چائے والا کروڑوں مالیت کے اثاثوں کا مالک
شیئر کریں
ریاض احمدچودھری
مودی جہاں چند پیسوں میں چائے بیچتے تھے آج وہ کروڑوں مالیت کے اثاثوں کے مالک ہیں۔ اس بات کا اقرار انہوں نے خود کیا۔ان کے پاس کل 3 کروڑ روپے مالیت کے اثاثے موجود ہیں، لیکن انہوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ ان کے پاس کوئی زمین، مکان یا گاڑی نہیں۔ان کے پاس کوئی بھی غیر منقولہ جائیداد نہیں، کیونکہ انہوں نے گاندھی نگر میں اپنے حصے کی ایک زمین عطیہ کردی تھی۔بھارتی وزیر اعظم میں انتخابی حلقہ میںحلف نامہ میں (3.02 کروڑ بھارتی روپے) کے کل اثاثوں کی تفصیلات بتائیں، جس کا ایک بڑا حصہ اسٹیٹ بینک آف انڈیا کے پاس 2.86 کروڑ کی فکسڈ ڈپازٹ پر مشتمل ہے۔ ان کی کل کیش ان ہینڈ 52,920 ہے جبکہ گاندھی نگر اور وارانسی میں ان کے دو بینک اکاؤنٹس میں 80,304 بھارتی روپے موجود ہیں۔نریندر مودی کے پاس نیشنل سیونگ سرٹیفکیٹس میں سرمایہ کاری کے طور پر 9.12 لاکھ روپے موجود ہیں اور ان کے پاس 2.68 لاکھ روپے کی چار سونے کی انگوٹھیاں بھی ہیں۔ان کی آمدنی 2022ـ23 میں 23.56 لاکھ ہوئی، اس سے قبل 2018ـ19 میں یہ آمدنی 11.14 لاکھ تھی۔سب سے مضحکہ خیز بات مودی کا یہ کہنا تھا کہ ان کے خلاف کوئی زیر التوا فوجداری مقدمہ نہیں ہے۔
انسان کو اپنے نصیب کا کچھ علم نہیں کہ وہ کب بدل جائے۔ یعنی ایک وقت ایسا ہوتا ہے کہ آپ چھوٹے موٹے کام کر کے پیسے کماتے ہیں لیکن جب وقت بدلتا ہے تو حالات بھی بدل جاتے ہیں۔جیسا کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ ہوا، جو کبھی ماضی میں چائے فروخت کیا کرتے تھے، لیکن کیا معلوم تھا کہ ایک دن وہ بھارتی وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوجائیں گے۔ دبئی میں جائیدادیں خریدنے والوں میں نامور بھارتی بزنس ٹائیکون مکیش امبانی کا نام بھی شامل ہے۔ مکیش امبانی کی دبئی میں 110 ارب ڈالر مالیت کی جائیدادیں ہیں جبکہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے انتہائی قریب سمجھے جانے والے بھارتی سرمایہ کار گوتم اڈانی کے بھائی ونود اڈانی کا نام بھی پراپرٹی لیکس میں شامل ہے۔ ونود اڈانی کی دبئی میں 22 ارب ڈالر سے زائد مالیت کی جائیدادوں کا انکشاف ہوا ہے۔ اس کے علاوہ پراپرٹی لیکس میں بھارتی شہری دبئی میں جائیدادیں خریدنے والے غیرملکیوں میں سب سے ا?گے ہیں۔ 29 ہزار 700 بھارتیوں کی دبئی میں 35 ہزار جائیدادیں ہیں اور بھارتیوں کی دبئی میں جائیدادوں کی مالیت تقریباً 17 ارب ڈالر ہے۔ 19ہزار 500 برطانوی شہریوں کی دبئی میں 22 ہزار جائیدادیں ہیں، برطانوی شہریوں کی دبئی میں خریدی گئی جائیدادوں کی مالیت 10 ارب ڈالرز ہے جبکہ 8500 سعودی شہریوں نے دبئی میں ساڑھے 8 ارب ڈالرز کی 16 ہزار جائیدادیں خرید رکھی ہیں۔
بھارت کی عام آدمی پارٹی نے الزام عائد کیا ہے کہ بھارتی وزیراعظم نریندر سنگھ مودی نے دہلی یونیورسٹی سے گریجویشن کی جو ڈگری لی وہ جعلی ہے تاہم حکمران بی جے پی نے اس الزام کی تردید کی ہے۔ دہلی کے وزیراعلیٰ اروند کیجری وال نے دہلی یونیورسٹی کو خط لکھا تھا جس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ وزیراعظم مودی سے منسوب ڈگری کی تفصیلات اپنی ویب سائٹ پر عام کریں۔مودی کا کہنا ہے کہ انھوں نے انیس سو اٹھتر میں دہلی یونیورسٹی سے گریجویشن کیا تھا۔ ان کی ڈگری پر ان کا نام نریندر دامودر مودی درج ہے۔ اسی ڈگری کی بنیاد پر مودی نے انیس سو تراسی میں گجرات یونیورسٹی سے ماسٹرز کیا۔عام آدمی پارٹی کا دعویٰ ہے کہ انیس سو اٹھتر میں کسی نریندر دامودر مودی نے دہلی یونیورسٹی سے گریجویشن نہیں کیا۔ البتہ نریندر مہاویر مودی نامی ایک طالب علم نے گریجویشن کیا تھا۔بھارتی میڈیا نے نریندر مہاویر مودی سے رابطہ کیا تو اس نے تصدیق کی کہ وہ انیس سو پچھتر سے انیس سو اٹھتر کے درمیان دہلی یونیورسٹی کا طالب علم رہا۔نریندر مہاویر کا تعلق راجستھان سے جبکہ وزیراعظم مودی کا تعلق گجرات سے ہے۔ گجرات یونیورسٹی نے تصدیق کر دی ہے کہ نریندر مودی نے انیس سو تراسی میں ایم اے کیا تھا مگر دہلی یونیورسٹی نے اب تک کوئی جواب نہیں دیا۔
ایس او ایل نے جواب دیا ہے کہ اس کے پاس اس سال سے متعلق کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے۔ یونیورسٹی نے بتایا ہے کہ یہ اعداد و شمار ہمارے پاس موجود نہیں ہیں۔ یونیورسٹی کا کہنا ہے کہ وہ صرف ایک سال پہلے کا ہی ڈیٹا اپنے پاس رکھتی ہے۔ آر ٹی آئی میں سال 1978 میں بی اے کرنے والے تمام طلبا و طالبات کا ریکارڈ مانگا گیا تھا۔ کھوج لگانے پر معلوم ہوا ہے کہ جس سال نریندر مودی نے بی اے کی ڈگری حاصل کی اس سال کالج کا پورا ریکارڈ ہی غائب ہے۔ دہلی یونیورسٹی اسکول کا کہنا ہے کہ انہوں نے 1978 اپنا جو بھی ڈیٹا مرتب کیا تھا وہ ایک سال کے بعد ضائع ہوگیا تھا۔
دہلی یونیورسٹی اسکول آف اوپن لرننگ کی جانب سے جاری بیان کے بعد بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی بی اے کی جعلی ڈگری کے معاملے نے نیا رخ اختیار کرلیا۔ادھر 1978 میں ہی بی اے کی ڈگری حاصل کرنے والے دو افراد نے کالج سے اپنی ڈگری حاصل کرنے کے لئے درخواستیں جمع کرائیں جن پر ڈین امتحانات، او ایس ڈی امتحانات اور جوائنٹ رجسٹرار امتحان نے اپنے دستخطوں کے ساتھ جواب دیا کہ ان کے پاس ریکارڈ موجود نہیں جب کہ حال ہی میں سینٹرل انفارمیشن کمیشن نے یونیورسٹی کو ہدایت کی تھی کہ 1978 میں کامیاب ہونے والے تمام طلبہ و طالبات کا نام، والد کا نام، رول نمبر اور حاصل کردہ نمبروں سے متعلق بغیر کسی معاوضے کے متعلق طالبعلموں کو فراہم کی جائیں۔