عدالت 14 مئی کو الیکشن کرانے کا فیصلہ واپس نہیں لے گی، چیف جسٹس
شیئر کریں
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے ملک کی تمام اسمبلیوں کے انتخابات ایک ساتھ کرانے کے معاملے پر سماعت کرتے ہوئے ریمارکس دئیے ہیں کہ عدالت اپنا 14 مئی کا فیصلہ واپس نہیں لے گی، کسی نے فیصلے کو چیلنج نہیں کیا، عدالتی فیصلہ واپس لینا مذاق نہیں ہے ۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے سماعت کی ۔ سماعت کا آغاز ہوا تو چیف جسٹس نے دعا کی کہ مولا کریم لمبی حکمت دے تا کہ صحیح فیصلے کر سکیں، ہمیں نیک لوگوں میں شامل کر اور ہمارے جانے کے بعد اچھے الفاظ میں یاد رکھا جائے ۔چیف جسٹس نے کہا کہ سراج الحق کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں، آپ نے نیک کام شروع کیا اللہ اس میں برکت ڈالے ، عدالت اس نیک کام میں اپنا حصہ ڈالے گی۔پی ٹی آئی کی جانب سے شاہ محمود قریشی عدالت میں پیش ہوئے جن سے چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ عدالت کی تجویز کی حمایت کرتے ہیں؟۔شاہ محمود قریشی نے کہا کہ عدالت کے ہر لفظ کا احترام کرتے ہیں، ملک نے آئین کے مطابق ہی آگے بڑھنا ہے ، ہمیشہ راستہ نکالنے اور آئین کے مطابق چلنے کی کوشش کی۔شاہ محمود نے کہا کہ قوم نے آپ کا فیصلہ قبول کیا ہے ، دیکھتے ہیں کی حکومت کا کیا نقطہ نظر ہے ، ہمارے جماعت آئین کے تحفظ پر آپ کے ساتھ ہے ۔درخواست گزار کے وکیل شاہ خاور ایڈووکیٹ نے کہا کہ بیشتر سیاسی جماعتوں کی قیادت عدالت میں موجود ہے ، مناسب ہو گا عدالت تمام قائدین کو سن لے ، جمہوریت کی مضبوطی کے لیے ضروری ہے الیکشن ایک ہی دن ہوں۔چیف جسٹس نے کہا کہ سیاسی قائدین کا تشریف لانے پر مشکور ہوں، صف اول کی قیادت کا عدالت آنا اعزاز ہے ، قوم میں اضطراب ہے ، قیادت مسئلہ حل کرے تو سکون ہو جائے گا، عدالت حکم دے تو پیچیدگیاں بنتی ہیں، سیاسی قائدین افہام و تفہیم سے مسئلہ حل کریں تو برکت ہو گی۔چیف جسٹس نے کہا کہ وزارت دفاع کی بھی یہی استدعا ہے کہ الیکشن ایک دن میں الیکشن ہوں اور درخواست گزار بھی یہی کہہ رہا ہے کہ ایک ساتھ الیکشن ہوں، اٹارنی جنرل نے یہ نکتہ اٹھایا لیکن سیاست کی نظر ہوگیا۔انہوں نے کہا کہ فاروق نائیک بھی چاہتے تھے لیکن بائیکاٹ ہوگیا، اخبار کے مطابق پیپلز پارٹی کے قائد بھی مذاکرات کو سراہتے ہیں، مسلم لیگ (ن) نے بھی مذاکرات کی تجویز کو سراہا ہے ۔فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ حکومتی سیاسی اتحاد کا مشترکہ مؤقف ہے کہ 90 دن میں انتخابات کا وقت گزر چکا ہے ، عدالت دو مرتبہ 90دن سے تاریخ آگے بڑھا چکی ہے ، سیاسی جماعتیں پہلے ہی ایک ساتھ انتخابات کا کام شروع کر چکی ہیں۔انہوں نے بتایا کہ بلاول بھٹو زرداری نے اسی سلسلے میں مولانا فضل الرحمٰن سے ملاقات کی، آصف علی زرداری بھی اتحادیوں سے مشاورت کر رہے ہیں، عید کے فوری بعد حکومتی اتحاد کے اندر سیاسی ڈائیلاگ کریں گے پھر پی ٹی آئی سے پھر مذاکرات کریں گے تاکہ ہیجانی کیفیت کا خاتمہ ہو۔فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ہماری کوشش ہوگی کہ ان مذاکرات سے سیاسی اتفاق رائے پیدا ہو، الیکشن جتنی جلدی مکمن ہو ایک ہی دن ہونے چاہیے ۔انہوںنے کہاکہ عام انتخابات ایک دن میں ہوں تو بہت بہتر ہوگا، حکومتی جماعتوں کا پہلے بھی یہی موقف تھا کہ ایک ساتھ انتخابات ہونے چاہئیں، کیوں کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں 90 روز کا وقت میں گزر چکا ہے ۔فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کسی ادارے کی مداخلت کے بغیر الیکشن ہونے چاہئیں۔عدالت میں اپنی جماعت کی نمائندگی کرتے ہوئے خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ ہم قیادت کے مشورے کے بعد آپ کے سامنے آئے ہیں، ملک میں انتشار اور اضطراب نہیں ہونا چاہیے ، یقین رکھتے ہیں کہ ایک ہی دن الیکشن ہونے چاہئیں۔رہنما مسلم لیگ (ن) نے کہاکہ ہم مقابلے پر نہیں مکالمے پر یقین رکھتے ہیں، ہم سیاسی لوگوں کو مذاکرات کے ذریعے حل نکالنا چاہیے ۔انہوںنے کہاکہ ہم نے عید کے بعد اتحادیوں کا اجلاسں بلایا ہے ، اپوزیشن کے ساتھ بات کرنے کے لیے تیار ہیں، ہم جو میڈیا پر بات کرتے ہیں وہ اصل میں ایسا نہیں ہوتا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس میں کچھ کردار سوشل میڈیا کا بھی ہے ۔دورانِ سماعت مسلم لیگ (ن) کے رہنما ایاز صادق نے بلوچستان عوامی پارٹی (بی این پی) مینگل کی نمائندگی کی۔انہوںنے کہاکہ سیاست اپنی جگہ مگر سب اچھے اکٹھے لگتے ہیں، بی این پی مینگل کے لوگ حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ بی این پی کی قیادت اس وقت دبئی میں موجود ہے ، ہم بھی چاہتے ہیں کہ مذاکرات ہوں۔مسلم لیگ (ق) کے قائد چوہدری شجاعت کی ہدایت پر طارق بشیر چیمہ عدالت میں پیش ہوئے انہوںنے کہاکہ پہلے دن سے مذاکرت کا عمل شروع ہو، ملک میں ایک دن میں الیکشن ہونا چاہیے ، یہ بہت سے اختلافات کو ختم کردے گا۔انہوں نے کہا کہ یقین دلاتا ہوں کہ ایک دن الیکشن کرانے کے مطالبے کی حمایت کرتے ہیں، آپ فیصلہ کریں گے تو اس پر تنقید ہوسکتی ہے لیکن اگر ہم کریں گے تو پھر سب کے لیے بہتر ہوگا۔قمر الزمان کائرہ نے عدالت کے سامنے مؤقف اختیار کیا کہ ہماری جماعت کی کوشش تھی کہ اس ہیجان کو ختم کیا جائے ، پہلے ہم اپنے پارٹی اور پھر اتحاد میں شامل قیادت سے ملے جبکہ کل اپوزیشن رہنماؤں سے ملاقات کی۔انہوںنے کہاکہ جب جب تلخیاں بڑھیں تو اس کے نقصانات نکلے ، لیکن مسئلہ پھر بھی مذاکرات سے حل ہوا، ہم نے اس عمل کا آغاز پہلے سے شروع کر رکھا ہے گزشتہ حکومت میں بھی قومی مسائل پر ساتھ چلیں اب بھء ملک کے لیے مل کر چلیں گے ۔متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کی جانب سے صابر قائم خانی عدالت میں پیش ہوئے اور مؤقف اختیار کیا کہ مسائل کا حل بات چیت سے نکالا جائے ، ملک میں انتخابات ایک دن میں ہوں تو بہتر ہوگا۔بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی کی جانب سے محمد اسراراللہ ترین عدالت میں پیش ہوئے اور کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ سیاسی ڈائیلاگ ہونے چاہیئیں، ہماری بھی یہی خواہش ہے کہ الیکشن ایک ہی دن ہوں۔دورانِ سماعت پی ٹی آئی کی نمائندگی کرتے ہوئے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پارٹی کا نقطہ نظر پیش کرچکا ہوں، ایک سیاسی پہلو ہے دوسرا قانونی، آئین 90 روز کے اندر انتخابات کرانے کے حوالے سے واضح ہے ، کسی کی خواہش کا نہیں آئین کا تابع ہوں۔انہوںنے کہاکہ سپریم کورٹ نے انتخابات کے حوالے سے فیصلہ دیا لیکن عدالتی فیصلے پر عملدرآمد میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں، عدالت نے بردباری اور تحمل کا مظاہرہ اور آئین کا تحفظ کیا۔شاہ محمود قریشی نے کہا کہ تلخی کی بجائے اگے بڑھنے کے لیے آئے ہیں، سیاسی قوتوں نے مل کر ملک کو دلدل سے نکالنا ہے جس کا آئینی اور جمہوری راستہ انتخابات ہی ہیں۔انہوںنے کہاکہ طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں تو انتخابات ہونے چاہئیں، مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے کہا کہ الیکشن چاہتے ہیں تو اسمبلیاں تحلیل کر دیں، قومی اسمبلی تحلیل کر دی جائے گی۔رہنما پی ٹی آئی نے کہا کہ اپنی حکومت چھوڑنا آسان نہیں تھا، حکومت ختم ہونے کے بعد جو ہوا سب کے سامنے ہے ، مسلم لیگ (ن) اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد فیصلے سے مکر گئی۔عدالت کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آپ نے 17 اپریل تک وسائل فراہم کرنے کا حکم دیا تاہم کیا اس پر عمل ہوا، آئین کے مطابق یہ اپنا ایک پروپوزل دیں ہم اس کو دیکھیں گے ۔شاہ محمود قریشی نے کہا کہ کیا ملک کو پارلیمانی قررادادوں سے چلانا چاہتے ہیں، ہم نہ انتشار چاہتے ہیں نہ آئین سے انحراف، مذاکرات کے حامی ہیں جو آئین کے اندر رہتے ہوئے ہوں۔اس موقع پر پیپلز پارٹی کے قمر الزمان کائزہ نے شاہ محمود قریشی کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ تلخ باتیں یہاں کرنا بہتر نہیں،جواب الجواب بھی دے سکتے ہیں۔قمر الزمان کائرہ نے کہا کہ عدالت میں ٹاک شو یا مکالمہ نہیں کرنا چاہتے ، ملک میں ایک ساتھ بھی الیکشن ہوئے اور مقررہ تاریخ سے آگے بھی گئے ، آئین بنانے والے اس کے محافظ ہیں، آئین سے باہر جانے والوں کے سامنے کھڑے ہیں، یقین دہانی کراتے ہیں طول دینے کی کوشش نہیں کریں گیے ، سیاست میں گنجائش پیدا کرنی چاہیے ۔خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ اس عدلیہ کو ڈبیٹنگ کلب نہیں بنانا چاہتے ، مل کر بیٹھیں گے تو سوال و جواب ہوں گے ، ہم ایک دن بھی ائینی مدت سے زیادہ حکومت میں بیٹھنے کے لیے تیار نہیں، اگر باتیں اور مکالمہ شروع ہوگا تو وہ لمبا کام ہوگا۔