مشال قتل کیس‘ بلی تھیلے سے باہر آگئی
شیئر کریں
پاکستان کی قومی اسمبلی نے صوبہ خیبرپختونخواکے ضلع مردان میں توہینِ مذہب کے الزام پر عبدالولی خان یونیورسٹی کے طالبعلم مشال خان کے قتل کی شدید مذمت کرتے ہوئے وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے ذمہ داروں کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔شعبہ صحافت کے طالبعلم مشال خان کو 13 اپریل کو مشتعل طلبا اور دیگر افراد نے توہینِ رسالت کا الزام لگانے کے بعد یونیورسٹی کے ہوسٹل میں تشدد کر کے قتل کر دیا تھا۔سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی جانب سے اس قتل کا از خود نوٹس لیے جانے کے بعد خیبر پختونخوا کی پولیس نے اس قتل کے حوالے سے اب تک ہونے والی تفتیش کی رپورٹ بھی منگل کو عدالتِ عظمیٰ میں جمع کرا دی ہے۔مشال خان کے قتل کے خلاف متفقہ طور پر منظور کی جانے والی قرارداد منگل کو اجلاس کے دوران وفاقی وزیر رانا تنویر نے پیش کی۔قرارداد میں کہا گیا ہے کہ ایوان مشال خان کے وحشیانہ اور سفاکی سے کیے گئے قتل کی متفقہ طور پر مذمت کرتا ہے اور پُرعزم ہے کہ توہینِ رسالت کے قانون میں ایسی ٹھوس شقوں کی شمولیت یقینی بنائے جائے گی تاکہ مستقبل میں اس کا غلط استعمال کرتے ہوئے ایسے واقعات پھر رونما نہ ہوں۔قرارداد میں ایسے تمام افراد کی مذمت کی گئی ہے جو قانون ہاتھ میں لیتے ہیں جس کا نتیجہ معصوم انسانی جانوں کے زیاں کی صورت میں نکلتا ہے۔اس قرارداد میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے بھی کہا گیا ہے کہ وہ مشال خان کے قتل کے معاملے میں ذمہ داروں اور ان کے سہولت کاروں، بشمول منافرت انگیز بیان بازی کرنے والوں کے خلاف قانون کے مطابق سخت ترین کارروائی کریں ۔ قرارداد پر بحث کرتے ہوئے قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ اس معاملے پر کوئی بھی وزیر ایوان میں آ کر بیان دینے کو تیار نہیں ہے۔ انہوں نے بجاطورپر حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ایسے اقدامات کو روکنا تو دور کی بات ہے ،اس بارے میں وزیر اعظم اور نہ ہی متعلقہ وزیر بولنے کو تیار ہیں۔حزب مخالف کی جماعت متحدہ قومی موومنٹ کے رکن اسمبلی ساجد احمد نے اس موقع پر ارکان پارلیمان کی توجہ اس جانب مبذول کرانے کی کوشش کی یہ صرف ایک طالب علم کے قتل کاجذباتی واقعہ نہیں ہے بلکہ اس کے دور رس اثرات پر نظر رکھی جانی چاہیے ،ساجد احمد نے بجاطورپر اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ جب بھی ملک کا امیج بہتر ہوتا ہے ایسا کوئی افسوس ناک واقعہ ہو جاتا ہے۔ ساجد احمد نے اس بات کی نشاندہی کرکے دراصل ارکان پارلیمنٹ کو اس واقعے کے گہرے اثرات اور اس کی پشت پر کارفرما ملک دشمن ایجنڈے کو سمجھنے کی دعوت دی ہے ، ساجد احمد نے بجا طورپر یہ نشاندہی کی ہے کہ مشال خان کا قتل کسی جذباتی اثر ات کانتیجہ نہیں تھا بلکہ اس کے تانے بانے کہیں اور ملتے ہیں جن کو سمجھنے اور تلاش کرنے کی ضرورت ہے جیسا کہ گزشتہ روز ہم نے ان کالموں میں خدشہ ظاہر کیاتھا کہ اس قتل کے محرکات اور مقصد کچھ اور ہےں، یہ سب کچھ کیا دھرا ان دین دشمن اور ملک دشمن عناصر کا ہے جنہیں پاکستان میں کوئی بھی اسلامی قانون کسی صورت بھی پسند نہیں ہے ۔یہ عناصر توہین رسالت کا قانون نافذ کیے جانے کے فوری بعد سے اس قانون کے خلاف کسی نہ کسی طورپر نبرد آزما رہے ہیںاور ہمیشہ اس طرح کے کسی بھی واقعے کو اس طرح بڑھا چڑھا کر اور اس کو اس قانون کا سبب قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں جس کے ذریعے عوام کے جذبات کو مشتعل کرکے اس قانون کو ختم کیا جاسکے یا اس میں ایسی ترمیم کرائی جاسکے جس سے اس قانون کی افادیت ہی ختم ہوکر رہ جائے ۔
