اندرا گاندھی ، گولڈا میئر اور بے نظیر
شیئر کریں
زریںاختر
(گزشتہ سے پیوستہ)
مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہاہے کہ جیسی گہرائی و گیرائی اندرا کے انٹرویو میں تھی ،اوریانا کو ذوالفقار علی بھٹو کا دیا گیا انٹرویو اس کے بالکل برعکس تھاجس کے لیے بھٹو نے اوریانا کوخود بلا بھیجا تاکہ اندرا گاندھی کے انٹرویو کا جواب دیا جاسکے اور یہ انٹرویو بھٹو کے لیے سبکی سے بڑھ کر ہزیمت باعث بنا ۔ میرے لیے اندرا جی کی وہ باتیں ختم ہی نہیں ہورہیں جو انہوں نے کہیں اور جو میںلکھنا نہ چاہوں۔
اوریانا: مسز گاندھی ،کیا آپ اس الزام سے آگاہ ہیں کہ یہ آپ ہندوستانی تھے جنہوں نے جنگ کو ہوا دی اور پہلے حملہ کیا۔اس حوالے سے آپ کیاکہتی ہیں؟
اندرا: میں اس کا جواب اس اعتراف کے ساتھ دوں گی کہ اگر تم ماضی میں جاکر دیکھنا چاہتی ہو تو بالکل ہم نے مکتی باہنی کی مدد کی تھی ،اور اگر تم سمجھتی ہو کہ اس سب کی شروعات اس مدد اور اس وقت سے ہوئی ہے تو ہاںہم ہی تھے جنہوں نے اسے شروع کیاتھا۔ لیکن دوسرا کام ہم نے نہیں کیاتھا۔ہم ایک کروڑ مہاجرین کو اپنی زمین تک لے کر نہیں آئے تھے،ہم خود کو اس پیچیدہ صورت حال میں دھکیلنا نہیں چاہتے تھے جس کے بارے میں کوئی نہیں کہہ سکتاتھاکہ یہ کب تک چلتی رہے گی۔ بلکہ مہاجرین کا یہ جم غفیر کسی طرح بھی سنبھالنا مشکل تھا۔ یہ اسی طرح چلتا رہناتھا ،چلتارہناتھا،چلتارہناتھا جب تک کہ دھماکہ نہ ہوجائے ۔ ہم مزید ان لوگوں کی آمد کے متحمل نہیں ہوسکتے تھے اسی لیے ہمیں اپنے مفادات کے مدّ ِ نظر انہیں روکنا پڑا،یہی و ہ بات ہے جو میں مسٹر نکسن سے کہی اور دوسرے رہنمائوں سے بھی جنہیں میں جنگ ختم کرنے کے غرض سے ملی تھی۔ (اس کے بعد اندرا گاندھی نے پاکستان کی طرف سے فضائی حملے میں پہل کا ذکر کیا ،اوریانا نے بھی گفتگو اس پہل سے آگے نہیںبڑھائی )
اوریانا: مسز گاندھی آپ نے اپنے سفر کا ذکر کیا جو آپ نے یورپ اور امریکہ کی طرف جنگ کو روکنے کے غرض سے کیاتھا۔کیا آج آپ مکمل سچ بتا سکتی ہیں کہ اصل میں کیا ہوا تھا؟ نکسن کے ساتھ آپ کے معاملات کیسے رہے تھے؟
اندرا:حقیقت یہ ہے کہ میں نے واضح الفاظ میں نکسن سے بات کی تھی۔میں نے اسے بغیر الفاظ کے بھید بدل کے بتایاکہ ہم اپنے کندھوں پر ایک کروڑ مہاجرین کا بوجھ لے کر آگے نہیں بڑھ سکتے ۔ ہم ان بارود کے ڈھیر جیسے حالات میں نہیں رہ سکتے جن میں دھماکے کا خدشہ رہتا ہے۔ لیکن مسٹر نکسن نے نہیں سمجھا۔ حقیقت یہ ہے کہ جب دوسرے لوگ ایک بات کو سمجھتے ہیں تو اس وقت مسٹر نکسن کو کوئی دوسری بات سمجھ آتی ہے۔ مجھے خدشہ تھا کہ وہ پاکستان کا حامی تھا یا شاید میں جانتی تھی کہ امریکی ہمیشہ پاکستان کے طرف دار ہی رہے تھے اور ایسا اس لیے نہیں ہے کہ وہ پاکستان کے طرف دار ہیں بلکہ ایسا اس لیے ہے کیوں کہ وہ انڈیا کے خلاف ہیں۔
بہرحال ،کچھ عرصے سے مجھے ان کے تاثرات سے یوں لگا جیسے وہ بدل رہے ہیں،اس طرح نہیں کہ ان کی پاکستان طرف داری کم ہوئی ہے بلکہ ان کے رویے میں انڈیا کی مخالفت کم ہوئی ہے۔ لیکن میں غلط تھی ۔ نکسن سے ملاقات نے سوائے جنگ روکنے کے باقی سب کیااور اس بات سے مجھے فائدہ ہوا۔ مجھے اس سے یہ تجربہ حاصل ہوا کہ جب بھی لوگ آپ کے خلاف ہوتے ہیں تو قدرتی طور پر اس وقت کچھ نہ کچھ آپ کے حق میں ہوجاتاہے۔کم از کم آپ اس مخالفت کو اپنے حق میں استعمال کرسکتے ہیں۔ یہی زندگی کا قانون ہے ۔ اسے ناپ تول کر دیکھیں تو پھر آپ کو اندازہ ہوتاہے کہ یہ زندگی کے ہررویے اور ہر موڑ پر لاگو ہوتاہے۔ کیا تم جانتی ہو کہ میں پچھلے انتخابات کیوں جیت گئی؟ ایسا اس لیے ہوا کیوں کہ لوگ مجھے پسند کرتے تھے ہاں، کیوں کہ میں نے سخت محنت کی تھی ہاں، لیکن ایسا اس لیے بھی ہوا کیوں کہ مخالف جماعت نے میرے ساتھ برا رویہ اپنایا،اور کیا تم جانتی ہو کہ میں یہ جنگ کیوں جیتی ؟ کیوں کہ میری فوج اس کی قابلیت رکھتی تھی ہاں، لیکن اس لیے بھی کیوں کہ امریکہ پاکستان کی طرف تھا۔
اوریانا: میں سمجھی نہیں۔
اندرا: میں وضاحت کرتی ہوں۔ امریکہ ہمیشہ سوچتاہے کہ وہ پاکستان کی مدد کر رہاہے ۔ لیکن اگر یہ پاکستا ن کی مدد نہ کرتاہوتا تو پاکستان زیادہ مضبوط ملک ہوتا۔ آپ کسی ملک کی مدد اس کی فوج کے راستے نہیں کرسکتے کیوں کہ وہاں جمہوریت نام کو نہیں ہوتی ،اور جس بات نے پاکستان کو شکست سے دوچارکیا وہ اس کی فوجی حکومت تھی ۔ اس حکومت کو امریکیوں نے سہارا دے رکھاتھا۔ کبھی کبھار دوست بھی خطرناک ثابت ہوتے ہیں۔ ہمیں اس مدد کو بڑے محتاط طریقے سے لینا چاہیے جو ہمیں دوست فراہم کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔اگر امریکیوں نے کوئی گولی چلائی ہوتی ،اگر ساتو یں بیٹرے نے بے آف بنگال پر کھڑے رہنے کے علاوہ کوئی حرکت کی ہوتی تو تیسری جنگ عظیم پھوٹ سکتی تھی۔ لیکن ایمان داری سے کہتی ہوں مجھے اس بات کا کوئی خوف نہیں تھا۔ ۔۔۔۔جنگ ناگزیر ہوجاتی ہے جب کوئی کسی کو یا خود کو تحفظ فراہم کرنا چاہتاہے۔
جب انٹرویو اختتام پذیر ہوگیا تو اوریانا لکھتی ہے:”وہ میرے ہمراہ دفتر سے باہر آئی اور مجھے لے کر ٹیکسی تک آئی جو گلی میں کھڑی میرا انتظار کر رہی تھی ۔ راہ دارویوں میں چلتے ہوئے اور سیڑھیاں اترتے وقت اس نے مجھے مسلسل بازو سے یوں پکڑے رکھا کہ جیسے وہ مجھے ہمیشہ سے جانتی ہو اور وہ اِدھر اُدھر کی باتیں بھی کرتی رہی اور ساتھ ہی ساتھ وہ غیر حاضر دماغی کے سے تاثر کے ساتھ افسران کے سلاموں کاجواب بھی سر کے ہلکے سے اشارے سے دیتی رہی ۔ وہ اس دن تھکی سی نظر آرہی تھی اور پھر میں نے اچانک جذبات سے لبریز آوا ز میں کہا”مطمئن ہوجائو مجھے تم سے حسد نہیںہے اور میں تمہاری جگہ لینے کی کوئی خواہش نہیں رکھتی ہوں۔”اس نے جواباََ کہا”مسئلہ میرے ساتھ وابستہ مسائل میں نہیں ہے بلکہ مسئلہ میرے ارد گرد موجود بے وقوفوں میں ہے۔جمہوریت ، …تمہیں پتاہے…؟”
اوریانا مزید لکھتی ہے :”میں اب سوچ کر حیران ہوتی ہوں کہ اس نامکمل فقرے سے اس کی کیا مرادتھی ؟ میں خود سے سوال کرتی
ہوں کہ آیا تب بھی وہ اس نظام کے لیے سبکی محسوس کرتی تھی جب وہ اس کی نمائندگی کرتی تھی او ر جس نظام کو برسوں بعد اس نے تہہ و بالاکردیاتھا”۔
سب سے آخرمیں وہ دعا جو اندرا جی نے اوریانا کو دی ”میں تمہیں آسانیوں کی دعانہیں دیتی بلکہ میں تمہیں دعادیتی ہوں کہ تمہیں جیسی بھی مشکلات کا سامنا ہو ،تم ان پر قابو پا سکو۔”
یہ دعا کون دے سکتاتھا ماسوا ”اندرا دیوی ”۔
٭٭٭