خلیجی تاجرقطر پر پابندیوں کے خلاف میدان میں آگئے
شیئر کریں
قطر پر عائد الزامات خلیج کی کسی بھی ریاست اور خود سعودی عرب کے حکمرانوں پربھی عاید کئے جاسکتے ہیں،تاجروں کا موقف
تنازع سعودی قطر شاہی خاندانوں کی آپس کی لڑائی قرار، مذاکرات واحد حل ہے،کویت کی ثالثی کوششیں قابل ستائش ہیں
تاجروں نے آواز اٹھانے کے دیگر ذرائع استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ امریکا اور دیگر ممالک کے اخبارات میں اشتہارات شائع کرادیے
ابن عماد بن عزیز
سعودی عرب کی جانب سے قطر کے خلاف اچانک پابندیوں کے اعلان اور چھ خلیجی ممالک کی جانب سے سعودی عرب کے اس فیصلے کی حمایت میں قطر سے تعلق منقطع کرنے کے منفی اثرات اب قطر سے زیادہ خود خلیجی ممالک میں محسوس کئے جانے لگے ہیں اور خلیجی ممالک کے عوام اور خاص طورپر تاجروں نے ان پابندیوں کو بلاوجہ اور بلاضرورت قرار دے کر اس کے خلاف آواز اٹھانا شروع کردی ہے ۔ خلیجی تاجروں کاکہناہے کہ سعودی عرب کی جانب سے قطر پر دہشت گرد تنظیموں کی مدد اور اعانت کے جو الزامات عاید کئے گئے ہیں وہ خلیج کی کسی بھی ریاست اور خود سعودی عرب کے حکمرانوں پربھی عاید کئے جاسکتے ہیں کیونکہ تیل کی دولت سے مالامال خلیجی ریاستیں اور خود سعودی عرب مختلف ممالک میں کام کرنے والی ایسی تنظیموں کی معاونت کرتی رہی ہیں اور اب بھی کررہی ہیں جن کو ان کے اپنے ممالک میں اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا اور ان پر خود ان کے اپنے ممالک میں انتہاپسندی کے الزامات عاید کئے جاتے رہے ہیں۔
خلیجی تاجروں نے قطر کے خلاف ناکہ بندی اور اس سے قطع تعلق کئے جانے کے خلاف اپنی آواز سعودی عرب کے شاہی خاندان اور ارباب حکومت تک پہنچانے کیلئے دیگر ذرائع استعمال کرنے کے ساتھ ہی اب امریکا اور دیگر ممالک کے اخبارات میں بڑے بڑے اشتہارات شائع کرانا شروع کردیے ہیں جن میں قطر کے خلاف سعودی حکومت کی کارروائی کو دو حکمراں خاندانوں کے درمیان خاندانی لڑائی قرار دینے کی کوشش کی جارہی ہے ۔
بزنس پیپل آف دی عرب ورلڈ ایٹ دی ریٹ آف جی میل ڈاٹ کام کی جانب سے گزشتہ روز نیویارک ٹائمز کے انٹرنیشنل ایڈیشن میں چوتھائی صفحہ کا ایک ایسا ہی اشتہار شائع کرایاگیاہے جس میں قطر کی ناکہ بندی ختم کرنے اور اس پر سے پابندیاں اٹھانے کامطالبہ کیاگیاہے۔اشتہار میں کہاگیاہے کہ سعودی عرب کی زیر قیادت قطر کو تنہا کرنے کی مہم کو اس سے پہلے کہ اس سے بڑا نقصان ہوجائے، ختم ہوجانا چاہئے۔اشتہا ر میں کہاگیاہے کہ ان پابندیوں اور ناکہ بندیوں سے صرف قطر ہی کونقصان نہیں پہنچ رہا ہے بلکہ اس سے تمام خلیجی ممالک اور برادر عرب ممالک کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کاخدشہ ہے۔
عرب ممالک کے تاجروں کی جانب سے نیویارک ٹائمز میں شائع کرائے جانے والے اشتہار میں کہاگیاہے کہ قطری اور سعودی، بحرین اورمتحدہ عرب امارات کی قیادت کے درمیان بعض اختلافات کی بنیاد پر یہ کارروائی کی گئی ہے ، یہ اختلافات اہم ہیں لیکن ان کی تفصیلات اتنی زیادہ اہم نہیں ہیں اور ان تفصیلات سے معلوم ہوتاہے کہ یہ حکمران خاندانوں کے آپس کے اختلافات ہیں۔اشتہار میں لکھا گیاہے کہ اس خطے کے تمام ممالک نہ صرف مذہب ، ثقافت ،زبان اور کھلی سرحدوں کے حامل ملک ہیں بلکہ اس پابندی سے قبل تک قطر اس خطے کے دو اہم اتحادوں خلیج تعاون کونسل اور عرب لیگ کافعال رکن بھی تھا،ان تمام ممالک کی تاریخ اور شاہی روایات بھی یکساں ہیں،یہی نہیں بلکہ خلیج تعاون کونسل کے رکن ممالک کویت اور اومان کے لوگوں کی آپس میں رشتہ داریاں ہیں یہاں تک کہ ان کے حکمراں خاندانوں نے ایک دوسرے کے ساتھ شادیاں بھی کررکھی ہیں۔ایسی صورت میں خلیج تعاون کونسل کے ایک رکن کو اس طرح یکا وتنہا کرنے کی پالیسی سے خلیج تعاون کونسل کے رکن ممالک کے لاکھوں شہری اور ان ممالک میں کام کرنے والے, روزگار کمانے والے لاکھوں سرکاری اور غیر سرکاری ملازمین اور ان کے اہل خانہ بھی جو برسہا برس خلیج کے اس معاشرے میں ایک دوسرے کی خدمت کررہے ہیں بری طرح متاثر ہوں گے۔اس کے علاوہ خلیج کے کم وسیلہ اور نسبتاً غریب ممالک کیلئے اس خطے کے باوسیلہ اور دولت مند ممالک کی فراخدلی بھی بہت اہمیت رکھتی ہے۔اس میں غیر ضروری کمی سے غریب بھائیوں کیلئے دولت مند بھائیوں کی امداد میں کمی اور غریب بھائیوں کی مشکلات اور مصائب میں اضافہ ہوگا۔اس صورت حال میں خلیج کے تمام ارکان کاجن کی حیثیت ایک خاندان کی سی ہے یہ فرض ہے کہ وہ قبل اس کے کہ اس ناکہ بندی اور پابندیوں کے منفی اور تباہ کن اثرات نظر آنا شروع ہوں, آپس کے اختلافات ختم کرانے کیلئے کوششیں شروع کردینی چاہئیں اور یہ اختلافات ختم کرکے یہ ثابت کرنا چاہئے کہ ہم سب ایک ہی خاندان کے فرد ہیں اور ہمیں کوئی تقسیم نہیں کرسکتا۔اشتہار میںکہاگیاہے کہ باہمی اختلافات ختم کرنے کے ان اقدامات سے اس خطے کے تمام بھائیوں, تمام مکینوں کو بلالحاظ فائدہ پہنچے گا۔
اشتہار میں کہاگیاہے کہ بچوں اور چھوٹوں کے درمیان عام طورپر اختلافات پیدا ہوجاتے ہیں لیکن بچے چھوٹے ہی ہوتے ہیں وہ خاندان کاحصہ ہوتے ہیں اور ان اختلافات کی بنیاد پر ان کو خاندان سے علیحدہ نہیں کیاجاسکتا۔اشتہار میں کہاگیاہے کہ یہ اختلافات ختم کرنے کا واحد مناسب ذریعہ مذاکرات ہیں۔اگر تمام ممالک مذاکرات پر تیار ہوجائیں جس کی کوششیںکویت نے شروع کردی ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ تمام اختلافات پرامن طورپر ختم نہ ہوجائیں اور خلیج تعاون کونسل اور عرب لیگ کااتحاد بچ جائے ،محفوظ رہے اورخلیج کے تمام ممالک کی اپنی خودمختاری اور وقار پر بھی کوئی آنچ نہ آئے۔ اشتہار میں کہاگیاہے کہ خطرہ اس بات کا ہے کہ اگر یہ تادیبی عمل تادیر جاری رہتاہے تو باہمی اختلافات گہرے ہوتے جائیں گے, جڑ پکڑ تے جائیں گے, غلط فہمیاں گہری ہوتی جائیں گی ،فاصلے بڑھتے جائیں گے اور پھر انھیں حل کرنا آسان نہیں رہے گا۔اشتہار میں کہاگیاہے کہ ایسا ہونا شروع ہوچکاہے ، قطر کی ناکہ بندی کے منفی اثرات سامنے آنا شروع ہوچکے ہیںاور صورت حال تیزی سے خطرناک شکل اختیار کرتی جارہی ہے۔قطر کے بحری ،بری، فضائی مقاطع یہاں تک کہ قطر اور خلیجی ممالک کے درمیان ڈاک سروس کی بندش کی وجہ سے بچے اپنے والدین سے بچھڑ گئے ہیں ،اس سے بین الاقوامی فضائی قوانین کی بھی خلاف ورزی ہورہی ہے اور خلیجی ممالک کے درمیان تجارت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہاہے۔سرحدوں کے دونوں جانب رہنے والے لاکھوں لوگوں کے بنیادی انسانی حقوق پامال ہورہے اورلاکھوں افراد کے مسائل ومصائب میں اضافہ ہورہاہے۔تاجروں نے اپنے اشتہارات میں لکھاہے کہ قطر کے خلاف پابندیوں کے حوالے سے بعض اتنے سخت اقدامات کئے گئے ہیں جو تقسیم برلن کے وقت بھی دونوں جانب کے لوگوں پر عاید نہیں کئے تھے جبکہ یہ دونوں ملک نظریاتی طورپر ایک دوسرے کے شدید مخالف تھے۔
اشتہارات میں تاجروں نے موقف اختیار کیاہے کہ سوال یہ نہیں ہے کہ آپس کے بھائیوں کے اس تنازع کو کس طرح طے کیاجاسکتاہے کیونکہ بنیادی طورپر خلیج کے تمام ممالک ایماندار ہیں ،ایک دوسرے کے ساتھ مخلص ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ تاریخی طورپر مذہب ، ثقافت اور زبان کے مضبوط بندھنوں میں بندھے ہوئے ہیں۔ اگر کچھ اختلافات پید ا ہوگئے ہیں تو وہ فروعی نوعیت کے ہیں اور انھیں دور کرنا بہت مشکل کام نہیں ہے۔تاجروں نے اشتہار میں لکھاہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ خلیج کے تمام ممالک تیل وگیس کی دولت سے مالامال ہیں، یہ درست ہے کہ ان میں سے بعض ممالک کی تیل کی دولت ختم ہورہی ہے لیکن دیگر ممالک اب بھی اس دولت سے فائدہ اٹھارہے ہیں اور ان کو ہونے والی تیل کی اس آمدنی سے خلیج کے دیگر تمام ممالک ہی نہیں بلکہ خلیج سے باہر کے ممالک بھی استفادہ کررہے ہیں۔تیل کی اس دولت نے خلیج کے ممالک کو بے مثال صنعتی ترقی کاموقع فراہم کیاہے اور آنے والی نسلیں بھی اس سے استفادہ کرتی رہیں گی،مختصر یہ کہ خلیج تعاون کونسل کابنیادی مقصد اپنے اتحاد کو اپنے وجود کو محفوظ کرناہے تاکہ کوئی بیرونی قوت اس اتحاد کوپارہ پارہ کرکے ان کے وجود کو نقصان پہنچانے کے درپے نہ ہوسکے اوراس کونسل کے تمام ممالک اللہ تعالیٰ کی بخشی ہوئی نعمتوں سے استفادہ کرتے رہیںاور اپنے دوستوں تک اس کافیض پہنچاتے رہیں۔
اشتہا ر میں کہاگیاہے کہ پوری دنیا میں خلیج کے تمام دوست ممالک اور کثیر الملکی ادارو ں کی ایک ہی رائے ہے کہ خلیج کے اس تنازع کا حل مذاکرات کے ذریعے ہی نکل سکتاہے، اس مسئلے پر محاذ آرائی اس خطے کے کسی بھی ملک کے مفاد میں نہیں ہوگی۔اس صورت حال نے اس خطے کے دیگر تمام ممالک کو مشکل صورت حال سے دوچار کردیاہے ان کیلئے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوگیاہے کہ وہ کس کی حمایت کریں اور کس کی مخالفت یا اس پوری صورت حال پر خاموش تماشائی بن کر دیکھتے رہیں کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتاہے۔صورت حال اس حد تک نازک ہوچکی ہے کہ لبنان اور دیگر ممالک کے گرجا گھروںمیںبھی اس صورت حال کے پرامن تصفیے کیلئے دعائیں کی جانے لگی ہیں۔اگر اس مسئلے کا کوئی پرامن حل نہ نکالاجاسکا تو پوری خلیج تعاون کونسل کاوجود بے معنی ہوکر رہ جائے گا، اوراس کی حیثیت ایک کاغذی تنظیم سے زیادہ نہیں رہے گی ۔
اس صورت حال میں کویت کی حکومت قابل تعریف ہے کہ اس نے اس مشکل صورت حال کے باوجود تصفیہ کرانے کی کوششیں شروع کردی ہیںاور اس بات کے اشارے مل رہے ہیں کہ کویت کی ان کوششوں کے مثبت نتائج سامنے آنے کی توقع کی جاسکتی ہے۔کویت کی ان کوششوں کے نتیجے میں قطر کی ناکہ بندی کرنے والے بعض ممالک نے انسانی بنیادوں پر کچھ رعایتیں دینے کا عندیہ ظاہر کرنا شروع کردیاہے جو کہ موجودہ صورت حال میں ایک بڑی کامیابی ہے اوراس سے سعودی حکومت کے نادر شاہی فرمان کے سبب دونوں جانب پھنسے ہوئے لاکھوں لوگوں کے مسائل ومصائب میں کسی حد تک کمی واقع ہوسکتی ہے۔اس صورت حال میں قطر کو کچھ رعایتیں دینے کاعندیہ دینے والے حکام یقینا لائق ستائش ہیں۔کویت کی کوششوں کے ان ابتدائی نتائج سے مذاکرات کی اہمیت کااندازہ لگایاجاسکتاہے اوراس سے ظاہر ہوتاہے کہ اس موجود کشیدگی میں کمی کرنے اور اس کاخاتمہ کرنے کاواحد راستہ مذاکرات ہیں۔
اشتہار میں کہاگیاہے کہ یہ بات واضح ہے کہ قطر پرسے پابندیاں ہٹانے سے سعودی عرب سمیت اس ناکہ بندی میں سعودی عرب کاساتھ دینے والے تمام ممالک کو بے انتہا فوائد حاصل ہوں گے جبکہ یہ صورت حال جاری رہنے کی صورت میں ان تمام ممالک کو اس کے منفی اور تباہ کن اثرات سے محفوظ رکھنا ممکن نہیں ہوسکے گا۔قطر کو تنہا کرنے کیلئے اچانک اٹھائے جانے والے اس قدم سے اس کی سنگینی کا اندازہ ہوتاہے اس لئے اب اس صورت حال کو ختم کرنے اور کشیدگی کاخاتمہ کرنے کیلئے فیصلہ کن قدم اٹھانا ضروری ہوگیاہے۔ اس سے خطے کے تمام ممالک میں خیرسگالی کا جذبہ بڑھے گا اور اس سے باہمی اتحاد کے ماحول کو بحال کرنے میں نمایاں مدد ملے گی۔جبکہ اس صورت حال کو طول دینے سے کسی کوبھی کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوسکتا۔اس صورت حال کے تحت عرب دنیا کے تاجر مذاکرات کے ذریعے اس مسئلے کے دیرپا حل کے حامی ہیں اور تمام عرب اور خلیجی ممالک سے امید کرتے ہیں کہ وہ سنجیدگی اور متانت کامظاہرہ کرتے ہوئے اس مسئلے کو مذاکرات کے ذریعے جلد از جلد حل کرنے کی کوشش کریں گے اور اس حوالے سے کویت کی جانب سے شروع کی گئی کوششوں کوکامیاب بنانے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