مشال خاں کاقتل بلاشبہ انتہائی سفاکانہ ،بہیمانہ اور قابل نفرت اور مذمت واقعہ تھا اس طرح کے واقعے کی کوئی بھی نہ صرف یہ کہ حمایت نہیں کرسکتا بلکہ اس میں ملوث افراد کے ساتھ کسی بھی طرح کی ہمدردی کا اظہار بھی نہیں کرسکتا، مشال خان کو جس بہیمانہ اور بیدردانہ انداز میں قتل کیاگیا اس کاکسی طرح کاکوئی جواز پیش نہیں کیاجاسکتا، لیکن جو لوگ قتل کے اس واقعے بلکہ سانحہ کو توہین رسالت کے قانون سے جوڑنے کی کوشش کررہے ہیں ان سے یہ سوال ضرور کیا جاسکتاہے کہ اس قانون کا اس قتل سے کیاتعلق ہے کیا اس قانون کے تحت کسی کو بھی کسی ثبوت کے بغیر محض الزام عاید کرکے سنگسار کرنے کی اجازت دی گئی ہے یا کیا اس قانون کے تحت توہین رسالت کے مرتکب کسی فرد کو ہلاک کرنے کی اجازت دی گئی ہے یا اس قانون کے تحت قتل کے جرم کے مرتکب ملزمان کوکوئی رعایت دی جائے گی۔ظاہر ہے کہ ایسا نہیں ہے پھر اس سانحہ کاتعلق توہین رسالت کے قانون سے جوڑنے کاکیاجواز ہے اور اس بات کی کیاضمانت ہے کہ اس قانون میں تبدیلی یاترمیم کے بعد ایسے واقعات رونما نہیں ہوں گے۔
جہاں تک اس سانحہ کاتعلق ہے تو اس کابغور جائزہ لیااور اس واقعے میں ملوث افراد میں سے کسی بھی فرد کاتعلق کسی مذہبی جماعت سے نہیں تھا ، ان میں کوئی بھی کسی مدرسے کاطالب علم نہیں تھا بلکہ اس قتل میں ملوث اب تک سامنے آنے والے تمام کردار وں کا تعلق اس حلقے سے ہے جو خود کولبرل کہلانے میں شرم محسوس نہیں کرتابلکہ لبرل ہونے کو اپنے لیے باعث فخر سمجھتے ہیں، اس لیے یہ کہنا یا یہ مطالبہ کرناکہ اس طرح کے سانحات کے سدباب کے لیے توہین رسالت کے قانون میں ترمیم وتبدیلی کی ضرورت ہے کس طرح درست ہوسکتاہے،اس سانحے کی بنیاد پر یہ کہنا کہ ’دہشت گردی کا مائنڈ سیٹ مدارس سے یونیورسٹیز تک پہنچ چکا ہے اور پڑھا لکھا شخص زیادہ عقلمندی سے کارروائی کرتا ہے بھی درست نہیں ہے، کسی کے جذبات کو ابھار کر اپنے مقاصد حاصل کرنے اور اپنے مذموم کرتوتوں کو مذہب کے لبادے میں چھپانے کی سازش کو کسی بھی دہشت گردی کا مائنڈ سیٹ قرار نہیں دیاجاسکتا ہے ، اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ گزشتہ چند برسوں کے دوران پاکستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں انتہا پسندانہ جذبات میں اضافہ ہوا ہے کہیں یہ جذبات ہندوتوا کے روپ میں سامنے آئے ہیں کہیں ، صہیونیت مخالف جذبات کی صورت میں سامنے آئے اور کہیں ان جذبات کو اسلام کا رنگ دے کر استعمال کرنے کی کوشش کی گئی ہے ،گزشتہ دنوں مصر ، الجزائر اور سوڈان میں بھی اس طرح کے واقعات سامنے آئے ہیں ،ظاہر ہے کہ ان ممالک میں پاکستان جیسا توہین مذہب کاکوئی قانون موجود نہیں ہے اگر اس طرح کے واقعات توہین رسالت کے قانون کی وجہ سے ہورہے ہوتے تو پھر مصر ،الجزائر اور سوڈان جیسے ممالک میں اس طرح مذہب کی بنیاد پر قتل کے واقعات رونما نہ ہوتے۔ ہمیں اس حقیقت کوتسلیم کرناہوگا کہ پوری دنیا میں اسلام اور اس کے پیروکار مسلمانوں کو بدنام کرنے کی ایک منظم مہم چلائی جارہی ہے اور بدقسمتی سے ہمارے بعض اپنے دینی بھائی مذہب کو بدنام کرنے کی مہم میں پیش پیش ان مذہب دشمنوں کے آلہ¿ کار بن جاتے ہیں۔
مشال خان کے قتل کے واقعے کوبنیا د بناکر توہین رسالت کے قانون میں ترمیم وتبدیلی کاعندیہ ظاہر کیے جانے کے بعد دراصل بلی تھیلے سے باہر آگئی ہے اور مذہب دشمن عناصر کے مذموم مقاصد عیاں ہوگئے ہیں، اب یہ کام ارکان اسمبلی اور اسمبلی کے اندر اور باہر موجود مذہبی جماعتوں کے رہنماﺅں کا ہے کہ وہ مذہب دشمن عناصر کی جانب سے توہین رسالت قانون کا حلیہ بگاڑنے کی کوششوں کے سامنے ڈٹ جائیں اور ایسی تمام کوششوں کوناکام بنادیں۔