مسلمانوں کے زخموں پر نمک پاشی
شیئر کریں
معصوم مرادآبادی
ایسامحسوس ہوتا ہے کہ اب اس ملک میں مسلمانوں کواذیتیں دینا ایک مستقل پالیسی بن گئی ہے ۔ پہلے یہ کام فرقہ پرست اور فسطائی طاقتیں انجام دیتی تھیں ، لیکن جب سے ان طاقتوںکو سرکاری سرپرستی حاصل ہوئی ہے تب سے صورتحال بڑی حدتک تشویش ناک ہوگئی ہے ۔ حالانکہ اس ملک کا دستور ابھی تک سیکولر ہے اور ملک میں جمہوری نظام کی بات بھی کہی جاتی ہے ، لیکن عملی طورپر سب کچھ اکثریتی آبادی کی تشفی کے لیے کیا جارہا ہے ۔مسلمانوں کو یوں نظرانداز کیا جارہا ہے گویا وہ اس ملک کے اصل باشندے نہ ہوکر کوئی غیر ہوںجن کی جڑیں اکھاڑنا ملک کے مفاد میں ضروری خیال کرلیا گیا ہے ۔ آئے دن انھیں ذہنی اور جذباتی اذیتیں پہنچا کر ان کے اندر خوف وہراس پیدا کرنے کی کوششیں کی جارہی ہے تاکہ وہ اپنا بوریا بستر سمیٹنا شروع کردیں۔رام مندر کے افتتاح کے بعد تو فسطائی طاقتوں کے حوصلے اتنے بلند ہیں کہ وہ مسلمانوں کو حرف غلط کی طرح مٹانے پر آمادہ نظر آنے لگے ہیں۔حکومت کی بنیادی ذمہ داری تمام شہریوں کے اندر احساس تحفظ پیدا کرنا اور ان کے جان ومال کی حفاظت کرنا ہے ، لیکن اس کے برعکس حکومت ایسے عناصر کی حوصلہ افزائی کی پالیسی پر گامزن ہے جو مسلمانوں کو مسلسل خوفزدہ کر تی رہی ہیں۔ اس کا عملی ثبوت حال ہی میں اس وقت دیکھنے کو ملا جب ملک کا سب سے بڑا شہری اعزاز’بھارت رتن ‘ ان لوگوں کو دیا گیا جنھوں نے ملک میں زہریلی فضا ہی تیار نہیں کی بلکہ فرقہ وارانہ منافرت کو اس ملک کی مستقل پالیسی بنادیا۔
سبھی جانتے ہیں کہ ”بھارت رتن’ ہندوستان کا سب سے بڑا شہری اعزازہے ۔ اب تک یہ ان لوگوں کو دیا جاتا رہا ہے جنھوں نے ملک کی کوئی بڑی خدمت انجام دی ہو۔لیکن بی جے پی سرکار میںاس اعزازکے معنی بدل گئے ہیں۔اب یہ ایسے لوگوں کو بھی دیا جانے لگا ہے جو حکمراں جماعت کے سیاسی ایجنڈے کی تکمیل میں معاون بن رہے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ حال ہی میں جن لوگوں کو اس اعزاز سے نوازا ہے ، ان میں سے بیشتر کی قومی خدمات پر سوال کھڑے کئے جارہے ہیں۔ کیونکہ ان اعزازات کی تقسیم کے وقت صرف سیاسی فائدے کو ہیذہن میں رکھا گیا ہے ۔اس سال ‘بھارت رتن ‘ سے سرفراز کئے جانے والوں میں کرپوری ٹھاکر ، لال کرشن اڈوانی، ایم ایس سوامی ناتھن ، پی وی نرسمہاراو اور چرن سنگھ کے نام شامل ہیں۔نرسمہاراو کانگریس پارٹی کے دوسرے لیڈر ہیں جنھیں اس اعزاز سے نوازا گیا ہے ۔ اس سے پہلے سابق صدر جمہوریہ اور سینئر کانگریسی رہنما آنجہانی پرنب مکھرجی کو ‘بھارت رتن ‘ دیا گیا تھا۔ انھوں نے ‘بھارت رتن ‘حاصل کرنے سے پہلے ناگپورجاکر آرایس ایس کے ہیڈ کوارٹر میں حاضری دی تھی ، جس سے یہ ثابت ہوا تھا کہ وہ کانگریس میں رہ کر آرایس ایس کے ایجنڈے کی تکمیل کرتے رہے تھے بالکل ایسے ہی جس طرح نرسمہاراو نے کی تھی۔اسی لیے آنجہانی وزیراعظم نرسمہاراو کو پس مرگ اس اعزاز سے نوازا گیا ہے ۔نرسمہاراو کا سب سے بڑا ‘کارنامہ’ یہ ہے کہ انھوں نے اپنے دور اقتدار میں بابری مسجد شہید کروائی ۔ موجودہ سرکار نے انھیں پس مرگ اسی کا انعام دیا ہے ۔ اسی طرح بابری مسجد کی شہادت کی راہ ہموار کرنے والے لال کرشن اڈوانی کو بھی انعام سے نوازاگیا ہے ۔ حالانکہ انھیں عرصے سے برف میں لگاکر رکھا گیا تھا ، لیکن اچانک انھیں ‘بھارت رتن’ دے کرنئی زندگی دی گئی ہے ۔
اگر آپ لال کرشن اڈوانی کی قومی خدمات پر نظر ڈالیں تو بڑی مایوس کن تصویر ابھرتی ہے ۔ قومی سطح پر ان کے نام ایسی کوئی حصولیابی درج نہیں ہے ، جس کی بناپر انھیں ملک کاسب سے بڑا شہری اعزازدیا جائے ۔سبھی جانتے ہیں کہ انھوں نے سومناتھ سے ایودھیا تک نکالی گئی رتھ یاترا کے دوران ملک میں غیرمعمولی فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا کی اور ملک کے دوبڑے فرقوں کو ایک دوسرے کے مقابل لاکھڑا کیا۔ اڈوانی کی رتھ یاترا کے دوران ملک میںخوف وہراس کی جو فضا پیدا ہوگئی تھی، اسے پوری طرح لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ ایک ہندی صحافی رگھور شرن نے انھیں ‘بھارت رتن’ سے دئیے جانے کے بعد ایودھیا سے اپنی رپورٹ میں کچھ لکھا ہے کہ لال کرشن اڈوانی کو بھارت رتن دیا جانا درحقیقت رام مندر ، رام نگری اور کروڑوں رام بھکتوں کا اعزاز ہے ۔ یہ کہتے ہوئے سواتین دہائیوں پہلے کا وہ دور یاد آتا ہے ، جب مندر آندولن فیصلہ کن مرحلے میں تھا اور لال کرشن اڈوانی اس آندولن کے ہیرو کے طورپر جانے جاتے تھے ۔مذکورہ صحافی نے مزید لکھا ہے کہ’ ‘ سب سے زیادہ فیصلہ کن کردار میں وہ اس وقت نظر آئے جب رام جنم بھومی کی مکتی کے لیے سومناتھ سے رتھ یاترا لے کر وہ ایودھیا کی طرف روانہ ہوئے ۔ یہ سال 1990کی 25ستمبر کی تاریخ تھی ۔حالانکہ مندر آندولن اس سے پہلے ہی جن آندولن کے روپ میں قایمہوچلا تھا، لیکن اسے بلندیوں تک چھوا اڈوانی کی رتھ یاترا آگے بڑھنے کے ساتھ۔
ہندی روزنامہدینک جاگرن کے نامہ نگار کے اس اقتباس کو نقل کرنے کا مقصد یہ ہے کہ آپ اڈوانی کی اصل خدمات کا اندازہ لگا سکیں۔ اسی طرح پی وی نرسمہاراو کو ‘بھارت رتن ‘ دیئے جانے کے پیچھے ان کا وہ مذموم کردار ہے جو انھوں نے بطور وزیراعظم بابری مسجدکے انہدام کی راہ ہموار کرنے میں اداکیا۔ سبھی جانتے ہیں کہ بابری مسجد انہدام کے بعد مرکز نے کلیان سنگھ سرکار کو برخاست کرکے وہاں صدر راج نافذ کردیا تھا ، لیکن اس کے باوجود وہاں بابری مسجدکے مقام پر عارضی مندر بنانے کی چھوٹ دی گئی۔اگر نرسمہاراو کی نیت ٹھیک ہوتی تو وہ ایسا نہیں ہونے دیتے چونکہ جوکچھ منہدم کیا گیا تھا وہ مسجد تھی اور اسی کی باقیات پر رام مندر کا ڈھانچہ تعمیر کرانا سراسر ظلم تھا۔ نرسمہاراو کا دوسرا بڑا کارنامہ ظالم وغاصب اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قایم کرنا تھا۔ ان ہی کے دور اقتدار میں ہند۔اسرائیل دوستی پروان چڑھی جو موجودہ حکومت کا سب سے بڑا ایجنڈا ثابت ہوئی۔بی جے پی کے برسراقتدار آنے کے بعد اسرائیل سے ہندوستان کی جو قربت ہوئی ہے ، وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے ۔
اب آئے ے ایک نظر چودھری چرن سنگھ پر ڈالتے ہیں جنھیں کسان لیڈر کے طورپر جانا جاتا ہے مگر حقیقت میں ان کا سب سے بڑا ‘کارنامہ’ یہ ہے کہ انھوں نے ملک میں سیاسی وفاداریاں بدلنے کا ریکارڈ قایم کیا۔ ان کے پسماندگان بھی اسی روش پر قائم ہیں۔ چودھری چرن سنگھ کے بعد ان کے بیٹے اجیت سنگھ نے ان کی پیروی کی اور اب ان کے پوتے جینت چودھری بھی اپنے دادا کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔چودھری چرن سنگھ کو ‘بھارت رتن ‘دئیے جانے کے بعد جینت چودھری نے سماجوادی پارٹی سے اپنا اتحاد ختم کرکے بی جے پی سے ہاتھ ملالیا ہے ۔ انھوں نے اپنے دادا کو ‘بھارت رتن’ دئے ے جانے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ ”اب کس منہ سے منع کروں؟چودھری چرن سنگھ مغربی اترپردیش کے جاٹ کسان لیڈر تھے ۔یوپی کی سیاست پرگزشتہ صدی کی پانچویں دہائی میں اعلیٰ ذاتوں کا دبدبہ تھا ۔ سیاسی عزائم سے لبالب چودھری صاحب اس دبدبے کوہر حالت میں ختم کرنا چاہتے تھے ۔انھوں نے وفاداریاں بدلنے والے سیاسی دور کی قیادت کا فریضہ انجام دیا۔یہ وہ دور تھا جب عوامی نمائندے ذاتی مفاد کے لیے سرکاریں زمیں دوزکر نے کا کام کررہے تھے ۔ اس ہنرکی بدولت ہی چرن سنگھ 1967 اور1970میں کچھ عرصے کے لیے اترپردیش کے وزیراعلیٰ بننے میں بھی کامیاب رہے ۔
1975میں ایمرجنسی نافذ ہونے کے بعد اندراگاندھی نے انھیں بھی جیل میں ڈال دیا ۔1977 میں جب اندرامخالف لہر کے دوران جنتا پارٹی اقتدار میں آئی تو چرن سنگھ وزیرداخلہ اور اس کے بعد نائب وزیراعظم بنے ۔ لیکن وہ اس پر بھی مطمئن نہیں ہوئے ۔ ان کی نظریں وزیراعظم کی کرسی پر مرکوزتھیں۔1979میں دوبارہ وفاداری تبدیل کرکے وہ اندرا گاندھی کی حمایت سے وزیراعظم کی کرسی ہتھیانے میں کامیاب ہوگئے ۔ یہ غیراصولی سیاست کی انتہا تھی ۔ عوام نے جنتا پارٹی کا انتخاب اندرا گاندھی کی مخالفت کے نام پر کیا تھا، لیکن چرن سنگھ نے اس حقیقت کو بالائے طاق رکھ کر ان ہی کی مدد سے وزیراعظم بننا قبول کیا ۔ لیکن اس کرسی پربھی وہ زیادہ دنوں تک براجمان نہیں رہ سکے ، کیونکہ اندرا گاندھی نے کچھ ہی ہفتوں میں اپنی حمایت واپس لے لی ۔ان حقائق کی روشنی میں چرن سنگھ کی سب سے بڑی حصولیابی یہی کہی جاسکتی ہے کہ کسی اصول یا نظرئے ے کے بغیرسیاست کرو اور جہاں موقع ملے وہاں پارٹی بدل کر وزیراعلیٰ اور وزیراعظم کی کرسی ہتھیاو ۔ اگر ایسے ہی لوگ بھارت رتن کے حقدار ہیں تو ہم اس اعزاز کو دور سے سلام کرتے ہیں۔اس کے باوجود اگر حکومت نے ایسے لوگوں کو’بھارت رتن’ دیا ہے تو یقینا ان کی کچھ ایسی خوبیاں ضرور ہوں گی، جس کے لیے وہ سب سے بڑے شہری اعزاز کے حقدار قرار دئے ے گئے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