پاکستان عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے روسٹرم پر آکر کہا کہ جو بھی آپ فیصلہ دیں گے قبول ہوگا، ایسا نہ ہو کہ مذاکرات میں چھوٹی اور بڑی عیدیں ایک ساتھ ہوجائیں۔انہوں نے عدالت نے کہا کہ ساری قوم آپ کو سلام کرتی ہے ، سیاسی شخصیات کبھی ڈائیلاگ سے انکار نہیں کرتی، آج ایک سیاسی جماعت نے اس کارروائی کا بائیکاٹ کیا ہے تاہم اٹارنی جنرل نے بتایا کہ کسی نے عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ نہیں کیا۔عدالت نے جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کو روسٹرم پر بلایا تو انہوں نے بتایا کہ میں رات کو پاک افغان بارڈر سے آکر یہاں عدالت پیش ہوا ہوں، ہماری دعا ہے کہ اللہ ہماری رہنمائی فرمائے ۔انہوںنے کہاکہ قرآن کریم کی تلاوت سے عدالتی کارروائی کا آغاز کرنے پر مشکور ہوں، اللہ کا حکم ہے اجتماعی معاملات میں مذاکرات کرو، اللہ کا حکم ہے یکسوئی ہوجائے تو اللہ پر اعتماد کرو، مذاکرات کرنا آپشن نہیں اللہ کا حکم ہے ۔سراج الحق نے کہا کہ آئین اتفاق رائے کی بنیاد پر وجود میں آیا ہے ، آج بھی آئین ملک کو بچا سکتا ہے ، آئین کی حفاظت کرنا ملک کی حفاظت کرنا ہے ، دنیا کا منظر نامہ تبدیل ہو چکا ہے ۔انہوں نے یاد دلایا کہ 1977 میں نتائج تسلیم نہیں کیے گئے اور احتجاج شروع ہو گیا، جس کے بعد میں سعودی سفیر اور امریکی سفیر نے مذاکرات کی کوشش کی جو ناکام ہوئے تو مارشل لا لگ گیا۔سراج الحق نے کہا کہ سیاستدانوں نے اپنا گھر خود ٹھیک کرنا ہے ، نیلسن منڈیلا کے ساتھ 30 سال لڑائی کے بعد مذاکرات کیے گیے ، نیلسن منڈیلا نے اپنے ایک بیٹے کا نام ڈیکلار رکھا۔امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ پاکستان جہموری جدوجہد کے نتیجے میں بنا کسی جنرل نے نہیں بنایا، آمریت نہ ہوتی تو ملک نہ ٹوٹتا۔انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا میں کسی نے پی ٹی آئی سے استعفیٰ دینے کا مطالبہ نہیں کیا تھا، دونوں صوبوں کی اسمبلیاں تحلیل کرنے پر عوام حیران ہے ، ہم نہ پی ٹی آئی کے ساتھ ہیں نہ پی ڈی ایم کے ساتھ ہیں، سیاسی لڑائیوں میں رہنماؤں کو نقصان نہیں ہوتا، نقصان عوام کو پہنچتا ہے ۔سراج الحق نے کہا کہ جنوبی افریقہ میں 30 سال کے بعد ڈائیلاگ کے ذریعے مسائل کا حل نکلا، سیاست، جمہوریت اور آمریت میں فرق ہے ، جمہوریت اور سیاست میں بات چیت ہوتی ہے لیکن آمریت میں خواہش سامنے ہوتی ہے ۔انہوں نے کہا کہ کسی کی ذاتی خواہش پر الیکشن نہیں ہوسکتے ، 90 دن سے الیکشن 105 دن پر آگئے ہیں، اگر 105 دن ہوسکتے ہیں تو 205 دن بھی ہوسکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ میڈیا نے پوچھا کہ مذاکرات کے لیے کیا آپ کو اسٹیبلشمنٹ نے اشارہ کیا ہے ، میرا مؤقف ہے عدلیہ، افواج اور الیکشن کمیشن کو سیاست سے دور ہونا چاہیے ، ہر کسی کو اپنے مؤقف سے ایک قدم ہیچھے ہٹنا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ مسائل کی وجہ یہ ہے کہ عدلیہ، اسٹیبلشمنٹ اور الیکشن کمیشن غیر سیاسی نہیں ہوئے ، سیاسی جماعتیں کبھی الیکشن سے نہیں بھاگتیں، ہمارا مؤقف کبھی ایک کو اچھا لگتا ہے کبھی دوسری جماعت کو۔سراج الحق نے کہا کہ اس وقت لوگ آٹے کے ٹرکوں کے پیچھے بھاگ رہے ہیں، دنیا میں ہماری تصویریں دکھائی جاتی ہیں، بازاروں میں لوگوں کے چہروں پر خوشی نہیں ،دکاندار کہتے ہیں گاہک قیمت پوچھ کر آگے نکل جاتا ہے ۔انہوں نے عدالت کو آگاہ کیا کہ وزیر اعظم اور عمران خان سے ملاقات کی، دونوں سیاسی جماعتوں سے اخلاص کے ساتھ بات کی، مجھ سے پوچھا گیا کہ اسٹیبلشمنٹ کہ کہنے پر بات تو نہیں کی، میں تو چاہتا ہوں کہ سب اداروں کو ازاد رہنا ہوگا۔انہوںنے کہاکہ میں نے ان کو کہا کہ میری عمر 60 سال ہے اور میں اپنی مزید عمر آمریت کے سائے میں نہیں گزار سکتا، جس پر عمران خان نے کہا کہ میری عمر آپ سے بھی زیادہ ہے ۔سراج الحق نے کہا کہ گندم کی کٹائی اور حج کا سیزن گزرنے دیا جائے ، بڑی عید کے بعد مناسب تاریخ پر الیکشن کرانا ٹھیک رہے گا، عدالت یہ معاملہ سیاست دانوں پر چھوڑے اور خود کو سرخرو کرے ، عدالت پنجاب میں الیکشن کا شیڈول دے چکی ہے ۔وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ پارٹی ٹکٹ جمع کروانے کا آخری دن ہے ، عدالتی حکم کے بعد الیکشن کمیشن تاریخ نہیں بڑھا سکتا ، پارٹی ٹکٹ کیلئے وقت میں اضافہ کریں۔چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت نے 13 دن کی تاخیر کے بعد حکم دیا تھا، الیکشن کمیشن شیڈول میں تبدیلی کیلئے بااختیار ہے ، پولنگ کا دن تبدیل کیے بغیر الیکشن کمیشن شیڈول تبدیل کر سکتا ہے ، الیکشن کمیشن رجوع کرے عدالت مؤقف سن لے گی۔چیف جسٹس نے کہا کہ تمام سیاسی قائدین نے آج آئین کی پاسداری کا اعادہ کیا ہے ، آئین پر نہیں چلیں گے تو کئی موڑ آجائیں گے ، آئین کے آرٹیکل 254 کی تشریح کبھی نہیں کی گئی، آرٹیکل 254 کے تحت تاریخ نہ بڑھائی جائے اس لیے اس کی تشریح نہیں کی گئی۔چیف جسٹس نے کہاکہ الیکشن کمیشن نے غلط فیصلہ کیا جس پر عدالت نے حکم جاری کیا، پنجاب میں الیکشن کی تاریخ 14 مئی ہے ، عدالت آئین اور قانون کی پابند ہے ۔انہوں نے کہا کہ سراج الحق، مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے کوشش کی ہے ، بعد میں پی ٹی آئی نے بھی ایک ساتھ انتخابات کی بات کی ہے ، ان کیمرہ بریفنگ دی گئی لیکن عدالت فیصلہ دے چکی تھی، حکومت کی شاید سیاسی ترجیح کچھ اور تھی۔چیف جسٹس نے کہا کہ یاد رکھنا چاہیے کہ عدالتی فیصلہ موجود ہے ، یقین ہے کہ کوئی رکن اسمبلی عدالتی فیصلے کے خلاف نہیں جانا چاہتا، آج کسی سیاسی لیڈر نے فیصلے کو غلط نہیں کہا۔انہوںنے کہاکہ مذاکرات میں ہٹ دھرمی نہیں ہو سکتی، دو طرفہ لین دین سے مذاکرات کامیاب ہو سکتے ہیں، گزارش ہو گی کہ پارٹی سربراہان عید کے بعد نہیں آج بیٹھیں، ایک ہی نکتہ ہے اس پر مل کر بات کریں۔جولائی میں بڑی عید ہو گی اس کے بعد الیکشن ہو سکتے ہیں، عید کے بعد انتخابات کی تجویز سراج الحق کی ہے ، دو امکانات ہیں کہ سماعت ختم کریں۔چیف جسٹس نے کہا کہ مجھے خوشی ہوئی ہے کہ تمام لیڈرز نے آئین کی پاسداری کی بات کی ہے ، ملک کا نظام آئین کے تحت چلتا ہے اس پر عمل نہیں کریں گے تو اگر مگر میں پھنس جائیں گے ۔انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنے 14 مئی کے فیصلے میں ایک وجہ نظر آئی تھی کہ کمیشن تاریخ بدل نہیں سکتا، کچھ غلط فہمیاں ہوئی ہیں، سب کا مؤقف ہے ایک دن میں الیکشن ہوں۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ یہ عدالت ان پریکٹیکل چیزوں پر غور نہیں کرسکتی، ہم آئین اور قانون کے پابند ہیں، ہو سکتا ہے پس پردہ جماعت اسلامی نے کچھ کیا ہو، اخبارات میں پیپلز پارٹی کا مؤقف واضح طور پر سامنے نظر آیا ہے ۔فاروق ایچ نائیک نے بتایا کہ عید کے دوران بھی مولانا فضل الرحمن سے بات کریں گے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ بلاول بھٹو زرداری نے اچھی کوشش کی ہے ، توقع ہے مولانا فضل الرحمٰن بھی لچک دکھائیں گے ۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ وزارت دفاع نے 14 مئی کا فیصلہ واپس لینے کی استدعا کی، ایسے فیصلے واپس نہیں ہوتے ۔چیف جسٹس نے واضح کیا کہ عدالت اپنا 14 مئی کا فیصلہ واپس نہیں لے گی، کسی نے عدالتی فیصلہ چیلنج نہیں کیا، اسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، عدالتی فیصلہ واپس لینا مذاق نہیں ہے ۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سپریم کورٹ نے واضح کر دیا ہے کہ پنجاب میں انتخابات کی تاریخ 14 مئی ہے ۔انہوں نے الیکشن کمیشن کے ڈائریکٹر جنرل لا کو کہا کہ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ شیڈول تبدیل کرسکتے ہیں تو کریں۔بعدازاں عدالت عظمیٰ نے تمام سیاسی جماعتوں کو 4 بجے تک انتخابات سے متعلق مشاورت کر کے عدالت کو آگاہ کرنے کا حکم دیا بعد ازاں وقفے کے دوران پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما فاروق ایچ نائیک اور اٹارنی جنرل پاکستان منصور عثمان اعوان نے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے چیمبر میں ان سے ملاقات کی۔اس کے بعد میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ چیف جسٹس کو آگاہ کیا ہے کہ پی ٹی آئی سے مذاکرات کا آغاز ہوگیا ہے ، انہوںنے کہاکہ سماعت اب 27اپریل کو ہوگی۔فاروق ایچ نائیک نے کہاکہ سپریم کورٹ نے حکم نامے میں 14 مئی کی تاریخ دی ہے ،ہماری قیادت کے ساتھ مشاورت ہورہی ہے ،تمام سیاسی جماعتیں چاہتی ہیں تمام انتخابات ایک تاریخ کو ہوں۔ انہوںنے کہاکہ سپریم کورٹ نے کہا کہ جب تک اتفاق رائے نہیں ہوجاتا نئی تاریخ نہیں دے سکتے ۔ انہوںنے کہاکہ عید کے بعد تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین مل بیٹھیں گے ۔ انہوںنے کہاکہ سپریم کورٹ کو بتا دیا تحریک انصاف سے رابطہ ہوچکا ہے ،عید کے دنوں میں مزید رابطے کیے جائینگے ۔