میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
دہشت گردی کی نئی لہر

دہشت گردی کی نئی لہر

ویب ڈیسک
پیر, ۲۰ فروری ۲۰۱۷

شیئر کریں

پاکستان میںاسٹیٹ اور نان اسٹیٹ فورسز کے درمیان جنگ خوفناک خون آشامی کے ساتھ لڑی جارہی ہے۔ پاک فوج کے سابق سربراہان جنرل (ر) پرویز اشرف کیانی اور جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور میں یہ جنگ یکساں رفتار سے جاری رہی‘ بم دھماکے ‘ خودکش حملے اور تخریب کاری کو عروج ‘سابق صدر مملکت آصف علی زرداری کے دور میں حاصل ہوا جب حسین حقانی امریکہ میں پاکستان کے سفیر تھے اور امریکی ایجنٹوں کو تھوک کے بھاو¿ پاکستانی ویزے جاری کررہے تھے۔ اسلام آباد میں معروف کاروباری شخصیت صدر الدین ہاشوانی کے فائیو اسٹار ہوٹل کو بھی اسی دور میں نشانہ بنایا گیا۔ اسلام آباد کی لال مسجد پر قبضہ ہوا‘ جہاں گھمسان کی جنگ لڑی گئی اور طرفین کا بے پناہ جانی نقصان ہوا۔ ان حکمرانوں کے بعد پاک فوج کو جنرل راحیل شریف کی شکل میں ایسا سپہ سالار ملا جس نے سینہ سپر ہوکر آپریشن ضربِ عضب اور نیشنل ایکشن پلان شروع کیا۔ فوجی عدالتیں قائم کی گئیں۔ درجنوں دہشت گردوں کو سزائے موت دی گئی۔
جنرل راحیل شریف کے اقدامات سے دہشت گردوں اور تخریب کاروں پر ایسا خوف طاری ہوا کہ وہ کہیں دور جا چھپے۔ ان میں ملّا فضل اللہ بھی شامل ہے جس نے سوات پر قبضہ کرلیا تھا اور اسٹیٹ فورسز نے اسے بھاگنے اور قبضہ چھوڑنے پر مجبور کردیا۔ ملّا فضل اللہ یہاں سے پسپا ہوکر افغانستان میں پناہ گزین ہوگیا اور اب وہاں سے پاکستان میں دہشت گردی اور خود کش حملے کرارہا ہے۔ قیامِ پاکستان کے بعد سندھ میں ڈاکوو¿ں نے شہریوں کا ناطقہ بند کر رکھا تھا لیکن قاضی فضل اللہ وزیر داخلہ بنے تو سارے ڈاکو فرار ہوکر صوبہ چھوڑ گئے تھے۔ جنرل راحیل شریف کا رعب اور دبدبہ بھی ایسا ہی تھا جن کے نام سے تخریب کاروں اور دہشت گردوں پر کپکپی طاری ہوجاتی تھی۔ انہوں نے کرپٹ سیاستدانوں کو بھی ”سرخ بتی“ دکھائی جس پر کئی سیاستدان ملک چھوڑ گئے تھے۔ پاک فوج میں قیادت تبدیل ہوئی تو حکومت نے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے فوجی عدالتیں ہی بند کردیں۔ دہشت گردوں‘ تخریب کاروں اور کرپٹ عناصر نے اسے”گرین سگنل“ تصور کیا۔ انہوں نے ایک بار پھر منظم ہوکر تخریبی کارروائیاںشروع کردیں۔ گزشتہ دنوں‘5دن میں 8خود کش دھماکے ہوئے۔ کراچی‘ لاہور‘ کوئٹہ حتیٰ کہ دور دراز علاقے سیہون شریف میں حضرت لعل شہباز قلندر کے مزار کو بھی نشانہ بنایاگیا جہاں خود کش دھماکے میں 88سے زائد زائرین شہید اور 250سے زیادہ زخمی ہوگئے۔ پاکستان کی سول و عسکری قیادت اور سراغرساں اداروں نے اس دہشت گردی کا مرکز افغانستان بتایا ہے جہاں سے ملا فضل اللہ اور دیگر عسکریت پسند خود کش روانہ کررہے ہیں۔ پاکستان کی حکمران اشرافیہ نے سب سے پہلے 1951ءمیں وزیر اعظم لیاقت علی خان کو شہید کرنے کے لیے افغانستان سے ٹارگٹ کلر سید اکبر امپورٹ کیا تھا جس نے راولپنڈی کے جلسہ¿ عام میں پاکستان کے پہلے وزیر اعظم قائد ملت کو نشانہ بنایا تھا۔ آج 66سال گزرنے کے بعد بھی افغانستان کی سرزمین اس مقصد کے لیے استعمال ہورہی ہے۔ پاکستان نے 76دہشت گردوں کی فہرست افغان حکام کے حوالے کی ہے جو افغانستان میں چھپ کر پاکستان میں کارروائیاں کررہے ہیں۔ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جس کی سب سے بڑی ایکٹیو جنگی سرحد ہے جو کہ 3600کلو میٹر طویل ہے اور بد قسمتی سے پاکستان ہی دنیا کا واحد ملک ہے جو بیک وقت تین خوفناک جنگی ڈاکٹرائینزکی زد میں ہے جس کے بارے میں بہت تھوڑے لوگ جانتے ہیں۔
پہلے نمبر پر کولڈ اسٹارٹ ڈاکٹرائین (Cold Start Doctrine)ہے جو انڈین جنگی حکمت عملی ہے، جس کے لیے انڈیا کی کل فوج کی 7کمانڈز میں سے چھ پاکستانی سرحد پر ڈپلوئیڈ ہوچکی ہیں۔ یہ انڈیا کی تقریباً 80فیصد سے زیادہ فوج بنتی ہے اور اس ڈاکٹرائین کے لیے انڈین فوج کی مشقیں‘ فوجی نقل و حمل کے لیے سڑکوں‘ پلوں اور ریلوے لائنوں کی تعمیر اور اسلحے کے بعد بڑے بڑے ڈپو نہایت تیز رفتاری سے بنائے جارہے ہیں۔ اس ڈاکٹرائن کے تحت صوبہ سندھ میں جہاں انڈیا کو جغرافیائی گہرائی حاصل ہے‘ وہ تیزی سے داخل ہوکر سندھ کو پاکستان سے کاٹتے ہوئے بلوچستان گوادر کی طرف بڑھیں گے اور مقامی طور پر ان کو سندھ میں جسقم اور بلوچستان میں بی ایل اے کی مدد حاصل ہوگی…. پاکستان کو اصل اور سب سے بڑا خطرہ اسی سے ہے اور پاک آرمی انڈین فوج کی اسی نقل و حرکت کو مانیٹر کرتے ہوئے اپنی جوابی حکمت عملی تیار کررہی ہے…. آپ نے سنا ہوگا کہ پاکستان آرمی کی”عظم نو“ مشقوں کے بارے میں جو پچھلے کچھ سال سے باقاعدگی سے جاری ہیں…. یہ انڈیا کی کولڈ سٹارٹ ڈاکٹرائین کا جواب تیار کیا جارہا ہے جس کے تحت پاک آرمی جارحانہ دفاع کی تیاری کررہی ہے…. گوکہ اس معاملے میں طاقت کا توازن بری طرح ہمارے خلاف ہے۔ انڈیا کی کم از کم دس لاکھ فوج کے مقابلے میں ہماری صرف دو سے ڈھائی لاکھ فوج دستیاب ہے کیونکہ باقی امریکن”ایف پاک“ ڈاکٹرائین کی زد میں ہے….!!
امریکن ایف پاک ڈاکٹرائن (Doctrine afpak Amrican)پاکستان کے خلاف جنگی حکمت عملی ہے جس کے تحت افغان جنگ کو بتدریج پاکستان کے اندر لے کر جانا ہے اور پاکستان میں پاک آرمی کے خلاف گوریلا جنگ شروع کروانی ہے…. درحقیقت یہی وہ ڈاکٹرائن ہے جس کے تحت اس وقت پاکستان کی کم از کم دو لاکھ فوج حالت جنگ میں ہے اور اب تک ہم کم از کم اپنے 20ہزار فوجی گنوا چکے ہیں جو پاکستان کی انڈیا کے ساتھ لڑنے والی تینوں جنگوں میں شہید ہونے والوں کی مجموعی تعداد سے زیادہ ہے…. اس جنگ کے لیے امریکہ اور انڈیا کا آپس میں آپریشنل اتحاد ہے اور اسرائیل کی تکنیکی مدد حاصل ہے….اس کے لیے کرم اور ہنگو میں شیعہ سنی فسادات کروائے گئے اور وادی¿ سوات میں نفاذ شریعت کے نام پر ایسے گروہ کو مسلط کیا گیا جنہوں نے وہاں عوام پر مظالم ڈھائے اور فساد برپا کیا جس کے لیے مجبوراً پہلی بار پاک فوج کو ان کے خلاف ان وادیوں میں داخل ہونا پڑا…. پاک فوج نے عملی طور پر ان کو پیچھے دھکیل دیا لیکن نظریاتی طور پر ابھی بھی ان کو بہت سے حلقوں کی بھرپور سپورٹ حاصل ہے جس کی وجہ سے عوام اپنی آرمی کے ساتھ اس طرح نہیں کھڑی جیسا ہونا چاہیے اور اس کی وجہ تیسری جنگی ڈاکٹرائن ہے جس کے ذریعے امریکہ اور اس کے اتحادی پاک آرمی پر حملہ آور ہیں اور اس کو فورتھ جنریشن وار کہا جاتا ہے!!
فورتھ جنریشن وار (Warfaregeneration-Fourth) ایک نہایت خطرناک جنگی حکمت عملی ہے جس کے تحت ملک کی افواج اور عوام میں مختلف طریقوں سے دوری پیدا کی جاتی ہے۔ مرکزی حکومتوں کو کمزور کیا جاتا ہے‘ صوبائیت کو ہوا دی جاتی ہے‘ لسانی اور مسلکی فسادات کروائے جاتے ہیں اور عوام میں مختلف طریقوں سے مایوسی اور ذہنی خلفشار پھیلایا جاتا ہے…. اس کے ذریعے کسی ملک کا میڈیا خریدا جاتا ہے اور اس کے ذریعے ملک میں خلفشار‘ انارکی اور بے یقینی کی کیفیت پیدا کی جاتی ہے…. فورتھ جنریشن وار کی مدد سے امریکہ نے پہلے یوگوسلاویہ‘ عراق اور لیبیاکا حشر کردیا ،اب اس جنگی حکمت عملی کو پاکستان اور شام پر آزمایا جارہا ہے اور بد قسمتی سے انہیں اس میں کافی کامیابی حاصل ہوچکی ہے۔ پاکستان کے خلاف فورتھ جنریشن وار کے لیے بھی امریکہ‘ انڈیا اور اسرائیل اتحادی ہیں۔ سابق صدر امریکہ باراک اوباما نے اپنے منہ سے کہا تھا کہ وہ پاکستانی میڈیا میں 50ملین ڈالر سالانہ کرچ کریں گے۔ آج تک کسی نے یہ سوال نہیں اٹھایا کہ کس مقصد کے لیے اور کن کو یہ رقوم ادا کی جائینگی جبکہ انڈیا کا پاکستانی میڈیا پر اثر و رسوخ دیکھا جاسکتا ہے…. پاکستان کی ساری قوم اس امریکن فورتھ جنریشن وار کی زد میں ہے….!!
یہ واحد جنگ ہوتی ہے جس کا جواب آرمی نہیں دے سکتی‘ آرمی اس صلاحیت سے محروم ہوتی ہے۔ چونکہ پاک آرمی کو امریکن ایف پاک ڈاکٹرائن کے مقابلے پر نہ عدالتوں کی مدد حاصل ہے ،نہ سول حکومتوں کی اور نہ ہی میڈیا کی اس لےے باوجود بے شمار قربانیاں دینے کے، اس جنگ کو اب تک ختم نہیں کیا جاسکا ہے اور اس کو مکمل طور پر جیتا بھی نہیں جاسکتا ،جب تک پوری قوم مل کر اس امریکن فورتھ جنریشن وار کا جواب نہیں دیتی…. فورتھ جنریشن وار بنیادی طور پر ڈس انفارمیشن وار ہوتی ہے اور اس کا جواب سول حکومتیں اور میڈیا کے محب وطن عناصر دیتے ہیں…. پاکستان میں لڑی جانے والی اس جنگ میں سول حکومتوں سے کوئی امید نہیں اس لئے عوام میں سے ہر شخص کو خود اس جنگ میں عملی طور پر حصہ لینا ہوگا….!!
