لعل شہباز قلندرؒ کے مزار پر حملہ،سندھ حکومت ناکام ‘وزیراعلیٰ نامراد!!
شیئر کریں
٭سیہون وزیراعلی کا آبائی حلقہ ہونے کے باوجودبنیادی ضروریات سے محروم، ناقص سیکورٹی ،طبی سہولیا ت کی عدم دستیابی‘ عوام سراپا احتجاج
٭دہشت گردوں نے چھوٹے علاقے ہدف پر لے لیے، لعل شہباز قلندر کے مزار پر حملہ سندھ کے دیہی علاقوں میں اب تک کا چھٹا حملہ
٭ وفاقی اور صوبائی حکومت کی ایک دوسرے پر الزامات کی سیاست شروع،چارروزگزرنے کے باجود تفتیش میں کوئی پیش رفت نہیںہوسکی
محمد وحیدملک
لعل شہبازقلندر کے مزار پر حملے کے سہولت کاروں کا اب تک کوئی سراغ نہیں مل سکا۔وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان کا کہنا ہے کہ سیہون شریف دھماکوں کی تفتیش میں تاحال خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہو سکی۔ تاہم ایک سیاسی جماعت کے چند اکابرین نے انتہائی شرمناک انداز سے اپنی نااہلی چھپانے کے لیے وفاقی حکومت پر الزام تراشی کی، وہ سیکورٹی جیسے حساس معاملات پرسیاست نہیں کرنا چاہتے لیکن بے سرو پا الزامات کاسلسلہ جاری رہا توچند دنوں میں تمام صورت حال قوم کے سامنے رکھ دیں گے۔اس ضمن میں تفتیشی ادارے دھماکے کے مقام سے ملنے والے سامان کی فارنزک جانچ پڑتال میں مصروف ہیں، کیمروں کی ناقص کوالٹی کے باعث اب تک سی سی ٹی وی فوٹیج سے کوئی بھی مدد نہیں مل سکی ہے ۔ دھماکے کی جگہ سے ملنے والے سامان اور دیگر موادکی فارنزک جانچ پڑتال سی ٹی ڈی اور حساس اداروں کے ماہرین کر رہے ہیں۔سیہون شریف میں سو سے زائد غیر رجسٹرڈ گیسٹ ہاو¿سز کی موجودگی کا انکشاف ہوا ہے۔ایس ایس پی جامشورو طارق ولایت نے میڈیا سے گفتگو میں انکشاف کیا ہے کہ درگاہ لعل شہباز قلندر پر خودکش حملہ آور کے ساتھ بھی تین سہولت کار تھے۔انہوں نے اعتراف کیا کہ کوتاہی ہوئی ہے لیکن نوعیت کا پتا چلارہے ہیں، درگاہ پرحملے کے وقت بھی پولیس موجود تھی، ایک پولیس افسر بھی شہید ہوا، واقعے کی تفتیش سی ٹی ڈی کررہی ہے، سہولت کاروں تک جلد پہنچ جائیں گے۔
ایس ایس پی جامشورو کا کہنا تھا کہ حملے کی جگہ کی جیو فینسنگ کی جاچکی ہے، جگہ کو دھونے سے پہلے تمام ادارے شواہد اکٹھے کرچکے تھے، سی ٹی ڈی واقعے کی تفتیش کررہی ہے، جلد دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچایاجائے گا۔ انچارج سی ٹی ڈی راجا عمر خطاب کا کہناہے کہ ممکنہ طور پر حملہ آور مرد تھا، دھماکا مزار کے اندر ہوا،صحن میں ہوتا تو جانی نقصان اور زیادہ ہوسکتا تھا ۔ان کا کہنا تھا کہ تفتیش کاروں نے دھماکے کے مقام سے شواہد اکٹھے کرلیے، سی سی ٹی وی ویڈیو سے بھی تحقیقات میں مدد لی جائے گی ۔کراچی سے تقریبا 280کلومیٹر کے فاصلے پر واقع حضرت لعل شہبازقلندر کی درگاہ پر ہونے والے دھماکے نے حکومتی انتظامات کی قلعی کھول دی ۔واضح رہے کہ سیہون وزیر اعلی سندھ کا آبائی حلقہ بھی ہے۔ اسی علاقے سے ان کے والد بھی منتخب ہوکر وزیراعلی بنتے رہے ہیں لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ اس جگہ اب تک کوئی بڑا اسپتال نہیں بنایا گیا ۔گو کہ ہر سال یہاں لاکھوں کی تعداد میں زائرین حاضری دینے آتے ہیں اور خاص طور پر گرمیوں کے دنوں میں ہر سال یہاں اسپتالوں کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے کئی اموات ہوتی ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ مزار پر خودکش دھماکا ہونے کے بعد ایک گھنٹے تک مزار کے احاطے میں ریسکیوآپریشن شروع نہ کیا جاسکا ۔ تعلقہ اسپتال سیہون مزار سے آدھ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے لیکن یہ بنیادی سہولیات سے بھی محروم ہے ۔ کاغذوں میں تو یہ اسپتال ڈیڑھ سو بستروں اور سات ایمبولینسوں سے لیس ہے مگر افسوس کہ مقامی لوگ اپنی مدد آپ کے تحت زخمیوں اور شہید ہونے والوں کو ذاتی گاڑیوں ، رکشوں اور ٹیکسیوں میں اسپتال منتقل کرتے رہے ۔ستم ظریفی یہ کہ انہیں طبی امداد دینے کیلئے تعلقہ اسپتال میں فوری طور پر ڈاکٹرز بھی میسر نہیں تھے ۔ عینی شاہدین کے مطابق جب زخمیوں کو اسپتال پہنچایاگیا تو اسپتال کا عملہ نہ ہونے کے برابر تھا۔اسپتال میں تعینات 7سے8ڈاکٹروں کو اسپتال پہنچنے میں تاخیر کے باعث زخمیوں کو مشکلات ہوئیں۔ ڈاکٹروں کی کمی کے ساتھ پیرا میڈیکل اسٹاف اور ادویات کی قلت نے بھی متاثرین کا امتحان لیا۔ اتنی بڑی تعداد میں زخمیوں کیلئے بستروں کی موجودگی بھی سوالیہ نشان بنی۔ بیشتر زخمیوں کو اسپتال کے فرش پر لٹا کر طبی امداد دی گئی۔مختلف این جی اوز اور ایدھی کی امدادی ٹیموں نے موقع پر پہنچ کر لاشوں اور زخمیوں کو سندھ کے مختلف اسپتالوں میں منتقل کیا۔
لعل شہباز قلندر کے مزار پر حملے نے مجموعی طور پر سندھ حکومت کی ناکامیوں کو بے نقاب کردیا ہے۔ سندھ حکومت کرپشن کی دلدل میں گردن گردن دھنسی ہوئی ہے۔ اور عوام کو بنیادی سہولتیں مہیا کرنے سے مکمل بے پروا ہوچکی ہے۔ سیہون وزیراعلیٰ سندھ کا آبائی حلقہ ہونے کے باوجود مکمل نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔ یہاں تک کہ لعل شہباز قلندر کے مزار پر حملے کے بعد یہاں زخمیوں کو طبی امداد دینے تک کی سہولتیں مہیا نہیں ہوسکی تھیں۔ جس نے عوام کو احتجاج پر مجبورکیا۔ ناقص حفاطتی انتظامات کے باعث اب یہ بات مکمل سامنے آ چکی ہے کہ دراصل سندھ حکومت عوام کی حفاظت کرنے میں مکمل ناکام ہے۔ اس حوالے سے اب وزیراعلیٰ مراد علی شاہ پر بھی عوام کااعتماد اُٹھتا جارہا ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ جب قائم علی شاہ کی جگہ وزیراعلیٰ سندھ کے منصب سے سرفراز ہوئے تو اُنہیں ابتدا میںاچھی نظروں سے دیکھا جاتا رہا۔ مگر ہر گزرتے دن اُنہوں نے یہ ثابت کیا کہ وہ بھی پیپلزپارٹی کے روایتی کلچر سے کچھ مختلف کردار نہیں رکھتے۔ چنانچہ اُن کی ناکامیاں اب ہر محاذ پر سامنے آنے لگی ہیں۔
لال شہباز قلندر دھماکے میں90ہلاک اور250سے زائد افراد زخمی ہوئے تھے
سیہون میں لعل شہباز قلندر کے مزار پر دھماکے میں جاں بحق افراد کی تعداد 90ہوگئی ہے جبکہ65لاشیں ورثا کے سپرد کردی گئیں ۔پندرہ لاشیں اب بھی تعلقہ اسپتال سیہون میں موجودہیں جبکہ پانچ لاشوں کی شناخت کے لیے ڈی این اے نمونے لے لیے گئے ہیں۔دھماکے کے متاثرین میں سے 15افراد تعلقہ اسپتال میں زیر علاج ہیں جبکہ 41شدید زخمی کراچی ، حیدر آباد اور نوابشاہ منتقل کیے گئے ہیں جب کہ 155زخمیوں کو طبی امداد دے کر فارغ کردیاگیا ہے ۔ جاں بحق گیارہ افراد کی لاشوں کی شناخت اب تک نہیں کی جاسکی ۔شواہدجمع کرنے کے بعد لعل شہبازکے مزار کااحاطہ صاف کردیاگیا۔جمعرات کی شام درگاہ لال شہبازقلندر میں ہونےوالے خوف ناک دھماکے نے ہرایک کو غمگین کردیا تاہم اب سیکورٹی حکام کی جانب سے شواہد اکٹھا کرنے کے بعد مزار کے احاطے میں مقامی رضاکاروں نے صحن اور دیگر مقام کو صاف کردیا اور روایتی دھمال ڈالی ۔مزار سے ملحقہ گولڈن گیٹ اسٹریٹ، جہاں ہر وقت عقیدت مندوں کی رونق رہتی تھی اب وہاں سناٹا ہے ۔ مقامی افراد صدمے اور افسو س میں ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ جو کچھ ہوا وہ وہم و گمان میں بھی نہیں تھا ۔
لعل شہباز قلندر مزار حملے میں ہلاک ہونے والوںکے اعضاءنالے سے ملنے پر وزیراعلی برہم ہوگئے
وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ نے سیہون میں انسانی اعضا نالے سے ملنے پر برہمی کا اظہار کیا اور ڈپٹی کمشنر پرسخت ناراض ہوئے۔ترجمان کے مطابق وزیراعلی سندھ نے کمشنر کو واقعے کی تحقیقات کا حکم دے دیااور نالوں میں پڑے اعضا کو دفن کرنے کی ہدایات کردی ۔وزیراعلی سندھ نے ضلعی انتظامیہ جامشورو کو واضح ہدایات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کا دل بہت دکھا ہواہے، مزید تکلیف نہ دیں ،مزید آزمائش میں نہ ڈالیں، ورنہ آپ تکلیف میں آجائیں گے ۔ڈپٹی کمشنر سیہون منور مہیسر نے اعضا پھینکے جانے والی جگہ کا دورہ بھی کیا ہے،ان کا کہنا ہے کہ مقامی افراد نے اعضا ہٹا دیے۔سیہون دھماکے میں شہید ہونے والے افراد کے وہ اعضا جن کی شناخت نہیں ہوسکی اور جو ورثا کے حوالے نہیں کیے جاسکے ، وہ نامعلوم کس طرح گندے نالے کے قریب پائے گئے تھے، جنہیں آوارہ جانور کھاتے ہوئے بھی دکھائی دیے، مقامی افراد میں اس انتظامی بے حسی پر شدید غم وغصہ پایا گیا،خودکش حملے میں شہدا کی باقیات نالے کے کنارے موجود ہیں ، آوارہ جانور اور پرندے ان اعضا کی بے حرمتی کررہے ہیں ۔ڈی سی جامشورو منور مہیسرکا کہنا ہے کہ سیہون سانحے میں شہید افراد کی باقیات خود اکٹھی کرائی تھیں۔ دھماکے کے بعد سیہون میں لعل شہباز قلندر کے مزار کے داخلی گیٹ پر واک تھرو گیٹ لگادیے گئے، عارضی طورپر قطاریں بنانے کےلئے بانس پہنچادیئے گئے ہیں۔ پولیس نے محکمہ اوقاف سے سیکورٹی انتظامات کا مطالبہ کیا تھا۔ایس پی جام شورو طارق ولایت اورڈی سی جامشورو منور مہیسر نے درگاہ پر انتظامات کا جائزہ بھی لیا ۔
ملک بھر میں مزارات اور مساجد کی سیکورٹی سخت کردی گئی
لال شہباز قلندر کے مزار پر خودکش حملے کے بعد ملک بھر میں مساجد اور مزارات کی سیکورٹی انتہائی سخت کردی گئی، لاہور میں دربار بی بی پاک دامن اور اسلام آباد میں بری امام سرکار دربار زائرین کیلئے بند کردیے گئے ۔ رینجرز حکام کا کہنا ہے سیہون میں حضرت لعل شہباز شریف کے مزار پر خود کش حملے کے بعد کراچی میں بھی رینجرز کی جانب سے سخت سیکورٹی اور اسنیپ چیکنگ کے ساتھ ساتھ ایم اے جناح روڈ پر جامع کلاتھ کے قریب مزار کو سیکورٹی خدشات کے باعث بند کردیا گیا تھا ۔رینجرز حکام کے مطابق رینجرز کی جانب سے کراچی کے داخلی اور خارجی راستوں پر بھی سیکورٹی سخت کرتے ہوئے اسنیپ چیکنگ بڑھا دی گئی ہے۔ مزار قائدانتظامیہ کا کہنا تھاکہ سیکورٹی خدشات کے پیش نظر مزارقائد کو شہریوں کے لیے بند کردیا گیا تھا۔ ریزیڈنٹ انجینئر مزار قائد محمد عارف کا کہنا تھاکہ مزار کو 2 روز کے لیے بند کیا گیا ہے۔واضح رہے کہ ملک بھر میں دہشت گردی کی لہر نے ایک بار پھر سر اٹھانا شروع کردیا ہے۔
دہشت گردوں نے پاکستان کے چھوٹے شہروں کا رخ کرلیا
دہشت گردی اور خودکش حملوں کے واقعات خیبر پختونخوا، پنجاب، بلوچستان اور کراچی کے بعد اب سندھ کے چھوٹے شہروں میں بھی وقوع پزیر ہو رہے ہیں۔صوفیوں اور محبت کی دھرتی سندھ کے چھوٹے شہروں میں شامل سیہون میں حضرت لعل شہباز قلندر کے مزار پر ہونے والا دھماکا سندھ کے دیہی علاقوں میں اس نوعیت کا چھٹا حملہ تھا۔سن 2016 میں 14ستمبر کو شکارپور کے قصبے خان پور میں ایک خود کش حملہ آور کو کامیابی سے روک دیا گیا تھا، اس حملے میں خودکش حملہ آور خود مارا گیا جب کہ 11افراد زخمی ہوئے تھے۔سن 2013 میں چھ فروری کو شکارپور کے قریب درگاہ پیر جاجن شاہ میں دھماکے سے 4افراد جاں بحق اور 12زخمی ہو گئے تھے، زخمیوں میں درگاہ کے گدی نشین بھی شامل تھے۔سن 2013 میں 20فروری کو جیکب آباد میں پیر قمبر شریف کے جلوس میں دھماکے سے ان کا پوتا شفیق حسین شاہ جاں بحق اور پیر قمبر شریف سمیت 12افراد زخمی ہو گئے تھے۔یکم مئی 2013کو شکار پور میں خودکش حملے میں قومی اسمبلی کے سابق رکن ابراہیم جتوئی بال بال بچ گئے، جبکہ دو افراد زخمی ہوئے، حملہ آور نے ابراہیم جتوئی کی گاڑی کے قریب خود کو دھماکے سے اڑایا تھا مگر گاڑی بلٹ پروف ہونے کی وجہ سے ابراہیم جتوئی بچ گئے۔سن 2015 میں 30جنوری کو شکارپور کی مرکزی امام بارگاہ کے اندر دھماکے سے 60افراد جاں بحق اور 60زخمی ہو گئے تھے۔سن 2015 میںہی 14اکتوبر کو جیکب آباد کے لاشاری محلے میں شیرشاہ حویلی کے قریب محرم کے جلوس میں خودکش بم دھماکا ہوا، جس میں 20افراد جاں بحق ہوئے۔یہ تمام واقعات سندھ کے دو اضلاع شکارپور اور جیکب آباد میں پیش آئے۔دہشت گردی سے سندھ کا دارالحکومت کراچی سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے جہاں 2002سے اب تک 22 خودکش حملے ہو چکے ہیں۔