پرتعیش اشیاء کی درآمدپرمکمل پابندی، گاڑیاںموبائل فونز،سگریٹ ،میک اپ ،ڈرائی فروٹ شامل
شیئر کریں
حکومت نے پرتعیش اشیاء کی درآمد پرمکمل پابندی لگای ، ان اشیا میں گاڑیاں، موبائل فونز، فروزن فوڈ، بیکری آئٹمز، ڈرائی فروٹس، کراکری، ڈیکوریشن کا سامان، فرنیچر، میک اپ، گوشت، چاکلیٹ، جام جیلی، فش، جیم اینڈ جیولری، ٹشوپیپر، سن گلاسز، جوتے، چمڑا، جوسز، شیمپوز، اسلحہ، سگریٹ، کنفیکشنری، سینٹری آئٹمز اور دیگر سامان شامل ہیں۔اس حوالے سے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے کہا کہ ملک میں مہنگائی کی وجہ سابق وزیراعظم عمران خان کاآئی ایم ایف سے کیا گیا معاہدہ ہے ،ملک میں اس وقت عوامی حکومت ہے جس میں وفاق کی تمام اکائیاں اور تمام صوبوں کی نمائندگی موجود ہے،4 سال عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا گیا، معیشت کو تباہ ،مہنگائی کی شرح کو بڑھایا گیا،کنٹینر پر کھڑے ہو کر 4 ہفتوں کی حکومت سے سوال کرنیوالے سازشی کو اپنے گریبان میں جھانکنا اور شرم کرنی چاہیے ،انتخابات کروانے کا فیصلہ موجودہ حکومت نے کرنا ہے، عمران خان کا مقصد ملک میں افراتفری پھیلانا ہے، ملکی تاریخ میں پہلی بارتمام غیرضروری لگژری اشیاء جو عام عوام کے استعمال میں نہیں ہیں کی درآمد پر مکمل پابندی عائد کردی ہے ،برآمدات سے متعلق معاشی پالیسی متعارف کروائی جارہی ہے، اس سے مقامی صنعت کاروں کو فائدہ ،مقامی سطح پر تیار ہونیوالی صارفین کی اشیاء کے استعمال میں اضافہ ہوگا،ملک میں ہنگامی صورت حال ہے، پاکستانیوں کو معاشی منصوبے کے تحت قربانی دینی پڑے گی ۔اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیراطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے کہا کہ پاکستان کے اندر اس وقت عوامی حکومت ہے اور جس کے اندر وفاق کی تمام اکائیاں اور تمام صوبوں کی نمائندگی موجود ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کی معیشت 4 سال میں جس جگہ پہنچائی گئی، جس طرح پاکستان کے عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا گیا، معیشت کو تباہ اور مہنگائی کی شرح کو بڑھایا گیا۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں 1947 سے لے کر2018 تک حکومتوں نے جتنا قرضہ لیا گیا اور جتنا گزشتہ 4 سال میں قرض لیا گیا وہ اس کا 80 فیصد بنتا ہے۔وزیراطلاعات نے کہا کہ قرض 25 ہزار سے 43 ہزار ارب کردیا گیا ہے، غذائی مہنگائی جو پاکستان مسلم لیگ (ن) کے دور میں 2.3 فیصد پر تھی لیکن آج وہ لوگ سوال کر رہے ہیں جنہوں نے غذائی مہنگائی کو 16 فیصد پر پہنچایا۔انہوں نے کہا کہ پاکستان 2018 میں ابھرتی ہوئی معیشتوں میں شامل ہوگیا اور ترقی کی شرح 6 فیصد پر پہنچی تھی، جس کو پہلے منفی کیا گیا اور 4 سال ہچکولے کھاتی رہی۔انہوں نے کہا کہ 4 سال ایک امپورٹڈ حکومت، امپورٹڈ کابینہ، امپورٹڈ مشیر اور امپورٹڈ ترجمان کی حکومت تھی تو پاکستان کا تجارتی خسارہ تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے۔انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں ترقی کی شرح 6 فیصد تھی تو اس وقت سی پیک، 11 ہزارمیگاواٹ بجلی کے منصوبے لگ رہے تھے، منصوبوں کی مشینری آئی تھی اور اس وقت ڈالر مستحکم تھا لیکن سیاسی عدم استحکام مچا کر 3 دفعہ کے منتخب وزیراعظم کو اقامے کے اوپر نکالا گیا تو ڈالر 105 روپے پر تھا اور مسلم لیگ (ن) کی حکومت گئی تو ڈالر 115 روپے پر تھا۔انہوں نے کہا کہ آج جو سازشی کنٹینر پر کھڑے ہو کر 4 ہفتوں کی حکومت سے سوال کرتے ہیں ان کو اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے اور تھوڑی شرم کرنی چاہیے کہ ڈالر 189 میں ان کی حکومت میں گیا۔انہوں نے کہا کہ قومی خزانے کی جو بدحالی ہے وہ آپ کے دور میں ہوئی، جب عدم اعتماد کی کامیابی تھی تو اس وقت 193 پر انٹربینک پر ڈالر تھا، تمام چیزوں کو مدنظر رکھتے ہوئے موجودہ حکومت اوروزیراعظم نے آئی ایم ایف عمران خان کے دستخط شدہ معاہدے پر ملا۔انہوں نے کہا کہ یہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے پر پچھلی حکومت نے دستخط کیے، عمران خان نے ان شرائط پر دستخط کیے، جس کی وجہ سے آج پاکستان میں مہنگائی ہے۔انہوں نے کہا کہ جتنا بیس لائن معاہدہ ہے اور شرائط طے شدہ ہیں، اس پر عمران خان کی حکومت کے دستخط ہیں اور وہ لوگ جو صبح، دوپہر اور شام ملکی معیشت پر سوال اٹھا رہے ہیں، ان پر عمران خان نے خود اعتماد نہیں کیا۔انہوں نے کہا کہ عمران خان کی 9 سال حکومت خیبرپختونخوا میں رہی احتساب کمیشن کو تالا لگایا گیا، ہیلی کاپٹر اور بلین ٹری پر احتساب کمیشن پر تالا لگایا گیا،آج ملک مشکل حالات سے گزر رہا ہے۔