اس حملے کا سادہ جواب یہی ہے کہ” عوام ہر اس چیز کو رد کردیں جو پاکستان‘ نظریہ پاکستان اور دفاع پاکستان یا قومی سلامتی کے اداروں پر حملہ آور ہو۔“
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما عمران اسماعیل نے وزیر قانون پنجاب رانا ثناءاللہ پر الزام عائد کیا ہے کہ ان کے کالعدم تنظیموں سے گہرے روابط ہیں۔ اس وقت پنجاب دہشت گردوں کی آماجگاہ بنا ہوا ہے اور ہر کوئی جانتا ہے کہ حکومتی وزراءکے ان کے ساتھ تعلقات ہیں‘ جو انہیں اپنی گاڑیوں میں لے کر پھرتے ہیں۔ پی ٹی آئی کا مطالبہ ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے نہ صرف پنجاب‘ بلکہ پورے پاکستان میں یکساں آپریشن ہونا چاہیے۔ پنجاب کو 3ماہ کے لیے رینجرز کے حوالے کرنے کا مطالبہ بھی ہے۔ انتخابات میں یہی وزراءان کالعدم تنظیموں سے وابستہ دہشت گردوں کا نام تک لیتے ہیں‘ لہٰذا جب تک ان کے خلاف کارروائی نہیں ہوگی ،اس وقت تک امن قائم نہیں ہوسکتا۔ کرپشن کے ساتھ تمام جماعتوں کو دہشت گردی کے مسئلے پر بھی سنجیدگی سے آواز بلند کرنی چاہیے؟ پی ٹی آئی رہنما نے جواب دیا کہ فوج اس وقت یہ کام نہایت عزم کے ساتھ انجام دے رہی ہے‘ لہٰذا سیاسی جماعت چاہے کوئی بھی ہو وہ اس سلسلے میں صرف اخلاقی تعاون کرسکتی ہے۔ ایسا بھی نہیں ہوسکتا کہ جب تک دہشت گردی کی جنگ جاری ہے‘ اس وقت تک جس کا دل چاہے وہ کرپشن کرے اور ہم آرام سے بیٹھے رہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ کہیں نہ کہیں یہ کرپشن ہی ہے جو دہشت گردی کی بھی وجہ بنتی ہے‘ کیونکہ دہشت گرد مالی معاونت کے بغیر اس طرح کے حملے نہیں کرسکتے۔ ملک سے دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے نہ صرف کرپشن‘ بلکہ ہر ایک مسئلے کو حل کرنا پڑے گا۔ حالیہ دنوں میں ملک میں دہشت گردی کی نئی لہر نے جہاں ایک طرف حکومتی اقدامات سے متعلق سوالات کو جنم دیا۔ وہیں عوام میں بھی تشویش پیدا کردی ہے۔ یہ بیانات ایک ایسے وقت میں دیے ہیں جب رواں ہفتہ 13فروری کو صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور کو نشانہ بنایا گیا‘ جہاں پنجاب اسمبلی کے سامنے مال روڈ پر ہونے والے خود کش بم دھماکے میں سینئر پولیس افسران سمیت 13افراد ہلاک اور 80سے زائد زخمی ہوگئے تھے۔ علاوہ ازیں وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے فاٹا کی مہمند ایجنسی میں خودکش حملے کے نتیجے میں خاصہ دار فورس کے 3اہلکاروں سمیت 5افراد جاں بحق جبکہ 3زخمی ہوئے تھے‘ جبکہ اس واقعہ کے کچھ گھنٹوں بعد ہی پشاور کے علاقہ حیات آباد میں سول ججز کی گاڑی پر بھی خودکش حملہ کیا گیا جس میں ڈرائیور جاں بحق ہوگیا۔اس کے دوسرے دن ہی سیہون شریف میں زائرین کو نشانہ بنایا گیا۔ یہ غیر ممالک اور تربیتی کیمپوں سے تربیت یافتہ گوریلوں اور ریاستی فورسز کے درمیان جنگ ہے۔ اسے آسان نہ سمجھا جائے۔ یہ جنگ سرحدوں پر نہیں‘ پاکستان کے شہروں اور گلی کوچوں میں لڑی جارہی ہے۔ اس کا ایک ہی حل ہے‘ پوری قوم کی صف بندی‘ کرپشن کا خاتمہ اور فوجی عدالتوں کی بحالی۔ جہاں سے دہشت گردوں کو کڑی سزائیں دی جائیں۔
٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں