کپتان کو شادی مبارک
شیئر کریں
خدا کا شُکر ہے ہم پر تُمہارا عشق طاری ہے
ہماری آنکھ روشن ہے ہمارا قلب جاری ہے
سجن میری بصارت کی طہارت کو دعائیں دے
مِری مجذوب آنکھوں نے تیری صورت نکھاری ہے
(عمران خان نے بشریٰ بی بی سے نکاح کر لیا ہے جس کے بعد کپتان کی تیسری شادی کا اعلان کر دیا گیا ہے۔عمران خان کی ذاتی زندگی کی کہانی ہمیشہ سے پریوں کے دیس کی کتھا معلوم ہوتی تھی اسی لیئے بشریٰ بی بی اور کپتان کی شادی کا افسانوی رنگ بھی منفرد نظر آتا ہے ۔ دونوں نے نئی زندگی کا آغاز کر دیا ہے ۔ اس شادی کو دنیا بھر میں بھرپور کوریج مل رہی ہے ۔ کپتان کے چاہنے والوں کی طرح ان سے حسد کرنے والوں کی بھی اگرچہ کمی نہیں ہے لیکن اس شادی پر جس قسم کا ردِ عمل سامنے آیا اُس نے کرکٹ کے لیجنڈ اور پاکستانی سیاست کے معروف لیڈ ر کی مقبولیت کو واضح کر دیا ہے ۔نکاح کی سادہ اور پُر وقار تقریب اور باپردہ خاتون سے شادی نے نئے شادی شدہ جوڑے کو دنیا بھر میںیگانگت عطاء کی ہے ۔ عمران خان کی نئی ازدواجی زندگی کی کامیابی کے لیے ہر طرف دعائیں سنائی دے رہی ہیں۔
تیسری شادی کی گونجتی شہنائی میں پہلی شادی کی بازگشت بھی سنائی دی گئی۔ کپتان کی پہلی شادی پاکستانیت اور مٹی سے وابستگی اور وارفتگی پر قربان ہوئی اور اس سارے فسانے میں کوئی ایک مقام بھی ایسا نہیں جہاں عمران خان کو ذمہ دار ٹہرایا جائے ۔ عمران خان نے اپنے سیاسی مشن کی خاطر پاکستان چھوڑنے سے انکار کرتے ہوئے اپنی گھریلو زندگی قربان کر دی تھی۔
کرکٹ کے میدان میں قدم رکھا تو کامرانی نے آگے بڑھ کر اُن کے قدم چومے ۔ کامیابیوں ، شخصیت کی کشش ،اور سحر نے اُنہیں خیالوں کے شہزادے کا روپ دیئے رکھا ۔ 80 کی دہائی میں جب عمران نے کرکٹ کی دنیا کو اپنے سحر میں پوری طرح جکڑا ہوا تھا تو وہ گلیمر کی دنیا کے لیے بھی ناگزیر اور دنیا بھر کی خواتین کا مرکزِ نگاہ بنے ہوئے تھے ۔ بھارتی دوشیزائیں تو اُ ن کے ارد گرد اس طرح سے منڈلاتی رہتی تھیں جیسے تتلیاں پھول کا طواف کرتی ہیں۔ 1992 ء میں ورلڈ کپ جیتنے کے بعد عمران شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گئے ۔کینسر ہسپتال تعمیر کرنے کی ان کی خواہش کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں پاکستانی عوام نے اہم کردار ادا کیا ۔ والدہ شوکت خانم کی وفات کے بعد اور کینسر ہسپتال کی تکمیل کے مراحل میں عمران خان کی زندگی نے بدلنا شروع کر دیا ۔ خود سر عمران خان اچانک خودی کا پیکر بن گیا ۔ انہیں کہیں سے ’’شکوہ ‘‘ جوابِ شکوہ کی کاپی ہاتھ لگی تھی۔ عمران نے ان نظموں کو کئی بار پڑھا لیکن سمجھ میں کچھ نہیں آیا اپنے والد اکرام اللہ خان نیازی مرحوم سے ان دونوں نظموں اور ان کے خالق کے بارے میں دریافت کیا۔والد کی طرف سے شکوہ جواب ِ شکوہ کی تشریح ان کے من کو اس قدر پسند آئی کہ وہ اقبالؒ کے دیوانے ہو گئے ۔
جمائما گولڈ اسمتھ سے عمران خان کی شادی کی خبر پاکستانی عوام کو پہلے پہل پسند نہیں آئی تھی ۔ پاکستانی میڈیا نے اس شادی کو کافی عرصے تک تنقید کا موضوع بنائے رکھا ۔ پاکستانیوں کا غصہ تو سمجھ میں آتا تھا لیکن اس شادی کے اعلان سے برطانیا میں بھی اکثریت کے ماتھے پر شکنیں اُبھر آئی تھیں۔ برطانوی شہزادی ڈیانا کی قریبی دوست جمائما گولڈ اسمتھ نے اپنی تعلیم، مُلک بلکہ مذہب کو بھی خیر آباد کہااور اسلام قبول کرکے پاکستان آکر ایک روایتی بیوی بننے کو پسند کرنے کا تائثر دیا تھا ۔
جمائما کو شادی سے پہلے لاہور سے شدید نفرت تھی ۔ عمران خان مشترکہ خاندانی نظام ( جوائنٹ فیملی سسٹم ) کے حامی تھے جبکہ جمائما خان اس نظام سے دور بھاگتی تھیں ۔ اس کا شروع سے ہی اصرار تھا کہ بچے انگلینڈ میں پڑھیںگے اور عمران بھی انگلینڈ میں بسیرا کریں ۔ اس دوران جمائما معدے کے مرض میں مبتلا ہو گئیں ۔ جمائما ہی کے اصرار پر عمران خان لاہور چھوڑ نے اور اسلام آباد منتقل ہونے پر آمادہ ہوئے تھے۔ جمائمانے سوشل وائف بننے کی بہت کوشش کی لیکن عمران نے سختی سے منع کر دیا ۔ جمائما نے اپنا اسلامی نام رکھا ، ڈوپٹہ اوڑھا اور پاکستان سے اپنی محبت کا ظہار کیا لیکن وہ مشرقی بیوی نہ بن سکیں ۔ جبکہ عمران خان کے گھر کا ماحول رفتہ رفتہ اسلامی سانچے میں ڈھلتا جا رہا تھا ۔ پھر اچانک جمائما خان لندن چلی گئیں ۔لندن میں قیام کے دوران وہ بار بار عمران کو پیغام بھیجتی رہیں کہ ’’ پاکستان چھوڑ کر یہاں آجاؤ ‘‘ مجھے رکھو یا پاکستان کو کسی ایک کا انتخاب کر لو ‘‘ ۔ان پیغامات کے حوالے سے ان کے ایک قریبی دوست کا کہنا ہے کہ عمران اپنا گھر بسانے کی ہر ممکن کوشش کرتے رہے ۔لیکن پاکستان چھوڑنے کے مطالبے پر وہ ہر بار ایک ہی جواب دیتے تھے کہ ’’ میں پاکستان نہیں چھوڑ سکتا شادی سے پہلے میں تمہیںبتا چُکا ہوں کہ تمہیں باقی زندگی پاکستان میں گزارنا ہو گی ‘‘۔
عمران خان نے مغربی تہذیب کا اصل چہرہ پڑھ لیا تھا۔ان دنوں عمران خان نے ایک ریڈیو انٹرویو میں کہا تھا کہ ’’ دو ثقافتوں کے درمیان ہونے والی شادیوں میں بہت مشکلات پیش آتی ہیں۔ ‘‘ عمران خان کا ہمیشہ سے یہ خیال رہا ہے کہ تہذیبوں کے تصادم کے ماحول میں تہذیبوں کے ملاپ کی باتیں محض کتابی اور خیالی ہوتی ہیں۔عمران خان نے برطانیا جا کر اس رفاقت کو ختم کر دیا ۔ لیکن ترکِ تعلقات کا خوشگوار پہلو یہ تھا تمام مراحل انتہائی خوبصورتی سے طے ہوئے ۔قاسم خان اور سلمان خان کی اسلامی تربیت کی گارنٹی لی گئی ۔عمران خان نے جس طرح سے یہ معاملہ ختم کیا تھا وہ ان کی اسلام سے وابستگی اور پاکستان سے دلبستگی کا خوبصورت اظہار تھا ۔ لیکن پھر بھی طلاق کا لفظ رونگٹے کھڑے کر دیتا ہے ۔ مغربی معاشرے کی کسی لڑکی کے لیے اس ’’ناپسندیدہ عمل‘‘کے معنی شاید بہت معمولی ہوں لیکن مشرقی معاشرے طلاق کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا ۔
عمران خان کی ذاتی زندگی میں روحانیت کی طرف رغبت ہمیشہ سے حاوی رہی ہے وہ بچپن ہی سے اپنی والدہ کی وساطت سے ایسی شخصیات سے وابستہ رہا جو روحانیت کے کافی قریب تھیں ۔ عمران خان کی نئی شادی اک صاحبہ بصیرت سے ہوئی ہے ۔ نئی زندگی کی شروعات پر تبصروں اور تجزیوں کا سلسلہ جاری ہے ۔ اس ساری گفتگو کا حُسن یہ ہے عمران خان اوربشریٰ بی بی کی کامیاب زندگی کے لیے دعائیں کی جا رہی ہیں ۔ ہماری بھی یہی دعا ہے کہ عمران خان اور بشریٰ بی بی کا بندھن کامیاب ازدواجی زندگی کی مثال بنے ۔۔۔
جب وہ سورج میرا ہم سفر ہو گیا چار سُو اِک اُجالا بکھرنے لگا
جلنے والوں کی تعداد بڑھتی گئی اور چہرہ غزل کا سنورنے لگا