹی کی اب تک کوئی رپورٹ سامنے نہیں آسکی۔ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی پاکستان متعین کردہ قیمت سے زائد اضافے کرنے والی فارما سیوٹیکل کمپنیوں کے خلاف سخت کارروائی کرنے، ان کے لائسنس معطل کرنے کے بجائے ان کے مفادات کا تحفظ کر رہی ہے۔ لمحہ فکریہ تو یہ ہے کہ سرکاری اداروں کے لیے جن نئی قیمتوں پر ادویات کی خریداری کے آرڈر جاری کیے گئے تھے، انہیں منسوخ کرنے کے بجائے فیصلہ کیاگیا کہ ان کی ادائیگیاں بھی نئی قیمتوں کے حساب سے ہی کی جائے گی، جس سے معاشی بدحالی کے شکار اس ملک کو مزید نقصان پہنچے گا۔ ہارڈشپ کیسز کے تحت ادویات کی قیمتوں میں 75 فیصد اضافہ واپس لینے کا جھوٹا وعدہ کیا گیا، ادویات کی نئی قیمتیں مقرر کردی گئیں لیکن اس میں بھی ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی پاکستان نے ادویہ ساز اداروں کو ریلیف دیتے ہوئے 78 ادویات کی نئی قیمتوں کا نوٹیفکیشن جاری کردیا، لیکن ادویات کی قیمتیں ابھی تک اسی اضافے کے ساتھ مارکیٹ میں موجود ہیں جس کی سب سے بڑی مثال پاکستان فارما سیوٹیکل مینو فیکچرر ایسوسی ایشن کے چیئر مین زاہد سعید کی کمپنی انڈس فارما کی ہے۔ ادویات کی قیمتوں میں حالیہ اضافے میں زاہد سعید کی ’پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی‘ میں رہا۔
انڈس فارما کے زاہد سعید نے اپنی اہم اور سب سے زیادہ فروخت ہونے والی دوا ’اریتھروسین‘ کی قیمت میں کئی گنا اضافہ کیا اور ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی اور وزیر اعظم عمران خان کے واضح احکامات کے باوجود اس کی قیمت میں ایک پیسے کی کمی نہیں کی۔ انڈس فارما نے ’اریتھروسین‘ 250ملی گرام کے سو گولیوں والے پیکٹ کی قیمت 548روپے سے بڑھا کر 921روپے اور اریتھروسین 500ملی گرام کے سو گولیوں کے پیکٹ کی قیمت 1039روپے پچاس پیسے سے بڑھا کر 1640روپے کر دی تھی۔ اگر ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے منظور شدہ اضافے کو سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو 15فیصد کے حساب سےErythrocin 250ملی گرام کی نئی قیمت 630روپے اور اریتھروسین 500ملی گرام کی قیمت بارہ سو روپے تک ہونی چاہیے تھی، لیکن پاکستان فارماسیوٹیکل مینو فیکچرر ایسو سی ایشن کے چیئر مین صرف اس ایک دوا سے ہی ابھی تک کئی سو گنا ناجائز منافع کما رہے ہیں۔ حالیہ بجٹ میں ادویات کے خام مال پر ٹیکس کی شرح تین اور پانچ فیصد سے صفر کردی گئیں ہے۔ لیکن ادویہ ساز اداروں کی زرپرستی کا سلسلہ کسی طرح رُکنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ اگر حکومت کی جانب سے برانڈ نیم کو ختم کر کے جینرک کی بنیاد پر ادویات کی فروخت کی اسکیم متعارف کروائی جائے تو قومی اور کثیر القومی فارما سیوٹیکل کمپنیوں کی اجارہ داری ختم ہوجائے گی اور ادویات کی قیمتوں میں پچاس سے ستر فیصد تک کمی بھی واقع ہوگی۔آئندہ اقساط میں ایک ایک خام مال کی درآمدی قیمت، اس پر عائد ٹیکس کی شرح اور ادویہ ساز اداروں کی ناجائز منافع خوری کا پردہ چاک کیا جائے گا۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں