میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
انتہا پسند ہندوؤں کی مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی

انتہا پسند ہندوؤں کی مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی

ویب ڈیسک
هفته, ۲۰ مئی ۲۰۲۳

شیئر کریں

ریاض احمدچودھری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آر ایس ایس سربراہ موہن بھگوت نے بھارتی مسلمانوں کو کھلے عام دشمن قرار دیتے ہوئے کہا کہ بھارت مسلمانوں کیخلاف جنگ کر رہا ہے۔ بھارتی معاشرہ ایک صدی سے اپنے اندر موجود عناصر کیخلاف برسرپیکار ہے۔ مسلمانوں کو بھارت میں اپنی بالادستی کی سوچ کو ترک کرنا ہوگا۔ حکمراں جماعت کے بعض رہنماؤں کی جانب سے مسلم مخالف بیانات کے سبب اقلیتوں میں عدم تحفظ کا احساس بڑھ گیا ہے۔حکام اقلیتوں پر پرتشدد حملے کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرنے سے ہچکچاتے ہیں۔ اسی طرح جب ایک مشتعل ہجوم نے گائے کا گوشت رکھنے کے الزام میں ایک مسلمان کو بے رحمی سے پیٹ پیٹ کر مار ڈالا اورجب مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والوں نے اس کے خلاف آواز اٹھائی تو انہیں بھی دھمکیاں دی گئیں۔
موہن بھاگوت نے انٹرویو میں مسلمانوں اور عیسائیوں پر شدید حملہ بھی کیا ہے اور ہندو مذہب کو سب سے بہتر قرار دیا ہے۔بھاگوت کا کہنا ہے ”ہندو سماج اگر خود کو جانے گا تو اپنا حل کیا ہے اسے سمجھ جائے گا۔ کٹر عیسائی کہتے ہیں کہ ساری دنیا کو عیسائی بنا دیں گے، اور جو نہیں بنیں گے ان کو ہمارے رحم و کرم پر رہنا پڑے گا، یا تو مرنا پڑے گا۔ کٹر اسلام والے، جو ابراہیمی نظریہ رکھتے ہیں، ایشور کو ماننے والے اور نہیں ماننے والے لوگ ہیں، کمیونزم کیپٹلزم سمیت، سب ایسے ہی نظریات رکھتے ہیں کہ سب کو ہماری راہ اختیار کرنی ہوگی، کیونکہ ہم ہی صحیح ہیں، ہمارے رحم و کرم پر رہو، یا مت رہو۔ ہم تباہ کر دیں گے۔”
امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں بھارت میں انتہا پسند ہندو رہنمائوں کی طرف سے مسلمانوں کی نسل کشی اور قتل عام کے علی الاعلان مطالبوں کو شدید تنقیدکا نشانہ بناتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس انتہائی متعصبانہ رویئے پر بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی خاموشی دراصل اس کی حمایت ہے۔ نئی دہلی سے ڈیڑھ سو کلو میٹر کے فاصلے پر واقع شہر ہریدوار میں منعقدہ کانفرنس سے انتہا پسند ہندو رہنمائوں کے خطاب نے انہیں جرمن شاعر اور ڈرامہ نگار برٹولٹ بریخٹ کے اشعار یاد دلا دیئے جس میں انہوں نے کہا کہ جب ہم نے پہلی بار سنا کہ وہاں ہمارے دوستوں کو قتل کیا جا رہا ہے تو ہم نے خوف کا اظہار کیا، پھر ذبح ہونے والوں کی تعداد ایک سو تک پہنچ گئی، جب ان کی تعداد ایک ہزار تک پہنچ گئی اور یہ ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ بن گیا تو پھر اس پر خاموشی کی چادر تن گئی۔ جب گناہ بارش کی طرح برسنے لگیں تو کسی طرف سے ان کو روکنے کی صدا بلند نہیں ہوتی۔
پولیس کے بارے میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ تفتیش کر رہی ہے لیکن اس نے بے حد سست روی کا مظاہرہ کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہندو رہنما اب اتنے دلیر ہوگئے ہیں کہ انہوں نے مذہبی پیشوائوں کے ایسے نیم فوجی دستے تشکیل دیئے ہیں جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ بھارت میں 22 کروڑ مسلم آبادی کے خلاف مسلح لڑائی کی قیادت کریں گے۔ مودی کے قریبی ساتھی، بی جے پی کے رہنما اور بھارتی پارلیمنٹ کے رکن تیجسوی سوریا بی نے ہندوستانی مسلمانوں اور عیسائیوں کو ہندو مذہب میں واپس لانے پر زور دیا تاہم بعد میں اپنے بیان سے مکر جانے کی کوشش کی۔
ہندوستان جس تیزی سے نفرت و عداوت، بے روزگاری، لاقانونیت، شدت پسندی اور خوف و ہراس کی طرف بڑھ رہا ہے یہ نہ صرف انتہائی افسوسناک ہے بلکہ اس کے بقا کیلئے بھی خطرناک ہے۔ مودی اور اس کے گماشتوں نے پورے ملک میں نفرت کا زہر گھول دیا ہے۔ یہاں ہر شخص خوف و ہراس کی فضا میں سانس لے رہا ہے۔ دن بدن حالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔
بھارتی ریاست کرناٹک کے ضلع بلیگاوی کے سارتھی نگر میں ایک مکان کو ‘فاطمہ مسجد’ کے نام سے مسجد میں تبدیل کر کے وقف بورڈ کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ جس پر بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے رہنمائوں اور سری رام سینا کے ارکان نے طوفان مچا دیا ہے۔ بی جے پی رہنما اور سابق ممبر قانون ساز اسمبلی (ایم ایل اے) سنجے پاٹل نے مسجد کو دوبارہ مکان میں تبدیل کرنے کیلئے ایک باقاعدہ تحریک شروع کر دی ہے۔ سری رام سینا کے سربراہ پرمود متالک نے کہا ہمیں رہائشی مکان کو مسجد میں تبدیل کرنے پر سخت اعتراض ہے اور ہم نے مسجد کو ہٹانے کے لیے ایک ہفتے کی مہلت دی ہے۔بھارتی ریاست کرناٹک کے ضلع وکشینا کنٹر میں ہندو انتہا پسندوں نے ایک مسلمان نوجوان کو ہندو لڑکی سے بات کرنے پر بہیمانہ مار پیٹ کا نشانہ بنایا۔ عفید نامی مسلم نوجوان بس سٹینڈ پر ایک ہندو لڑکی سے بات کر رہا تھا جس دوران کچھ ہندو انتہا پسندوں نے اس پر دھاوا بول دیا۔ عفید سے مار پیٹ کی کچھ تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی ہیں جن میں وہ زمین پر پڑ ا نظر آرہا ہے اور اس کے جسم پر تشدد کے واضح نشانات بھی دکھائی دے رہے ہیں۔
بھارت کو یاد دلوایا گیا کہ ہندوتوا رہنماؤں سمیت حکمران جماعت کے منتخب رہنماؤں کی جانب سے اس طرح کے اشتعال انگیز اقدامات کیے جارہے ہیں اور نئی دہلی میں فروری 2020 میں مسلمان مخالف تشدد کا بھی حوالہ دیا گیا۔ اقلیتوں، خاص کر مسلمانوں کے بنیادی انسانی حقوق اور اور ان کی عبادت گاہوں اور بھارت اور بی جے پی کی کئی ریاستی حکومتوں کی جانب سے مسلمان مخالف قانون سازی اور ہندوانتہاپسند گروپوں کا مسلمانوں پر جاری تشدد اور اکثر ریاستی سرپرستی میں ہونے والے مظالم اور بدترین ہوتا ہوا اسلاموفوبیا اور بھارت میں مسلمانوں کی قابل رحم حالت کی نشان دہی کر رہا ہے۔
٭٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں