پاناماکیس‘پاکستان میںکرپٹ سیاستدانوں کے مقدرکا فیصلہ !!
شیئر کریں
پاکستان کے سیاسی ماحول پر چھائے بے یقینی کے سائے چھٹنے کا امکان،اہم قومی معاملے پر دوماہ تک فیصلہ محفوظ رکھے جانے پر عوام کی جانب سے شدید تنقید،آج2بجے فیصلہ سنایا جائے گا
پاناما پیپرزمیں 4اپریل 2016ءکو وزیر اعظم پاکستان کے بچوں کا بھی نام آیاتھا، عمران خان ،سراج الحق اور شیخ رشید نے عدالت عظمیٰ میں وزیر اعظم کی نااہلی کی درخواست دے رکھی ہے
ابو محمد
5رکنی لارجر بینچ
سپریم کورٹ کی پانچ رکنی لارجر بینچ نے سینئر جج جناب جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں پاناما پیپرز اسکینڈل کی کئی ماہ تک سماعت کی تھی اور فریقین کے دلائل سننے کے بعد اس کا فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔ بینچ کے دیگرججز میں جسٹس اعجاز افضل خان ،جناب جسٹس گلزار احمد ،جسٹس عظمت سعید اور جسٹس اعجازالاحسن شامل ہیں۔قبل ازیں اس کیس کی سماعت سابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس انورظہیر جمالی کی سربراہی میں قائم بینچ مین کی جارہی تھی تاہم انکی مدت ملازمت کے خاتمے پر نیا بینچ تشکیل دیاگیاتھا۔
٭….٭….٭
عدالت عظمیٰ آج دوپہر کو پاناما دستاویزات کے بارے میں وزیراعظم نواز شریف سمیت چھ افراد کی نااہلی سے متعلق درخواستوں پر 23 فروری کو محفوظ کیا جانے والا فیصلہ سنائے گی ۔قبل ازیں بینچ کے سربراہ نے پاناما مقدمے کی سماعت مکمل ہونے پرریمارکس دیے تھے کہ یہ ایسا مقدمہ نہیں جس کا مختصر فیصلہ سنایا جائے، عدالت کے سامنے یہ پہلا مقدمہ نہیں ہے مستقبل میں بھی ایسے مقدمات سامنے آئیں گے اس لیے عدالت ایسا فیصلہ دینا چاہتی ہے کہ 20سال کے بعد بھی لوگ یہ کہیں کہ فیصلہ انصاف پر مبنی تھا۔ اس بات سے عدالت کو کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ملک کے کروڑوں لوگ ان کے فیصلے سے خوش ہوتے ہیں یا نہ خوش۔
تقریباً دوماہ تک فیصلہ محفوظ رکھے جانے پر عوام کی جانب سے شدید تنقیدسامنے آئی تھی اور اس فیصلے سے پاکستان کے سیاسی ماحول پر چھائے بے یقینی کے سائے چھٹنے کا امکان ہے اور دراصل اسی فیصلے کی بنیاد پرشاید سیاسی پنڈت آئندہ انتخابات اور حکومت بنانے کے حوالے سے پیش گوئیاں کریں گے۔
گزشتہ سال 4اپریل کو پاناما پیپرز کے نام سے شائع ہونے والی دستاویز میں پاکستانی وزیراعظم کے اہل خانہ کا نام سامنے آتے ہی عمران خان ،سراج الحق اور شیخ رشید نے شریف خاندان پر بدعنوانی کے الزام میں انھیں اقتدار سے الگ کرنے کے لیے مہم کا آغاز کیا تھا،اسی سلسلے میں انہوں نے سپریم کورٹ میں وزیراعظم نواز شریف کی نااہلی کے لیے درخواست دائر کی تھی اور وزیراعظم ،انکے تینوں بچوں سمیت 10 افراد کو فریق بنایا گیا تھا۔دوجرمن صحافیوں کے پاس آنے والی معلومات کے بعد دنیا بھرکے تفتیشی صحافیوں کی تنظیم آئی سی آئی جے
Journalists) Investigative of Consortium International ( کی ویب سائٹ پر جاری ہونے والا یہ ڈیٹا ایک کروڑ 15 لاکھ دستاویزات پر مشتمل ہے جس میں درجنوں سابق اور موجودہ 12سربراہان مملکت، کاروباری شخصیات، مجرموں، مشہور شخصیات ،فلمی ستارون اور معروف کھلاڑیوں کی ‘آف شور’ کمپنیوں کا ریکارڈ موجود ہے۔
پاناما لیکس میں سامنے آنے والی دو آف شور کمپنیوں، نیلسن اور نیسکول نے لندن کے مہنگے ترین علاقے میے فیئر میں پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف کی فیملی کے زیر تصرف فلیٹس1990 کی دہائی میں خریدے تھے۔
ڈیٹا میں مریم کو برٹش ورجن آئس لینڈ میں موجود نیلسن انٹرپرائزز لمیٹڈ اور نیسکول لمیٹڈ کا مالک ظاہر کیا گیا ہے۔آئی ایس آئی جے کی جاری دستاویزات میں نیلسن انٹرپرائزز کا پتہ جدہ میں سرور پیلس بتایا گیا۔
جون 2012 کی ایک دستاویز میں مریم صفدر کو ’ beneficial owner ‘ قرار دیا گیا ہے۔
آئی سی آئی جے کے مطابق حسین اور مریم نے لندن میں اپنی جائیداد گروی رکھتے ہوئے نیسکول اور دوسری کمپنی کیلئے Deutsche Bank Geneva سے 13.8 ملین ڈالرز قرض حاصل کرنے سے متعلق جون، 2007 میں ایک دستاویز پر دستخط کیے تھے۔بعد میں جولائی، 2014 میں دونوں کمپنیاں ایک اور ایجنٹ کو منتقل کر دی گئیں۔اسی طرح حسن نواز شریف کو برٹش ورجن آئس لینڈز میں ہینگون پراپرٹی ہولڈنگز کا ’واحد ڈائریکٹر ‘ ظاہر کیا گیا ہے۔ہینگون نے اگست، 2007 میں لائبیریا میں واقع کیسکون ہولڈنگز اسٹیبلشمنٹ لمیٹڈ کو 11.2 ملین ڈالرز میں خرید لیا تھا۔
ضروری نہیں افشا ہونے والی یہ دستاویزات غیر قانونی سرگرمیوں کا ثبوت ہوں کیونکہ برطانوی روزنامہ دی گارجین کے مطابق آف شور ڈھانچہ استعمال کرنا قانونی ہے۔
کئی ممالک میں آف شور ڈھانچہ استعمال کرنے کے کئی جائز وجوہات بھی ہیں، مثلاً روس اور یوکرائن سمیت کئی ملکوں میں کاروباری شخصیات مجرموں کے ’حملوں‘ سے بچنے کیلئے اپنے اثاثے آف شور رکھتے ہیں۔تاہم پاکستان میں صورتحال دوسری ہے اور یہاں عوام اور سیاستدان اس کیس کو اس نظر سے بھی دیکھتے ہیں کہ انکے حکمران عوام سے ٹیکس نیٹ میں آنے کا کہتے ہیں اور ٹیکس چوروں کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے دوسری جانب خود وزیر اعظم ملک سے مخلص نہیں اور ٹیکس بچانے یا دوسرے الفاظ میں ٹیکس چوری کے لیے منی لانڈرنگ کی ۔
٭….٭….٭
پارک لین کے فلیٹس کب خریدے گئے، کب بِکے؟
پاناما لیکس میں سامنے آنے والی دو آف شور کمپنیوں، نیلسن اور نیسکول نے لندن کے مہنگے ترین علاقے میے فیئر میں پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف کی فیملی کے زیر تصرف فلیٹس1990 کی دہائی میں خریدے تھے اور اس کے بعد سے اب تک ان کی ملکیت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔میڈیا کو حاصل شدہ سرکاری دستاویزات کے مطابق انیس سو نوے کی دہائی سے یہ چار فلیٹس نیسکول اور نیلسن کے نام پر ہی ہیں اور ان دونوں کمپنیوں کی ملکیت کا اعتراف وزیر اعظم نواز شریف کے صاحبزادے حسین نواز کر چکے ہیں۔وزیر اعظم کی فیملی کی طرف سے ان الزامات کے بارے میں جو وضاحتیں پیش کی گئی، جن میں قطر کے شہزادے کا خط بھی ہے، اِن کو حزب اختلاف نے شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور انھیں باہم متضاد قرار دیا ہے۔حسن نواز کی کمپنیوں پر بھی پارک لین کے فلیٹ کا پتہ درج ہے۔میڈیا کو ملنے والی دستاویزات سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ مے فیئر اپارٹمنٹس کے اسی بلاک میں ایک اور فلیٹ ‘بارہ اے’ ایک برطانوی کمپنی، فلیگ شپ انویسٹمنٹ لمیٹڈ کی ملکیت ہے۔ اس کمپنی کی دستاویزات سے پتا چلتا ہے کہ اس کمپنی کے ڈائریکٹر وزیرِ اعظم نواز شریف کے صاحبزادے حسن نواز ہیں۔ فلیگ شپ انویسٹمنٹ نے ایون فلیڈ ہاو¿س میں فلیٹ نمبر بارہ اے29جنوری 2004 میں خریدا تھا۔اس کے علاوہ حسن نواز چار دیگر کمپنیوں کوئنٹ پیڈنگٹن لمیٹڈ ، کوئنٹ گلاسٹر پیلس لمیٹڈ ، فلیگ شپ سکیوریٹیز لمیٹڈ اور کیو ہولڈنگز لمیٹڈ کے بھی ڈائریکٹر ہیں اور ان سب کمپنیوں پر بھی ایون فیلڈ ہاو¿س کے فلیٹ کا پتہ ہی دیا گیا ہے۔لندن میں جائیداد کی خرید و فروخت کا ریکارڈ رکھنے والے ادارے سے حاصل کردہ دستاویزات میں مرکزی لندن کے علاقے مے فیئر میں پہلا فلیٹ سترہ ایون فیلڈ ہاو¿س، یکم جون1993 میں نیسکول لمیٹڈ نے خریدا تھا۔ایون فیلڈ ہاو¿س ہی کی عمارت میں دوسرا فلیٹ نمبر سولہ، اکیتس جولائی 1995 میں نیلسن انٹر پرائز لمیٹڈ نے خریدا۔جلا وطنی کے دوران وزیرِ اعظم نواز شریف کا قیام پارک لین کے فلیٹس میں ہی رہا.اسی عمارت میں تیسرے فلیٹ سولہ اے کی خریداری بھی اسی تاریخ کو عمل میں آئی اور یہ فلیٹ بھی نیلسن انٹر پرائز لمیٹڈ ہی نے خریدا۔چوتھا فلیٹ سترہ اے تئیس جولائی ۱۹۹۶ کو نیسکول لمیٹڈ نے خریدا۔حسین نواز کو لکھے گئے خط میں ان سے پوچھا گیا تھا کہ وہ یہ دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ یہ فلیٹ سنہ 2006 میں خریدے گئے تھے لیکن برطانوی حکومت کے محکمہ لینڈ رجسٹری کے ریکارڈ کے مطابق ان فلیٹس کی ملکیت نوے کی دہائی سے تبدیل نہیں ہوئی ہے، اس حوالے سے جب برطانوی میڈیا نے شریف خاندان سے سوالات کیے تو جواب نہیں ملا۔چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں عدالت عظمی کے پانچ رکنی بینچ نے کہا تھا کہ وزیرِ اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف پر تین الزامات ہیں۔پہلا یہ کہ وہ بلواسطہ یا بلاواسطہ طور پر لندن میں خریدے گئے فلیٹس سے فائدہ حاصل کرتے رہے۔ دوسرا الزام یہ ہے کہ وزیرِ اعظم کے بچوں نے لندن میں جو فلیٹس خریدے ا±س کے پیچھے دراصل نواز شریف خود تھے اور تیسرا الزام یہ ہے کہ وزیر اعظم نے اپنی تقریروں کے دوران سچ سے کام نہیں لیا لہٰذا وہ آئین کے آرٹیکل 62/63 کی زد میں آسکتے ہیں۔عدالت کا کہنا تھا کہ اس معاملے میں وضاحت ضروری ہے۔
٭….٭….٭
پاناما لیکس کے بعددنیا بھرمیں کیا ہوا؟
پاناما پیپرز لیکس کو افشا شدہ دستاویزات کی تاریخ میں سنگِ میل قرار دیا جا سکتا ہے، جس کی وجہ سے دنیا کے کئی حصوں میں ہلچل مچ گئی۔دنیا کی سب سے زیادہ خفیہ کمپینیوں میں شمار کی جانے والی پاناما کی کمپنی موسیک فونسیکا کی ایک کروڑ سے زائد دستاویزات کو افشا کر دیا گیا تھا۔ ان تفصیلات سے ظاہر ہوا کہ آف شور کمپنیوں کا کاروبار کس طرح چلتا ہے اور دنیا بھر کے سرمایہ کار کس طرح ٹیکس فری کاروبار کیلیے اپنا سرمایہ پاناما لے جانے کیلیے منی لانڈرنگ کرتے ہیں اور اپنے ملکوں میں ٹیکس ادائیگی کی بجائے ٹیکس چور بن جاتے ہیں ،المیہ یہ ہے کہ اس کاروبار میں میں کئی ممالک کے سربراہان اور وزرا بھی چوری چھپے شامل تھے جواپنے ملک کے عوام سے ٹیکس وصول کرنے کے لیے نت نئے طریقے اختیار کرتے ہیں۔
پاناما پیپرزسامنے آنے کا فوری نتیجہ کیا تھا؟اس کا پہلا شکار آئس لینڈ کے وزیراعظم سگمینڈر ڈیوڈ گیونلاﺅگسن بنے۔
پاناما لیکس سے معلوم ہوا تھا کہ سگمینڈر ڈیوڈ گیونلاﺅگسن اور ان کی اہلیہ ایک آف شور کمپنی کے مالک ہیں جن کے بارے میں انھوں نے پارلیمان میں داخل ہونے سے قبل نہیں بتایا تھا۔
روسی صدر ولادی میر پوتن اور پاکستانی وزیراعظم نواز شریف شامل ہیں جنھوں نے لیکس اور منی لانڈرنگ سے متعلق الزامات کو رد کیا ہے۔
برطانیہ میں اس وقت کے وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کو سیاسی خفت کا سامنا کرنا پڑا جنھوں نے تسلیم کیا کہ ان کے والد کی جانب سے قائم ایک قانونی آف شور کمپنی سے ان کا خاندان مستفید ہوا تھا۔شام کے حکمراں بشارالاسد اور انکے خاندان کے کئی افراد بھی پاناما میں شیل کمپنیوں کے مالک ہیں۔جرمن بینک اور وزیر بھی اس معاملے میں پکڑمیں آئے ۔علاوہ ازیں بہت سے عالمی سزایافتہ مجرم بھی اس سے مستفید ہوتے رہے ہیں۔امریکہ سمیت متعدد یورپی اور ایشیائی ممالک نے لیک میں شامل اپنے شہریوں کے بارے میں تحقیقات کا آغاز کیا کہ آیا وہ قانون کی خلاف ورزی کے مرتکب تو نہیں ہوئے۔
اس سب کے باوجود موسیک فونسیکا پر کسی غیرقانونی کام میں ملوث ہونے کا مقدمہ درج نہیں ہوا۔
راز افشا کرنے والے صحافی اوبرمائر کہتے ہیں کہ ان لیکس کے اشاعت سے کچھ بنیادی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔
بہت کچھ تبدیل ہوا، جرمنی میں ہمارے وزیر خزانہ نے ایک نیا ‘پاناما قانون’ متعارف کروایا (جس میں شہریوں کے لیے شیل کمپنیوں کے بارے میں بتانا لازمی قرار دیا گیا) اور پاناما خود بھی تبدیلی کی جانب بڑھ رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کچھ ممالک نے مستفید ہونے والے مالکان کو رجسٹر کرنے کا اعلان کیا ہے اور دیگر ممالک میں بھی اس بارے میں پہلی بار بات ہورہی ہے۔
پاناما پیپرز کی نشر و اشاعت کے آٹھ ماہ بعدایک انٹرویو میں اوبرمائر نے میڈیا کو بتایاکہ ہم نے انٹرنیشنل کنسورشیم فار انویسٹیگیٹیو جرنلسٹس کے ساتھ اس کا فالو اپ کیا ہے۔انھوں نے بتایاکہ ہمیں معلوم ہوا کہ دنیا بھر میں 79 ممالک میں تحقیقات کی جارہی ہیں، 6500 ٹیکس دہندگان اور کمپنیوں کی عالمی سطح پر تفتیش کی جارہی ہے اور موسیک فونسیکا نے اپنے نو دفاتر بند کر دیے ہیں۔ انھوں نے پاناما میں اپنے مرکزی دفتر کے باہر سے سائن بورڈز بھی ہٹا دیے ہیں۔
اوبرمائیر کا کہنا تھا کہ پاناما پیپرز سے ظاہر ہوتا ہے کہ کیسے آف شور کمپنیاں دہشت گردی کی مالی امداد کے لیے استعمال ہو سکتی ہیں۔وہ تسلیم کرتے ہیں کہ اس لیک سے ظاہر ہوتا ہے کہ آف شور کمپنیاں صرف امیر لوگوں کے لیے ٹیکس بچانے کا ذریعہ ہی نہیں ہیں۔ وہ کہتے ہیں پاناما پیپرز سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کمپنیوں کے ذریعے مجرمانہ سرگرمیوں کو چھپانے کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔وہ کہتے ہیںکہ میں اس بات پر حیران نہیں تھا کہ امیر لوگ ٹیکسوں سے بچنے کے لیے آف شور کا استعمال کرتے ہیں۔ میں اس بات پر حیران تھا کہ اس میں بہت زیادہ جرائم پیشہ لوگ شامل ہیں۔ میرے خیال میں آف شور کمپنیوں کی بڑی تعداد اس لیے استعمال کی گئی ہے کہ وہ لوگ کچھ چھپانا چاہتے تھے۔ان کا کہنا ہے کہ لیکن اس کے باوجود، ٹیکس سے بچنے والوں کی مدد کرنے والا کاروبار ابھی بھی نہیں بدلا اور ایسے ہی چل رہا ہے، ان کا اثرو رسوخ ہے، طاقت ہے، لابی گروپس ہیں۔ ہم آف شور کا خاتمہ نہیں دیکھتے لیکن ان کو سکڑتا ہوا ضرور دیکھ رہے ہیں۔
٭….٭….٭
پاناما کیس:سپریم کورٹ میں کب کیا ہوا ؟
پاکستان میں تقریباً ایک برس قبل پاناما لیکس میں وزیراعظم نواز شریف کے بچوں کے نام سامنے آئے اور اس وقت سے یہ معاملہ ملک کے سیاسی منظر نامے میں چھایا رہا۔پاناما لیکس پر حزب اختلاف کی جانب سے وزیراعظم نواز شریف سے مستعفی ہونے کا مطالبہ سامنے آیا لیکن انھوں نے اس مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے اس معاملے کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن بنانے کا اعلان کیا تاہم سپریم کورٹ نے اس وقت اس سے معذرت کر لی اور بعد میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان تحقیقاتی کمیشن کے ضوابطِ کار (ToR)کی تشکیل کے لیے بھی طویل نشستیں ہوئیں لیکن کوئی حل نہ نکل سکا۔
ضوابطِ کار کا معاملہ کسی نتیجے پر نہ پہنچنے پر حزب اختلاف کی دوسری بڑی جماعت تحریک انصاف سڑکوں پر نکل آئی اور2نومبر2016 کو اسلام آباد کو بند کرنے کا کال سے پہلے پکڑ دھکڑ اور پرتشدد جھڑپوں کے دوران یکم نومبر کو سپریم کورٹ کے لارجر بینچ نے پاناما لیکس کے تحقیقات کے لیے تحقیقاتی کمیشن تشکیل دینے پر اتفاق کر لیا۔
ضوابطِ کار اور کمیشن کا فیصلہ
تین نومبر کو پاناما لیکس میں سامنے آنے والے الزامات کی باقاعدہ سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ تحقیقاتی کمیشن کا کسی جماعت کے ضوابطِ کار پر متفق ہونا ضروری نہیں جبکہ آئندہ سماعت میں یہ واضح کر دیا کہ ان فی الحال ان کی ترجیح وزیر اعظم کے خلاف الزامات کو ہی دیکھنا اور متعلقہ شواہد کا جائزہ لینے کے بعد ہی عدالت یہ فیصلہ کرے گی کہ اس معاملے کی تحقیقات کے لیے کمیشن تشکیل دیا جائے یا نہیں۔
نومبر میں ہونے والی ابتدائی سماعتوں میں ایک بار جب بینچ نے وزیراعظم کے وکیل سلمان بٹ سے پوچھا کہ ان کے موکل کے عدالت میں جمع کرائے گئے جواب میں متعلقہ دستاویزات جمع نہیں کرائی گئیں تو انھوں نے کہا کہ مجوزہ کمیشن میں تمام دستاویزات فراہم کرائی جا سکتی ہیں۔ اس پر جسٹس آصف نے ریمارکس میں کہا کہ اگر آپ خدانخواستہ ایسا نہیں کر سکے تو مشکل میں پھنس سکتے ہیں، اس کا مطلب ہے آپ کچھ چھپا رہے ہیں۔
قطری شہزادے کی انٹری
15 نومبر کو سماعت نے ایک نیا موڑ لیا جس میں وزیر اعظم کے بچوں کے وکیل اکرم شیخ نے قطر کے شاہی خاندان کے رکن احمد جاسم کی جانب سے پانچ نومبر کو تحریر کردہ ایک خط عدالت میں پیش کیا جس کے مطابق شریف خاندان نے 1980 میں الثانی گروپ میں ریئل اسٹیٹ میں جو سرمایہ کاری کی تھی بعد میں اس سے لندن میں چار فلیٹ خریدے گئے تھے۔
ججوں نے اس پر سوال اٹھانا شروع کر دیے کہ آیا قطر کی یہ شخصیت بطور گواہ عدالت میں پیش ہو سکے گی؟ اس کے علاوہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے خط پڑھتے ہی پوچھا کہ ‘اس میں تو ساری سنی سنائی باتیں ہیں۔ اس کے علاوہ آپ کے پاس کیا کچھ نہیں؟ آپ کا منی ٹریل کہاں ہے؟’
تحریک انصاف کے دستاویزات پر عدالت کی ناپسندیدگی
ایک جانب تو وزیراعظم کے خاندان کی جانب سے عدالت میں قطری شیخ کا خط سامنے آیا تو دوسری جانب تحریک انصاف کی جانب سے سینکڑوں دستاویزات عدالت میں جمع کرائی گئیں جس پر عدالت نے ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اخبار کے تراشے شواہد نہیں ہوتے۔
بارِ ثبوت تحریک انصاف پر نہیں وزیراعظم پر
سماعت کے دوران تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے یہ بیان بھی دیا کہ پاناما لیکس کے مقدمے میں سپریم کورٹ جو فیصلہ کرے گی وہ اسے قبول کریں گے لیکن اس کے ساتھ یہ بھی کہہ دیا کہ عدالت میں ثبوت پیش کرنا ان کا کام نہیں بلکہ ثبوت تو نواز شریف نے پیش کرنے ہیں۔اس بیان کو حکومتی حلقوں نے خوب اچھالا اور کہا ‘ہم پہلے دن سے کہہ رہے ہیں کہ عمران خان کا کام صرف بے بنیاد الزامات لگانا ہے۔’
اسی وجہ سے ممکنہ طور پر 30 نومبر کی سماعت میں تحریکِ انصاف کے وکیل نعیم بخاری نے عدالت کے سامنے مریم نواز اور حسن نواز کے ٹی وی انٹرویوز کا حوالہ پیش کیا تو جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ اخباری تراشوں کو لا کر سونے میں کھوٹ کیوں ڈال رہے ہیں؟ کچی دیواروں پر پیرنہ جمائیں۔
وزیر اعظم نے سچ نہیں بولا ۔۔آرٹیکل 62/63
نومبر کی آخری سماعت میں ایک نیا پہلو سامنے آیا جب سپریم کورٹ کے ججوں نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ تحریری جواب اور وزیراعظم کی قومی اسمبلی میں تقاریر میں تضاد ہے جبکہ اگلی سماعت میں عدالت نے وزیراعظم پر الزامات کا تعین کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم نے اپنی تقریروں کے دوران سچ سے کام نہیں لیا لہٰذا وہ آئین کے آرٹیکل 62/63 کی زد میں آسکتے ہیں۔
عدالت کا کہنا تھا کہ اس معاملے میں وضاحت ضروری ہے۔
عمران خان کا کمیشن کی تجویز قبول کرنے سے انکار
اگلے ہی دن وزیرِ اعظم نواز شریف کے وکیل سلمان اسلم بٹ نے عدالت کی جانب سے اٹھائے گئِے سوالات کے جوابات دیے جبکہ سماعت میں عدالت نے تحریک انصاف کی استدعا پر تحقیقاتی کمیشن کی تشکیل پر مشاورت کے لیے وقت دیتے ہوئے سماعت نو دسمبر تک ملتوی کر دی۔لیکن عمران خان نے کمیشن کی تشکیل کی تجویز کو مسترد کرنے کا اعلان کر دیا۔بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ پاناما لیکس میں دی گئی دستاویزات اتنی زیادہ ہیں کہ انھیں پڑھنے اور رائے قائم کرنے میں وقت لگے گا۔عدالت کے مطابق فریقین نے 26000 کے قریب دستاویزات جمع کروائی ہیں اور اگر ان کو قانون شہادت کے تحت دیکھیں تو ان میں سے 99 اعشاریہ نو فیصد ردی کی ٹوکری کے لیے ہیں۔
چیف جسٹس کی مدت ختم ،پہلا راﺅنڈ بے نتیجہ
تحریک انصاف کے اس جواب پر چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے دسمبر میں درخواستوں کی سماعت جنوری 2017 کے پہلے ہفتے تک ملتوی کرتے ہوئے کہا کہ مقدمے کی سماعت کے لیے نیا بینچ تشکیل دیا جائے گا کیونکہ 31 دسمبر کو ا±ن کی مدتِ ملازمت مکمل ہو رہی ہے۔چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ پاناما لیکس کے مقدمات کی اب تک کی سماعت کو ‘سنا ہوا مقدمہ’ تصور نہ کیا جائے۔
نیا سال، نیا بینچ اور نئے وکیل
یکم جنوری کو پاناما لیکس کا معاملہ نئے سال میں داخل ہوا اور سپریم کورٹ کے نئے چیف جسٹس ثاقب نثار نے کیس کی سماعت کے لیے سینیئر جج آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ تشکیل دے دیا۔ کیس کی ازسرنو سماعت سے ایک دن پہلے شریف خاندان نے اپنے وکلا بھی تبدیل کر دیے۔چار جنوری کو سپریم کورٹ کے اندر سماعت اور باہر دوبارہ میلا سجا،نئے بینچ نے سماعت کے پہلے دن یہ فیصلہ سنایا کہ اب مقدمے کو روزانہ کی بنیاد پر سنا جائے گا۔
وزیراعظم کا استثنیٰ
16جنوری کی سماعت میں عدالت نے سوال اٹھایا کہ کہ قومی اسمبلی میں تقریر میں وزیر اعظم نے کوئی غلط بیانی نہیں کی تو پھر وہ اس بارے میں استثنیٰ کیوں مانگ رہے ہیں تاہم ایک دن کے بعد عدالت نے کہہ ہی دیا کہ وزیر اعظم کو وہ استثنی حاصل نہیں ہے جو آئین کے آرٹیکل 248 کے تحت صدر مملکت اور گورنر کو حاصل ہے۔
حسین نواز کے تحفے اور کاروبار
استتثیٰ کے معاملے کے بعد وزیراعظم کے وکیل کی جانب سے 18 جنوری کو عدالت کو بتایا گیا کہ کہ وزیر اعظم کے بیٹے حسین نواز نے چار سال کے دوران اپنے والد کو 52 کروڑ روپے بھجوائے ہیں۔ اس بات کو بھی حزب اختلاف نے خوب اچھالا جبکہ عدالت میں جسٹس عظمت سعید کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم نے کبھی حسین نواز سے پوچھا ہے کہ وہ بیرون ممالک کرتے کیا ہیں اور کونسا کاروبار کرتے ہیں جس میں اتنا منافع ہو رہا ہے۔
عدالت وزیراعظم کو طلب کر سکتی ہے
دو دن کی سماعت کے بعد بات دوبارہ وزیراعظم کی قومی اسمبلی میں کی گئی تقریر پر ہوئی جس پر عدالت عظمی نے سوال ا±ٹھایا کہ کیا ذاتی الزامات کا جواب دینے کے لیے اسمبلی کا فورم استعمال کیا جاسکتا ہے جس پر جماعت اسلامی کے وکیل نے کہا کہ پارلیمانی استثنیٰ صرف قانون سازی کو حاصل ہوتا ہے جبکہ ذاتی وضاحت کے لیے پارلیمان کو استعمال نہیں کیا جا سکتا۔
جماعت اسلامی کے وکیل نے ہی دلائل دیتے ہوئے کہا کہ کہ اگر عدالت کو اس بارے میں مزید شواہد یا کسی سوال کی وضاحت چاہیے تو عدالت وزیر اعظم کو طلب کرسکتی ہے۔ اس پر بینچ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ضرورت پڑنے پر وزیر اعظم کو عدالت میں طلب کیا جا سکتا ہے ورنہ نہیں۔
قطری شہزادے کا ایک اور خط
26 جنوری کی سماعت میں ایک پھر وزیر اعظم کے صاحبزادے حسین نواز کے وکیل کی جانب سے قطری شہزادے کا ایک نیا خط سامنے آیا جس میں شیخ حماد بن جاسم بن جابر الثانی نے کہا کہ وزیر اعظم کے والد میاں شریف نے 1980 میں قطر میں ایک کروڑ بیس لاکھ قطری ریال کی سرمایہ کاری کی تھی۔
عدالت نے آئندہ سماعت میں قومی احتساب بیورو سے اس اجلاس کی کارروائی کی تفصیلات مانگ لیں جس میں حدیبیہ پیپرز ملز کے مقدمے میں ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔تاہم سماعت کے بعد اسحٰق ڈار نے وضاحت جاری کی کہ نواز شریف کے مالی معاملات کے بارے میں ان سے بیان دباو¿ کے تحت لیا گیا تھا۔
اس سماعت کے دوران بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اپنے ریمارکس میںکہاتھا کہ ‘وزیر اعظم نے خود کہا تھا کہ ا±ن کی زندگی ایک کھلی کتاب ہے لیکن اس کتاب کے کچھ صفحے مسنگ ہیں۔’
جج بیماری سے واپس
فروری کے آغاز میں مقدمے کی سماعت بینچ کے رکن جسٹس عظمت سعید کی طبعیت اچانک ناساز ہونے پر دو ہفتے تک ملتوی رہی اور 15 فروری سے یہ مقدمہ دوبارہ سنا گیا اور موضوعِ بحث حدیبیہ پیپرز مل سے متعلق معلومات ہی رہیں۔
21 فروری کی سماعت میں نیب کے سربراہ نے کہا ہے کہ وہ حدیبیہ پیپرز ملز کے مقدمے میں ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر نہ کرنے کے فیصلے پر قائم ہیں جبکہ بینچ کے سربراہ نے دورانِ سماعت اس امید کا اظہار کیا کہ اگلے دو روز میں ان درخواستوں کی سماعت مکمل ہو جائے گی۔
سماعت مکمل
23فروری کو سماعت مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیاگیا اور عدالت نے کہا کہ اس کیس میں مختصر فیصلہ نہیں سنایا جاسکتا۔ایسا فیصلہ دیں گے کہ 20سال تک یاد رکھا جائے گا۔
٭….٭….٭
پاناما ۔۔۔لیکس۔۔۔۔موسیک فونسیکا؟؟
بیسٹین اوبرمائر اور فریڈرک اوبرمائر وہ دوجرمن صحافی تھے جو ان لیکس کے ذمہ دار تھے۔ 2014 کی ایک شب اوبرمائر اپنے بیمار بچوں کی دیکھ بھال کر رہے تھے جب انھیں ایک پیغام موصول ہواجس میں پوچھا گیا تھا: ‘ڈیٹا میں دلچسپی ہے؟’
بعد میں پتہ چلا کہ یہ ڈیٹا دراصل جنوبی امریکی ملک پاناما کی لا فرم موسیک فونسیکا اور شیل کمپنیوں کا ہے جو امیر لوگوں کوٹیکس سے بچت کی سہولیات کے لیے بنائی گئی تھیں۔ ”وسل بلوئرز“ یعنی خفیہ اطلاع دینے والوں نے اپنی شناخت جان ڈو کے نام سے کروائی اور ان کی اصل شناخت تاحال راز ہے۔
ان صحافیوں کو روزانہ کی بنیاد پر سینکڑوں فائلیں ملنا شروع ہوئیں اور جلد ہی ان کے پاس آف شور کمپنیوں کے بارے میں لاکھوں فائلیں جمع ہو گئیں۔ اس میں انھوں نے صحافیوں کے بین الاقوامی نیٹ ورک اور دنیا بھر سے رپورٹروں کی ٹیم کو شامل کیا۔اس طرح انٹرنیشنل کنسورشیم فار انویسٹیگیٹیو جرنلسٹس نے ان پیپرز پر تحقیق کے بعد اسے دنیا بھر کے اخبارات و ٹی وی چینلز کے ذریعے افشا کیا۔