میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
پاکستان سے آم کی برآمدات کا 20 مئی سے آغاز ہوگا، رواں سیزن ایک لاکھ ٹن آم برآمد کیا جائے گا، وحید احمد

پاکستان سے آم کی برآمدات کا 20 مئی سے آغاز ہوگا، رواں سیزن ایک لاکھ ٹن آم برآمد کیا جائے گا، وحید احمد

منتظم
هفته, ۲۰ مئی ۲۰۱۷

شیئر کریں


کراچی (ویب ڈیسک) پاکستان سے آم کی برآمدات 20 مئی سے شروع کی جارہی ہیں، پاکستان فروٹ اینڈ ویجیٹیبل ایکسپورٹرز امپورٹرز اینڈ مرچنٹس ایسوسی ایشن کے رواں سیزن ایک لاکھ ٹن آم برآمد کرنے کا ہدف مقرر کیا ہے۔ ایسوسی ایشن کے سرپرست اعلیٰ وحید احمد کے مطابق گزشتہ سال پاکستان سے آم کی برآمد ہدف سے زائد رہی، گزشتہ سیزن کے لئے ایک لاکھ ٹن آم کی برآمد کا ہدف مقرر کیا گیا تھا تاہم سیزن کے اختتام تک ایکسپورٹ ایک لاکھ 28 ہزار ٹن تک پہنچ گئی تھی جس سے 68 ملین ڈالر کا زرمبادلہ حاصل ہوا۔ وحید احمد نے بتایا کہ رواں سیزن موسمیاتی تغیر کی وجہ سے پنجاب میں آم کی فصل کو شدید نقصان پہنچا ہے جس کی وجہ سے ایکسپورٹ کا ہدف بھی محتاط رہتے ہوئے ایک لاکھ ٹن مقرر کیا گیا ہے، پنجاب میں آم کے علاقوں میں دیر تک سردی رہنے، ژالہ باری اور تیز ہوائوں کی وجہ سے پاکستان میں آم کی مجموعی پیداوار 18 لاکھ ٹن میں سے 6 لاکھ ٹن پیداوار متاثر ہونے کا خدشہ ہے، پاکستان میں آم کی مجموعی پیداوار میں پنجاب کا حصہ 67 فیصد ہے جہاں سخت موسم کی وجہ سے 50 فیصد پیداوار کو نقصان پہنچا ہے جبکہ موسم کے حتمی نتائج جون تک پنجاب کی فصل مارکیٹ میں آنے سے ہوگا۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان سے آم دنیا کے 50 ملکوں کو ایکسپورٹ کیا جاتا ہے تاہم رواں سیزن چین، امریکا اور سائوتھ کوریا پر خصوصی توجہ مرکوز کی جائیگی، چین پاکستان کی وسیع منڈی بن سکتا ہے جہاں حکومت کے تعاون سے پاکستانی آم کی تشہیر اور مارکیٹنگ کے لئے خصوصی سرگرمیاں منعقد کی جائیں گی۔ وحید احمد نے کہا کہ رواں سیزن یورپی ممالک کو بھی پاکستان سے آم کی برآمدات بڑھانے پر توجہ دی جائیگی، رواں سیزن آم 650 ڈالر فی ٹن قیمت پر ایکسپورٹ کیا جائے گا، گزشتہ سیزن 680 سے 700 ڈالر فی ٹن تک قیمت پرآم ایکسپورٹ کیا گیا تھا۔ رواں سیزن رمضان اور آم کی ایکسپورٹ کا سیزن ایک ساتھ شروع ہورہے ہیں اس وجہ سے پاکستانی آم کے لئے مسلم ممالک سمیت مسلم آبادی والے مغربی ملکوں میں بھی بھرپور امکانات موجود ہیں تاہم پاکستان میں گڈز ٹرانسپورٹ کی طویل ہڑتال اور بندرگاہوں پر کنسائمنٹس کی اژدہام کی صورتحال کی وجہ سے بھی آغاز میں ایکسپورٹ دبائو کا شکار رہنے کا خدشہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ کلائمٹ چینج اس وقت ہارٹی کلچر سیکٹر سمیت پورے زرعی شعبے کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے جس کا ٹیکنالوجی میں حل موجود ہے، جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے فصلوں کو ژالہ باری سے تحفظ فراہم کیا جاسکتا ہے اس مقصد کے لیے ضروری ہے کہ سندھ اور پنجاب کی صوبائی حکومتیں آئندہ بجٹ میں ژالہ باری سے نمٹنے کے لیے ٹیکنالوجی کے لیے خصوصی فنڈز مختص کریں تاکہ زرعی معیشت کو پہنچنے والے اربوں روپے کے نقصان سے بچاجاسکے۔ وحید احمد نے وفاقی حکومت پر زور دیا کہ ہارٹی کلچر ایکسپورٹ کی لاگت کم کرنے کے لیے آئندہ وفاقی بجٹ میں پھل اور سبزیوں کی ایکسپورٹ کے لیے 7 فیصد مالی معاونت کا اعلان کیا جائے، ساتھ ہی ایک فیصد ودہولڈنگ ٹیکس کا نفاذ C&F کے بجائے FOB پرائس پر کیا جائے کیونکہ پھل اور سبزیوں کی قیمت سے کہیں زیادہ فریٹ کی لاگت ہے۔ انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ فضائی کمپنیوں کی جانب سے پاکستان کے ساتھ امتیازی پالیسی کا بھی نوٹس لیتے ہوئے غیرملکی فضائی کمپنیوں کو مناسب فضائی کرایہ مقرر کرنے کا پابند کیا جائے۔ غیرملکی فضائی کمپنیاں بھارت (ممبئی) سے لندن کے لئے آم کا فریٹ 1.26 ڈالر فی کلو گرام جبکہ پاکستان (کراچی) سے لندن کے لئے 1.70 ڈالر فی کلو گرام فریٹ وصول کررہی ہیں جس سے پاکستان کی لاگت میں اضافہ اور مسابقتی صلاحیت میں کمی ہورہی ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں