افغانستان سے پاکستان پر دہشت گردوں کے حملے
شیئر کریں
چیف آف آرمی ا سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ فخر سے کہہ سکتے ہیں پاکستانی سرزمین پر اب دہشت گردوں کا کوئی منظّم کیمپ موجود نہیں، ہم نے کالعدم تنظیموں القاعدہ، تحریک طالبان اور جماعت الاحرار کو شکست دے دی ہے، افغانستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانے موجود ہیں، جہاں سے پاکستان پر حملے ہو رہے ہیں، دہشت گردوں کی افغانستان میں موجودگی پر پاکستان کو تشویش ہے۔ دونوں ملکوں کی سرزمین ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہیں ہونی چاہئے، ہم وہ کاٹ رہے ہیں جو چالیس سال پہلے بویا گیا۔ اْن کا کہنا تھا کہ جہاد کا حکم دینے کا اختیار صرف ریاست کو حاصل ہے، خود پر قابو رکھنا بہترین جہاد ہے۔ تمام مکاتب فِکر کے عْلما نے مذہب کے نام پر کی جانے والی دہشت گردی کے خلاف فتویٰ دیا ہے، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے بے پناہ قْربانیاں دیں، پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں صرف فوجی کارروائی ہی نہیں کر رہا بلکہ دہشت گردوں کی مالی معاونت کرنے والوں کے خلاف بھی کارروائی کی جا رہی ہے، پوری قوم کی مشترکہ کوششوں سے دہشت گردی کا خاتمہ کیا گیا۔ افغانستان کے ساتھ سرحد پر بائیو میٹرک نظام نصب کیا گیا۔ ہم افغانستان میں امن و استحکام کے لیے تعاون پر تیار ہیں۔ عالمی سطح پر دہشت گردی کے خاتمے کے لیے تمام ممالک کی مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے۔ پاکستان کئی سال سے تیس لاکھ افغان مہاجرین کی میزبانی کر رہا ہے، وقت آ گیا ہے کہ افغان مہاجرین کو واپس بھیجا جائے۔ اْنہوں نے اِن خیالات کا اظہار میونخ (جرمنی) میں سیکیورٹی امور کے متعلق عالمی کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے کیا۔
آرمی چیف نے میونخ میں جن خیالات کا اظہار کیا، ایسے ہی خیالات وہ پہلے بھی مختلف فورموں پر ظاہر کر چْکے ہیں اور پاکستان کی حکومت کی جانب سے بھی وزراء اور دوسرے حکام اِن سے مِلتے جْلتے خیالات کا اظہار وقتاً فوقتاً کرتے رہتے ہیں۔ پاکستانی حکام یہ بھی باور کرا چْکے ہیں کہ پاکستان کے اندر سے دہشت گردوں کے کیمپوں کا مکمل صفایا ہو چْکا ہے، اگر کوئی عناصر کہیں کہیں موجود بھی ہیں تو اْنہیں بھی تلاش کرکے اْن کا قلع قمع کیا جا رہا ہے لیکن امریکی حکام نہ صرف یہ بات ماننے کے لیے تیار نہیں، بلکہ نئے سال کے آغاز میں صدر ٹرمپ کے ٹویٹ کے بعد پاکستان اور امریکا کے تعلقات میں اِس وجہ سے زیادہ سردمہری آ گئی کہ امریکا یہ مان کر نہیں دے رہا کہ پاکستان نے اپنی سرزمین سے دہشت گردوں کا صفایا کر دیا ہے۔ اِس لیے جو امریکی وزراء اور دوسرے اعلیٰ عہدیدار پاکستان کے دورے پر آتے رہے، وہ اِس بات پر اصرار کرتے رہے کہ پاکستان اپنے علاقوں سے دہشت گردی کے کیمپ ختم کرے، پاکستان نے اِس سلسلے میں امریکیوں سے یہ بھی کہا کہ اگر اْن کے پاس کوئی ایسی معلومات ہوں جن سے مدد لے کر دہشت گردوں کا وجود تلاش کیا جا سکتا ہو تو پاکستان کو ایسی معلومات دی جائیں لیکن معلومات تو نہیں دی گئیں البتہ پاکستانی موّقف کو بھی تسلیم نہیں کیا گیا۔
آرمی چیف نے جرمنی میں یہ بھی واضح کیا ہے کہ اْن عناصر کے خلاف بھی کارروائی کی جا رہی ہے جو دہشت گردوں کی مالی معاونت کر رہے ہیں یا جن کے بارے میں شْبہ ہے کہ وہ ایسا کر سکتے ہیں۔ اِس کے باوجود پاکستان کا نام ٹیررسٹ واچ لسٹ پر رکھنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں حالانکہ اقوام متحدہ کے اقدامات کی روشنی میں پاکستان کے اندر ایسی قانون سازی کر دی گئی ہے کہ کوئی ایسی تنظیم جو اقوام متحدہ کی نظر میں دہشت گردی کی سرگرمیوں میں ملوث ہو، پاکستان میں کِسی قِسم کی کارروائی نہیں کر سکتی اور اگر کِسی جگہ ایسی سرگرمیاں ہو رہی تھیں تو وہ حکومت نے اپنی نگرانی میں لے لی ہیں۔ دْنیا کے مختلف ملکوں کو اِس سلسلے میں پاکستان کے موقف سے آگاہ کرنے کے لیے پاکستان نے سفارتی سرگرمیاں جاری رکھی ہوئی ہیں، اب آرمی چیف نے بھی میونخ کانفرنس میں اپنی تقریر میں اِس کا تذکرہ کرکے ثابت کر دیا ہے کہ پاکستان میں ہر سطح پر ایسے اقدامات کئے جا رہے ہیں جن سے دہشت گردوں کے لیے اپنی سرگرمیاں جاری رکھنا ناممکن ہو کر رہ گیا ہے۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ دہشت گردوں کے ٹھکانے افغانستان میں ہیں جہاں امریکا سمیت نیٹو ملکوں کی افواج موجود ہیں جن کی تعداد 15000 سے زیادہ ہے۔ ان فوجیوں کی موجودگی کے باوجود افغانستان سے دہشت گردوں کے ٹھکانے ختم نہیں کئے جا سکے اور وہ نہ صرف وہاں دہشت گردی کرتے ہیں، بلکہ اْن کے تربیت یافتہ لوگ پاکستان آ کر بھی حملے کرتے ہیں۔ گزشتہ چند ماہ میں پاکستان کے اندر دہشت گردی کی جتنی بھی وارداتیں ہوئیں ان کے ڈانڈے بھی افغانستان سے ملتے ہیں۔ اچھی بات تو یہ ہوتی کہ اِن دہشت گردوں کے خاتمے کے لیے افغان حکومت پاکستان کے ساتھ تعاون کرتی، اگر ایسا ہو سکتا تو اِس کا فائدہ دونوں مْلکوں کو پْہنچتا لیکن افغان انتظامیہ نے اِن سے صرفِ نظر کیا بلکہ اْلٹا پاکستان پر الزام تراشی کرتی رہی، حالانکہ اِس قسم کے حالات میں ضرورت باہمی تعاون کی تھی۔ الزام تراشی سے تو حالات پہلے سے بھی زیادہ خراب ہوں گے، چند روز قبل افغان وفد پاکستان آیا تھا تو اْس پر بھی پاکستان نے اپنی پوزیشن واضح کر دی تھی کہ پاک سرزمین سے دہشت گردوں کے ٹھکانے ختم کر دیئے گئے ہیں اور اگر افغان حکام کِسی جگہ کی نشاندہی کریں گے جہاں اْن کے خیال میں دہشت گرد موجود ہیں تو وہاں بھی کارروائی کی جائے گی۔ اس وفد پر یہ بھی واضح کیا گیا کہ افغان مہاجرین کے روپ میں بھی بعض لوگ چھپ چھپا کر دہشت گردی کی کارروائیاں کرتے ہیں اور اگر مہاجرین کو واپس بھیجنے کی کوشش کی جاتی ہے تو یہ افغان حکومت کے تعاون سے ناکام بنا دی جاتی ہے لیکن اب وقت آ گیا ہے کہ افغان مہاجرین اپنے وطن واپس جائیں تاکہ پاکستان ان کی میزبانی سے سبکدوش ہو کر حالات کی بہتری پر توجہ دے سکے۔ عالمی اداروں کو بھی اِس جانب دھیان دینے کی ضرورت ہے اگر 30 لاکھ افغان مہاجرین اپنے وطن واپس چلے جائیں گے تو مقامی آبادی پر اِن کا بوجھ قدرے کم ہو جائے گا جس سے حالات کی بہتری میں مدد ملے گی۔
اپنے ناقص فہم اسلام کی وجہ سے بعض تنظیموں نے جو جہاد شروع کر رکھا ہے یہ فساد فی الارض ہے، کیونکہ کوئی تنظیم یا گروہ کِسی جگہ اپنی دانست میں جہاد کا آغاز نہیں کر سکتا، جو تنظیمیں اپنی سرگرمیوں کو جہاد کہتی ہیں، اْن کا مقصد لوگوں کو اپنی مطلب براری کے لیے گمراہ کرنا ہے، ان تنظیموں کی سرگرمیوں کی وجہ سے مشرقِ وْسطیٰ کے کئی خوشحال اور پررونق ممالک تباہ و برباد ہو گئے تاہم سال ہا سال کی کوششوں کے بعد اِن مْلکوں نے اِن تنظیموں کے قدم اْکھاڑ دیئے ہیں اور ان کا وجود تتر بتر ہو گیا ہے۔ اس طرح بکھر جانے کے بعد اْنہوں نے مایوسی میں بْہت سے ملکوں میں ایسی کارروائیاں کی ہیں جو انسانیت کے خلاف جرائم کی ذیل میں آتی ہیں۔ مشرقِ وْسطیٰ سے بچ کر ان لوگوں نے اب افغانستان میں ٹھکانے بنانے شروع کر رکھے ہیں، اِس لیے پاکستان اور افغانستان کو مل کر اِن کے خلاف کارروائیاں کرنے کی ضرورت ہے۔ نیٹو افواج کو بھی اپنی حکمتِ عملی میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے اور پاکستان پر الزام تراشیوں سے گریز کرکے زمینی حقائق کو تسلیم کرکے ایسے اقدامات کرنے چاہئیں جن سے دہشت گردی کو روکا جا سکے۔