کھلمـ’’خلع‘‘
شیئر کریں
دوستو،ایک خبر کے مطابق ملک میں 1970 میں طلاق کی شرح 13 فیصد تھی جو اب 60 فیصد تک پہنچ چکی ہے، جس کی وجہ میں مشترکہ خاندانی نظام سے بغاوت، رشتوں میں قربانی دینے کی کمی، سماجی اسٹیٹس میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی دوڑ اور مالی مسائل شامل ہیں۔کراچی میں خواتین کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے معروف خاتون وکیل کا کہنا تھا کہ ۔۔ گزشتہ برس صرف فیصل آباد میں 24 سو جوڑے شادی کے خوبصورت بندھن میں بندھے، جبکہ گھریلو ناچاقی کے سبب 27 سو طلاقیں ہوئیں، صرف کراچی کے ضلع شرقی میں گزشتہ دو ماہ کے دوران 508 خواتین نے خلع کے ذریعے علیحدگی اختیار کی، ہمارے معاشرے میں طلاق اور خلع کی شرح خطرناک حد تک پہنچ گئی ہے۔ خاتون وکیل کا مزید کہنا تھا کہ ملک میں طلاق اور خلع کی شرح میں اضافے کے سبب خاندانی نظام کمزور ہوتا جا رہا ہے، میاں بیوی جیسے نازک رشتے میں عدم برداشت تنازع کا سبب بنتا ہے جو بعد میں غصے کے نتیجے میں طلاق تک جا پہنچتا ہے، لیکن پوری زندگی پچھتاوے کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں گزشتہ چند برس میں اعلیٰ تعلیم یافتہ اور پڑھے لکھے طبقے میں طلاق و خلع کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے۔
کچھ عرصہ قبل اپنے ایک کالم میں ہم نے آپ کو بتایا تھا کہ۔۔لاہورشہرمیں 6ہزار 135 طلاق اور خلع کی درخواستیں التوا کا شکار ہیں،جن میں سے 3 ہزار 586 طلاق اور 2 ہزار 549 خلع کی ہیں۔ درخواستوں پر فیصلے نہ ہونے کی وجہ سے شہریوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔ راوی زون میں طلاق 401، خلع 359،شالامار زون طلاق 389، خلع 219،نشتر زون طلاق 515، خلع 370،گلبرگ زون طلاق 320، خلع 221،داتا گنج بخش زون طلاق 278، خلع 213،علامہ اقبال زون طلاق 629، خلع 580،واہگہ زون طلاق 233، خلع 187، سمن آباد زون طلاق 414، خلع 195،عزیز بھٹی زون طلاق 397اورخلع کے 225کیسز زیر التوا ہیں۔کمشنر ذوالفقار گھمن نے طلاق اور خلع کی درخواستوں پر فیصلوں کے اختیارات نچلی سطح پر منتقل کرنے کے لیے سمری ایڈیشنل چیف سیکرٹری لوکل گورنمنٹ کو بھجوائی جنہوں نے منظوری کے لیے سمری کیبنٹ کمیٹی کو بھجوا دی ۔۔ایک اور کالم میں ہم پہلے بتاچکے تھے کہ فیملی عدالتوں میں خواتین کے جلد فیصلہ حاصل کرنے کے لیے خلع کی بنیاد پر طلاق کے دعویٰ جات دائر کرنے کی شرح میں اضافہ ہونے لگا، صرف لاہور میں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج نے کیسوں کی تعداد زیادہ ہونے پر فیملی عدالتوں کی تعداد 15کر دی۔سول کورٹ میں فیملی کی پندرہ عدالتیں کام کررہی ہیں، جہاں پرخواتین کی طرف سے خلع کی بنیادپرطلاق کے دعوے دائر کرنے کی شرح میں ریکارڈاضافہ ہوگیاہے،ایک روزمیں تقریبا6سے 10دعوے دائر کیے جارہے ہیں،ان دعویٰ جات میں خواتین کاموقف ہے کہ خاوندتوجہ نہیں دیتے،خرچا مانگو توتشددکرتے ہیں وغیرہ۔ دوسری جانب فیملی عدالتوں سے ایک ہفتے میں 20خواتین کوطلاق کی ڈگریاں جاری کی گئی ہیں،حق مہر،جہیزواپسی کے دعووں کی تعدادزیادہ ہونے پر سیشن جج لاہورنے گارڈین کی 5عدالتوں کوبھی فیملی عدالت کا درجہ دے دیا،قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ عدالت سے طلاق لے کرخاتون کایونین کونسل جانالازمی ہے،جہاں سے 3ماہ بعدطلاق موثرہوتی ہے،خلع میں خاتون کو اداشدہ حق مہرچھوڑنالازمی ہے۔
میاں بیوی طلاق کے لیے عدالت جاتے ہیں، جج پوچھتا ہے کہ تم لوگوں کے تین بچے ہیں، انہیں کیسے تقسیم کروگے؟ میاں بیوی کو سوچ بچار کا وقت دیاجاتا ہے، دونوں کمرہ عدالت کے کونے میں سرجوڑ کر صلاح مشورے میں لگ جاتے ہیں ،کافی دیر بحث و مباحثے کے بعد اس فیصلے پر اتفاق پاجاتا ہے کہ وہ اگلے سال طلاق کے لیے آئیں گے ،ساتھ میں ایک اور بچے کے ساتھ۔۔۔ٹھہریئے، بات ابھی ختم نہیں ہوئی، ایک سال بعد ان کے ہاں جڑواں بچے جنم لیتے ہیں۔۔ایک شخص کی بیوی کو علم ہوا کہ اس کا شوہر دوسری شادی کا اردہ رکھتا ہے چنانچہ اس نے ایک دن بڑے اہتمام سے عشائیہ تیار کیا اور چار انڈے ابال کر ہر ایک کو الگ الگ رنگ سے رنگا اور شوہر کو پیش کردیا۔۔شوہر نے پہلے حیرانی سے رنگ برنگے انڈوں کو اور پھر استفہامیہ نظروں سے بیوی کی جانب دیکھا۔۔ بیوی نے کہا آپ کھائیں اور پھر بتائیں کہ آپ کو یہ رنگ برنگے انڈے کیسے لگے۔۔شوہر نے تین انڈے کھائے اور تعجب سے بولا کہ ان میں تو کوئی فرق نہیں سب کا یکساں ذائقہ ہے۔۔ رنگوں کا کیا فائدہ ؟؟بیوی چالاک لومڑی کی مانند مسکرائی اور گویا ہوئی ۔۔سرتاج! عورتیں بھی سب ایک جیسی ہی ہوتی ہیں بس رنگوں کا فرق ہوتا ہے۔۔شوہر بھی ڈیڑھ ہوشیار تھا،اس نے چوتھا انڈہ منہ میں ٹھونسااطمینان سے نگل کر ڈکار لی اور بولا۔۔ہاں سچ کہتی ہو رنگوں کا ہی فرق ہوتا ہے،لیکن کیا کریں کمبخت جب تک چاروں انڈے کھا نہ لیے جائیں پیٹ نہیں بھرتا۔۔۔
استاد نے اسٹوڈنٹ سے پوچھا کہ ناکام عشق اور مکمل عشق میں کیا فرق ہوتا ہے؟اسٹوڈنٹ نے جواب دیا۔۔ناکام عشق بہترین شاعری کرتا ہے، غزلیں اور گیت گاتا ہے، پہاڑوں میں گھومتا ہے۔ عمدہ تحاریر لکھتا ہے۔ دل میں اتر جانے والی موسیقی ترتیب دیتا ہے۔ ہمیشہ امر ہوجانے والی مصوری کرتا ہے۔ مکمّل عشق سبزی لاتا ہے، آفس سے واپس آتے ہوئے آلو، گوشت، انڈے وغیرہ لاتا ہے۔ لان کی سیل کے دوران بچوں کو سنبھالتا ہے۔ پیمپر خرید کر لاتا ہے۔ تیز بارش میں گھر سے نہاری لینے کے لیے نکلتا ہے۔ سسرال میں نظریں جھکا کر بیٹھتا ہے۔ ماں بہنوں سے زن مریدی کے طعنے سنتا۔ اور پھر گھر آ کر یہ بھی سنتا ہے کہ آپ کتنے بدل گئے ہیں۔ شادی سے پہلے کتنے اچھے تھے۔۔۔ایک روز رات کو بیٹھک لگی تھی اچانک ہم نے باباجی سے سوال کرلیا۔۔باباجی یہ بتائیں انسان بوڑھا کب کہلاتا ہے؟؟ باباجی نے ترچھی نظروں سے ہمیں دیکھا، کرتے کی فرنٹ پاکٹ سے ایک ٹوتھ پک نکالی، اس سے دانتوں میں پھنسی چھالیہ کونکالا،چھالیہ شاید کچھ موٹی تھی اور کافی ٹائم سے باباجی کے دانتوں میں پھنسی ہوئی تھی اس لیے انہوں نے اسے دوبارہ’’ مشق چپائی ‘‘ سے گریز کیا اور اسے زبان کی نوک پر لاکر زوردار انداز میں ۔۔پھووووووووو کیا، جس سے چھالیہ باباجی کے منہ سے نکل کر ڈرائنگ روم میں بچھے بھورے قالین میں کہیں رچ بس گئی، باباجی نے ٹوتھ پک پھر کرتے کی فرنٹ پاکٹ میں رکھی اور کہنے لگے۔۔انسان بوڑھا جب کہلاتا ہے جب بیوی کہے،میری سہیلی کو گھر چھوڑ آئیں، رات بہت ہوگئی ہے۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔اُس شخص کے سامنے کبھی فریاد نہ کیجیے جو آپ کو تکلیف پہنچائے، اُسے مسکرا کر اتنا کہنا ہی کافی ہے کہ تمہارا بہت شکریہ کہ تم نے مجھے اپنے سے بہتر آدمی کی تلاش کا موقع فراہم کیا۔۔ خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