میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
نئے آزاد تجارتی معاہدوں پر پابندی کے لیے پاکستان بزنس کونسل کی قابل توجہ تجویز

نئے آزاد تجارتی معاہدوں پر پابندی کے لیے پاکستان بزنس کونسل کی قابل توجہ تجویز

ویب ڈیسک
پیر, ۲۰ فروری ۲۰۱۷

شیئر کریں

پاکستان بزنس کونسل (پی بی سی) کی جانب سے وفاقی حکومت کو بھجوائی جانے والی بجٹ تجاویز میںتاجروں، صنعت کاروں اور مینوفیکچررز نے ترکی اور تھائی لینڈ سمیت دیگر ممالک کے ساتھ نئے آزاد تجارتی معاہدوں پر پابندی لگانے، مقامی صنعت کو تحفظ فراہم کرنے ، برآمدات کو فروغ دینے کے لیے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے غلط استعمال اور ایران سے اشیا کی اسمگلنگ کو روکنے کا مطالبہ کرتے ہوئے تمام متعلقہ وزارتوں کے تعاون سے مربوط مینوفیکچرنگ اینڈ ٹریڈ اسٹریٹجی متعارف کرانے کی تجویز دی ہے۔
پاکستان بزنس کونسل کامو¿قف ہے کہ نہ صرف نئے آزاد تجارتی معاہدوں (ایف ٹی ایز) پر پابندی عائد کی جائے بلکہ ماضی کے ایف ٹی ایز اور ترجیحی تجارت معاہدے (پی ٹی ایز) پر بھی نظرثانی کی جائے اور اس مقصد کے لیے متعلقہ ممالک کے ساتھ دوبارہ مذاکرات کیے جائیں۔موجودہ ایف ٹی ایز اور پی ٹی ایز پر نظرثانی کے لیے دوبارہ مذاکرات کے دوران تجارتی بہاﺅ کے علاوہ 3 اہم مقاصد کو مدنظر رکھا جائے، اول ان معاہدوں کے نتیجے میں مقامی سطح پر زیاہ سے زیادہ روزگار کے مواقع پیدا ہوں، دوم ٹیکس وصولیوں میں اضافہ ہو اور سوم نان کموڈیٹی ایکسپورٹ میں اضافہ ہو۔
آزاد تجارتی معاہدوں کے حوالے سے پاکستان بزنس کونسل کے یہ مطالبات انتہائی اہمیت کے حامل ہیں‘ کیونکہ یہ ایک حقیقت ہے اور ارباب حکومت اس سے انکار نہیں کرسکتے کہ آزاد تجارتی معاہدوں کے تحت پاکستان کے تجارتی خسارے میں کمی کے لیے کسی قسم کے مثبت اثرات مرتب نہیں ہوئے جبکہ صرف چین کے ساتھ آزاد تجارتی معاہدے کی وجہ سے پاکستان کے تجارتی خسارے میں ساڑھے 6 ارب ڈالر سے زائد کا اضافہ ہوا ہے۔ چین کے ساتھ آزاد تجارتی معاہدے پر 2006ءمیں دستخط کیے گئے تھے، اُس وقت تجارتی خسارہ2.4 ارب ڈالر تھا جو 2015ءمیں بڑھ کر9 ارب ڈالر ہوگیا جبکہ چینی اعدادوشمار کے مطابق 2006ءمیںتجارتی خسارہ 3.2 ارب ڈالر تھا جو 2015ءمیں بڑھ کر 14ارب ڈالر ہوگیاہے۔
پاکستان بزنس کونسل کی جانب سے پیش کردہ دستاویز کے مطابق اعدادوشمار میں پایا جانے والا فرق انڈر انوائسنگ کا منہ بولتا ثبوت ہے کیونکہ انڈر انوائسنگ کی وجہ سے پاکستانی اعدادوشمار کم ہیں جبکہ چین میں جو ویلیو ڈکلیئر ہورہی ہے اس کے مطابق یہ خسارہ زیادہ ہے جس سے یہ ثابت ہورہا ہے کہ چین کے ساتھ تجارت میں 5 ارب ڈالر کے لگ بھگ انڈرانوائسنگ ہورہی ہے۔پاکستانی تاجروں اور صنعت کاروں کی جانب سے مربوط مینوفیکچرنگ اینڈ ٹریڈ اسٹریٹجی متعارف کرانے کا مطالبہ بھی حق بجانب ہے اور حکومت کو اس پر عملدرآمد میں کسی طرح کی قباحت محسوس نہیں ہونی چاہئے ،حکومت چاہے تو تمام متعلقہ وزارتوں کے تعاون سے مربوط حکمت عملی تیار کرکے اس پر عملدرآمد کرنے میں حکومت کو نہ صرف یہ کہ کچھ اضافی خرچ نہیں کرنا پڑے گا بلکہ اس حکمت عملی کے تحت کام کی صورت میں حکومت کو انتظامی اخراجات میں خاصی بچت ہوگی جبکہ تاجروں اور صنعت کاروںکا خاصا وقت بچ جائے گا۔ اسی طرح تاجروں اور صنعت کاروں کی جانب سے نئے ٹیکس دہندگان سے ٹیکس وصولی کو افسران کی کارکردگی جانچنے کے لیے مقرر کردہ کی پرفارمنس انڈیکیٹرز میں شامل کرنے کامطالبہ بھی کوئی ایسا مطالبہ نہیں ہے جس پر عملدرآمد کے لیے کسی طرح کے فنڈز کی ضرورت ہو بلکہ یہ کام افسران کی کارکردگی کی مانیٹرنگ کے نظام کوفعال بنا کر کیاجاسکتاہے اور اس کے نتیجے میں ٹیکس وصولی کے ذمہ دار افسران کی کارکردگی بہتر بنانے میں نمایاں مدد مل سکتی ہے ،اسی طرح افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے غلط استعمال اور ایران سے اسمگلنگ کوروکنے کامطالبہ حکومت کے اپنے مفاد میں ہے۔ اسمگلنگ کی روک تھام وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری میں شامل ہے اور اس کام کو مو¿ثر بناکر نہ صرف یہ کہ ٹیکسوں کی آمدنی میں نمایاں اضافہ کیاجاسکتاہے،بلکہ اس سے پاکستان کے تجارتی خسارے میں بھی نمایاں کمی کی جاسکتی ہے، کیونکہ پاکستان کے بڑھتے ہوئے تجارتی خسارے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ اور چین اور ایران کے ساتھ تجارت کے نام پر اسمگلنگ کو فروغ مل رہاہے اور اس اسمگلنگ کی وجہ سے پاکستان کی تیار کردہ وہ اشیا جو ہم ان ممالک کو برآمد کرکے زرمبادلہ کما سکتے ہیں اسمگل ہوکر ان ملکوں میں پہنچ جاتی ہیں اور ہم اپنی تیار کردہ اشیا کی برآمد سے حاصل ہونے والے متوقع زرمبادلہ سے محروم ہوجاتے ہیں۔ اس حوالے سے تاجروں اور صنعت کاروں کی یہ تجویز بھی مناسب اور قابل عمل معلوم ہوتی ہے کہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے درآمدی اشیا پر کسٹمز ڈیوٹی اور ٹیکسز داخلی پوائنٹ پر وصول کرلیے جائیں، اوراس طرح وصول کردہ ڈیوٹی اور ٹیکسوں کی یہ رقم ٹرانزٹ اشیا کے خارجی پوائنٹ پر ان اشیا کے افغانستان پہنچ جانے کی تصدیق کے بعد واپس کردی جائے اس طرح ٹرانزٹ ٹریڈ کے تحت منگوائی جانے والی اشیا کی مقامی مارکیٹ میں فروخت کو روکنا اورٹرانزٹ ٹریڈ کی آڑ میں بڑے پیمانے پر منظم انداز میں اسمگلنگ کے کاروبار کو روکا جاسکتا ہے۔
توقع کی جاتی ہے کہ وزیر خزانہ جو ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کرنے ، ٹیکس نیٹ بڑھانے، ٹیکسوں سے وصول ہونے والی آمدنی میں اضافہ کرنے اور تجارتی خسارہ کم کرنے کے حوالے سے خاصے فعال ہیں، تاجروں اور صنعت کاروں کی پیش کردہ ان تجاویز پر سنجیدگی سے غور کریں گے،اور ملک کو اسمگلنگ کی لعنت سے نجات دلانے اور ملکی صنعت کو پھلنے پھولنے کاموقع دینے کے لیے تاجروں اور صنعت کاروں کے قریبی تعاون سے ایسی حکمت عملی تیار کریں گے جس پر عمل کرنا بھی آسان ہو اور جس پر عمل کے ذریعے ملک میں روزگار کے زیادہ سے زیادہ مواقع پیدا کرنا ممکن ہوسکیں، وزیر خزانہ کو یہ حقیقت نظر انداز نہیں کرنی چاہےے کہ ملک میںروزگار کے مواقع میں اضافہ کرنے کیلئے ضروری ہے کہ نہ صرف یہ کہ ملک میں قائم صنعتوں کو تحفظ فراہم کیاجائے بلکہ نئی صنعتوں کے قیام کیلئے سازگار ماحول بھی پیدا کیاجائے، جب تک نئی صنعتیں قائم نہیں ہوں گی‘ نہ تو ملک حقیقی معنوں میں ترقی کرسکے گا اور نہ ہی بیروزگاری اور مہنگائی کے جن کو قابو میں لایاجاسکے گا۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں