میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
شریف خاندان اور پاناما لیکس

شریف خاندان اور پاناما لیکس

منتظم
جمعه, ۲۰ جنوری ۲۰۱۷

شیئر کریں

موجودہ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے والد میاں محمد شریف جن کے حوالے سے اس خاندان کو ” شریف خاندان ” کہا جاتا ہے۔7 بھائیوں کے ساتھ مشترکہ اثاثہ اتفاق فاؤنڈری کے مالک تھے، یہ فاؤنڈری قیام پاکستان سے قبل لگائی گئی تھی اور 1972 میں ذوالفقار علی بھٹو کی جانب سے صنعتوں کو قومیائے جانے تک صرف ایک فاؤنڈری ہی تھی، اس نے بھی صنعتی سلطنت کا درجہ حاصل نہیں کیا تھا۔ جب1972 میں دیگر صنعتوںکے ساتھ اتفاق فاؤنڈری بھی قومیائی گئی تو شریف خاندان نے اسی طرز کے صنعت سے وابستہ دیگر کاروبار شروع کر دیا۔ اب میاں محمد شریف کے باقی6 بھائیوں کی اولاد کس حالت میں ہے ، وہ تو وہ جانتے ہیں یا رب جانتا ہے ۔لیکن شریف خاندان آج کہاں اور کیسے ہے یہ سب جانتے ہیں۔
جولائی1977 میں جنرل ضیاء الحق نے مارشل لا لگا دیا، ابتدائی ایام میں تو جنرل ضیاء الحق 90 یوم میں انتخابات کرانے کے ارادے میں پختہ تھے لیکن ریٹائرڈ ایئر مارشل اصغر خان کی تحریک استقلال نے جب قومی اتحاد سے علیحدہ ہو کر پہلے احتساب پھر انتخاب کا نعرہ لگایا تو جنرل ضیا ء الحق کو اپنے اقتدار کو طول دینے کا بہانہ ہاتھ آ گیا۔ اس وقت میاں محمد نواز شریف سیاست کے طفل مکتب تھے اور ایئر مارشل اصغر خان کی تحریک استقلال کی شاخِ نازک پر ان کا سیاسی آشیانہ تھا ۔
جب جنرل ضیاء الحق کو اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے سیاسی بیساکھیوں کی ضرورت پڑی تو ان کی نگاہِ انتخاب تحریک استقلال پر پڑی ،ایئر مارشل اصغر خان کا مسئلہ یہ تھا کہ ان کی ” کالعدم ” پارٹی کو اقتدار کے ایوانوں میں بے نامی داخلے کا راستہ تو مل رہا تھا لیکن یہاں انا کا مسئلہ بھی سامنے آ رہا تھا کہ کس طرح ایئرمارشل صاحب اپنے سے جونیئر کی سربراہی قبول کریں۔ دوم یہ کہ ان کا براہ راست اقتدار میں شریک ہونا ان کے لیے سیاسی خودکشی ثابت ہو سکتا تھا۔ اگرچہ اس کے باوجود تحریک استقلال کا سیاسی مستقبل تاریک ہی رہا ۔جن ایام میں جنرل ضیاء الحق موسمی سیاسی پرندوں کی تلاش میں تھے، انہی ایام میں جنرل ملک غلام جیلانی نے پنجاب میں جنرل ضیاء کی سیاسی شکارگاہ کا بندوبست سنبھال رکھا تھا۔جنرل ضیاء الحق کی سیاسی شخصیات کے انتخاب میں پہلی ترجیح یہ تھی کہ ان افراد کو آگے لایا جائے جو ذاتی وجوہات کی بناء پر ذوالفقار علی بھٹو سے ذاتی عناد رکھتے ہوں ۔ پنجاب میں میاں محمد نواز شریف بھی جنرل ضیاء الحق کی صوبائی کابینہ کا حصہ بنائے گئے اور وزارت خزانہ کا قلمدان سونپا گیا ۔اگرچہ پروفیسر عبدالغفور احمد اور محمود اعظم فاروقی بھی دیگر وزراء کے ساتھ وفاقی وزیر بنائے گئے تھے لیکن ان دونوں شخصیات نے بہت جلد بھانپ لیا کہ ضیاء الحق انتخابات کرانے میں سنجیدہ نہیں ،صرف اپنے اقتدار کے لیے سیاستدانوں کے کندھے استعمال کر رہا ہے۔ یوں ان حضرات نے جلد ہی وزارت کا طوق گلے سے اتار پھینکا لیکن میاں محمد نواز شریف 17 اگست 1988 تک جنرل ضیاء الحق کے رفیق رہے ۔
قیام پاکستان سے قبل قائم ہونے والی اتفاق باؤنڈری نے 1947 سے اکتوبر 1972 میں قومیائے جانے تک 25 سال سے زائد عرصہ میں کسی دوسرے صنعتی ادارے کو جنم نہیں دیا تھا، اگرچہ اس عرصہ میں ایوب خان کے 10 سالہ دور کا صنعتی انقلاب کا عرصہ بھی شامل ہے جس میں پورے ملک میں صنعتوںکا جال بچھایا گیا ۔1958 کے بعد وجود میں آنے والے صنعتی ادارے بھی 1969 میں ایوب خان کے اقتدار سے رخصت ہونے تک ایک سے دو اور دو سے تین میں تبدیل ہو چکے تھے لیکن اتفاق فاؤنڈری اس عرصے میں بھی بانجھ ثابت ہوئی تھی کہ وہ کسی نئے صنعتی ادارے کو جنم نہ دے سکی تھی ۔
ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں قومیائے صنعتی اداروں کو لوٹ کا مال جانتے ہوئے پارٹی کے جیالوں کو نوازنے کے لیے استعمال کیا گیا، اکتوبر 1972 سے ان اداروں کو ان کے مالکان کو واپس کیے جانے کے دوران لوٹ مار کا وہ بازار گرم کیا گیا کہ بڑی تعداد میں تو مالکان نے اپنے صنعتی ادارے واپس لینے سے انکار کر دیا کہ ان اداروں کی بحالی سے بہتر تھا کہ نیا ادارہ قائم کر لیا جائے۔ میاں محمد شریف نے اپنے خاندان کا مشترکہ اثاثہ اتفاق فاؤنڈری واپس تو لیا لیکن اس میں سے ان کے بھائیوں کا حصہ کیا ہو،ا یہ ان کا اور ان کے بھائیوں کا مسئلہ ہے ، واپسی کے وقت اتفاق فاؤنڈری کی حالت بھی ایسی نہیں تھی کہ اس سے فوری بھاری منافع کمایا جا سکے بلکہ اس کی بحالی کے لیے بھاری سرمایہ درکار تھا۔ لیکن اس وقت تک میاں محمد نواز شریف جنرل ملک غلام جیلانی کی سرپرستی سے فیضاب ہو چکے تھے اور میاں محمد شریف کو اپنے ” باکمال ” فرزند کی صلاحیتوں پر اعتماد تھا۔یوں انہوں نے نجکاری کے دوران اتفاق فاؤنڈری واپس لے لی ۔اس طرح کم از کم نئے صنعتی ادارے کے قیام کے لیے زمین کی خرید کی مشقت اور فاضل خرچ سے بچا جا سکتا تھا۔ میاں محمد نواز شریف 1978 سے 1985 کے غیر جماعتی انتخابات تک پنجاب کی صوبائی کابینہ کا حصہ رہے ۔ 1985 میں ہونے والے غیر جماعتی انتخابات کے نتیجے میں مرکز میں محمد خان جونیجو (المعروف مسکین جونیجو)ضیاء الحق کا انتخاب ٹھہرے۔ یوں وزارت عظمیٰ کا تاج ان کے سر پر آ گیا اور پنجاب میں جنرل کا ” ووٹ” میاں محمد نواز شریف کے حق میں تھا یوں پنجاب کی وزارت عالیہ میاں محمد نواز شریف کی لونڈی قرار پائی۔ 1978 میں جنرل ملک غلام جیلانی کی نظر کرم سے فیضاب ہونے سے قبل میاں محمد شریف کا یہ ” باصلاحیت” فرزند ریلوے میں ملازمت کے لیے سرگرداں تھا اور تھرڈ کلاس گریجویٹ کو کس قسم کی ملازمت مل سکتی تھی، وہ سب جانتے ہیں ۔ میاں محمد نواز شریف تھرڈ کلاس گریجویٹ ہونے کے باعث مقابلے کے امتحان (CSS )میں شریک ہونے کے اہل نہ تھے۔ یوں کسی اعلیٰ عہدے کے حقدار نہیں ہو سکتے تھے اور کلرک کی اعلیٰ ترین منزل آفس سپرنٹنڈنٹ بن جانا ہُو ا کرتی ہے۔
1978 میں جنرل ملک غلام جیلانی کی نگاہِ کرشمہ ساز نے کرشمہ کر دیا کہ وہ میاں محمد نواز شریف جن کے ہاتھ میں آ کر مٹی مٹی بھی نہیں رہتی تھی، دھول بن جایا کرتی تھی، اسی میاں محمد نواز شریف کے ہاتھ پارس بن گئے کہ جس چیز کو چھو جائے سونا بن جائے ۔1972 میں قومیائے جانے تک اتفاق فاؤنڈری کے بطن سے ایک بھی نئے صنعتی ادارے نے جنم نہیں لیا تھا لیکن 1978 میں شریف خاندان پر جنرل جیلانی کے نظر کرم سے اتفاق فاؤنڈری ایسے تخم ِنایاب سے سرفراز ہوئی کہ صنعتی اداروں کے جنم کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو گیا اور گزشتہ 38 سال کے عرصے میں اتنی بارآور ہو چکی ہے کہ کم وبیش 150 صنعتی اداروں کو جنم دے کر پاکستان میں ” شریف صنعتی سلطنت” قائم کر چکی ہے ،ہزاروں ایکٹر زرعی زمین بھی اگل چکی ہے اور بیرون ملک آف شور اور بے نامی اثاثہ بھی بنا چکی ہے ۔وہ اتفاق فاؤنڈری جس کے حسابات کا دائرہ پاکستانی روپوں میں بھی 8 ہندسوں میں محدود رہتا تھا ، اب امریکی ڈالروں میں بھی 13 اور14 ہندوسوں کے دائرے سے باہر نکل چکی ۔
پاناما لیکس کا بھونچال آنے کے بعد جب میاں محمدشہباز شریف نے ایک پریس کانفرنس میں صرف اپنے اثاثہ جات ظاہر کیے تو ان کی مالیت انہوں نے اندھیروں کی ماری علاج معالجہ اور تعلیم سے محروم قوم کو صدمات سے بچانے کے لیے بلینز ڈالر میں بیان کی کہ قوم کی اکثریت بلین کا مطلب بھی نہیں جانتی اور جو جانتے ہیں وہ خاموش رہنے کو ترجیح دیتے ہیں کہ ان کے معاملات بھی ایسے ہی ہیں۔ چلیے میں بتا دیتا ہوں دس لاکھ کا ایک ملین ہوتا ہے اور جب ہزار ملین جمع ہوتے ہیں تو ایک بلین بنتا ہے اور جب ہزار بلین جمع ہوتے ہیں تو ایک ٹریلین بنتا ہے ،باقی حساب ننگی بھوکی اندھیروں کی ماری ،بے روز گاری کا شکار علاج معالجے سے محروم ، اسپتالوں کی راہدریوں میں جان اپنے خالق ومالک کے حوالے کرتی قوم خود کر لے ۔یہ غریبوں کے ہمدرد غربت نہیں غریبوں کے خاتمے کا منصوبہ بنائے بیٹھے ہیں ۔قوم کو اورنج ٹرین اور موٹروے نہیں روزگار، علاج معالجہ ، تعلیم اور روشنی چاہیے ۔یہ موٹروے اور اورنج ٹرین تو کک بیک (Kick Back) کا شوق رکھنے والوں کے منصوبے ہیں۔کیا اب آپ کو کک بیک کا مطلب بھی بتانا پڑے گا ،کک فٹبال میں بولا جاتا ہے جس کا مطلب ہوتا ہے فٹبال کو لات مارنا اور بیک انسانی جسم میں کمر کے نچلے حصہ کو کہتے ہیں ، یوں کک بیک کا مطلب ہوا کمر کے نچلے حصے پر لات اور کمر پر یہ لات” شریفوں "کو ہی مبارک ہو۔ویسے بھی جس قوم سے ملک ٹوٹنے کے اسباب قومی سلامتی کا معاملا قرار دے کر چھپا لیے گئے ہوں اور امت مسلمہ کے سب سے بڑے سانحہ کے کردار قبروں میں تو پہنچ چکے ہو ںلیکن ان کے نام سامنے نہ آ سکے ہوں،وہاں پاناما لیکس کوئی طوفان نہیں لا سکتا ،ہوا کا ہلکا سا ہی جھونکا ثابت ہو سکتا ہے۔ عمران خان اور سراج الحق صرف دو ہی تو پریشان ہیں باقی تو مولانا فضل الرحمان ،اسفند یار ولی ، فاروق ستار ،محمود خان اچکزئی سمیت تمام چین ہی چین کی گردان کر رہے ہیں کہ سب کے حال شریف خاندان سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ۔
٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں