میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
نفرت کی سیاست

نفرت کی سیاست

ویب ڈیسک
جمعرات, ۱۹ دسمبر ۲۰۲۴

شیئر کریں

۔
ایم سرور صدیقی

پاکستان کی پوری تاریخ سیاسی محاذ آرائی سے بھری پڑی ہے مخالفین نے ایک دوسرے کو کبھی سکھ کا سانس نہیں لینے دیا سیاسی محاذ آرائی کا ایک طویل دور میاںنوازشریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے درمیان گذراہے لوگوںکویاد ہوگامیاںنوازشریف وزیر ِ اعلیٰ پنجاب اور محترمہ بے نظیر بھٹو وزیر ِ اعظم منتخب ہوئی تو دونوںنے ایک دوسرے کے مینڈیٹ کو تسلیم نہ کیا خاتون وزیر اعظم لاہور آتیں تو وزیر اعلیٰ ان کے استقبال کے لئے بھی نہ جاتے ان کے مابین سیاسی محاذ آرائی اتنی بڑھی کہ وہ ایک دوسرے کو سیکیورٹی رسک قرار دینے لگے یہ سلسلہ دو دہائیوںتک محیط رہا اس دوران قوم دوپارٹیوں میں تقسیم ہوگئی کبھی نوازشریف وزیر ِ اعظم بنے تو انہوںنے بے نظیر بھٹو کے ساتھ پورا آڈھالگائے رکھا ان کے خلاف نیب میں آمدن سے زیادہ اثاثے،کرپشن،اختیارات کے تجاوز کے درجنوںکیس بنائے ۔آج کے حلیف آصف زرداری کو مسٹر ٹین پرسنٹ کا خطاب دے کر ان کی کردار کشی کی گئی اور جب بے نظیر بھٹو وزیر ِ اعظم بنیں تو ہرسال میاںنوازشریف ضیاء الحق کی برسی کا اہتمام کرتے اس کی آڑمیں درحقیقت بینظیربھٹو کے خلاف ایک محاذ گرم کیا جاتا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ سازشوںکے ذریعے کرپشن کا الزام لگا کر دو مرتبہ حکومت گرائی گئی یہی حال بے نظیربھٹونے نوازشریف کے ساتھ کیا اسی الزام میں ان کی حکومت کا خاتمہ بھی کیا گیا ۔
مزے کی بات یہ ہے کہ دونوںنے ایک دوسرے کے خلاف درجنوں مقدمات قائم کئے جو چند ماہ پہلے آئینی ترامیم کے ذریعے ختم کرانے کی کوشش کی گئی اسی طرح سندھ حکومت اور وفاق کے مابین لڑائی بھی کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں،مسلم لیگ ن اور تحریک ِ انصاف کے ادوار میں بھی یہ کشیدگی اپنے عروج پر تھی اب لگتاہے تاریخ ایک مرتبہ پھر اپنے آپ کو دہرانے کی کوشش کرے گی کیونکہ اب وفاق میںپی ڈی ایم کی حکومت ہے ان کے سیاسی حریف اور ملک کے واحد اپوزیشن رہنماعمران خان جیل میں ہیں خیبر پی کے میں تحریک ِ انصاف کی حکومت ہے۔ پی ٹی آئی رہنمائوںکا کہناہے کہ ان کے لیڈر عمران خان کی کردارکشی کرکے ان کی شخصیت کو مسخ کیا جارہا ہے ۔ ان کے سیاسی مخالفین ہرقیمت پر عمران خان کو پاکستان کی سیاست سے مائنس کرنا چاہتے ہیں اس میں وہ وقتی طور پر کامیاب بھی ہو چکے ہیں کہ فی الوقت وہ اسمبلی سے باہر ہیں عمران خان کے خلاف توشہ خانہ کیس، قادر یونیورسٹی ،9مئی اور رینجرز اہلکاروں کی شہادت سمیت کئی مقدمات زیر ِ سماعت ہیں لیکن اس سے بھی انکار محال ہے کہ ان الزامات کے باوجود عمران خان پاکستان کے سب سے مقبول و ہردلعزیز سیاستدان ہیں جن کے حامیوں کو یقین ہے کہ عمران خان کے خلاف من گھڑت الزامات پرعوام کا شعور اور جذبہ ظلمت کے اندھیروں میں بھی امید کی شمع جلائے ہوئے ہے!!
بدترین فسطائیت کے دور میں بھی پاکستان کی غیور عوام نے جس طرح عمران خان کو پذیرائی دی ہے، وہ قابلِ تحسین ہے! جس ملک میں تھوڑے سے لوگ امیر جبکہ باقی غریبوں کا سمندر ہو، اور وسائل پر قابض طبقہ صرف ذاتی مفادات کو مدنظر رکھ کر پالیسیاں ترتیب دے، وہاں کبھی استحکام نہیں آسکتا جبکہ تحریک ِ انصاف کے مخالفین عمران خان کو پلے بوائے، یہودی ایجنٹ اور اسلامی ٹچ دینے والاڈرامے باز قراردیتے نہیں تھکتے اب وہ بھی موجودہ حکمرانوں کے ناقد بن کر اپوزیشن کا ساتھ دے رہے ہیں اس تناظرمیں عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی اورپی ٹی آئی کے وزیراعلی خیبر پختونخوا علی امین خان گنڈاپور نے کہا ہے کہ24نومبرکو اسلام آباد ڈی چوک میں تحریک ِ انصاف کے پر امن کارکنوں پر گولیاں برسائی گئیں12کارکن جاں بحق ہوئے سینکڑوں لاپتہ اور زخمی ہیں۔ پی ٹی آئی نے موجودہ حکومت کے رویہ کے خلاف سول نافرمانی کی تحریک چلانے کا عندیہ دیاہے لیکن ابھی ہم نے اس کاباقاعدہ اعلان نہیں کیا جس روز سول نافرمانی کی تحریک شروع ہوئی موجودہ حکومت کا دھرن تختہ ہو جائے گا ۔سیاسی مبصرین کا ان حالات پر تجزیہ ہے کہ عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی اور وزیراعلی خیبر پختونخوا علی امین خان گنڈاپور کی باتیں سیاسی محاذ آرائی کا نتیجہ ہیں ۔ ملک پہلے ہی نازک دور سے گزررہاہے لیکن یہ بھی کہاجارہاہے کہ الیکشن کمیشن ، شہبازشریف سرکار اور پیپلزپارٹی، بیوروکریسی اور حالات نے جو کچھ تحریک ِ انصاف کے امیدواروں،رہنمائوں اور بالخصو ص عمران خان کے ساتھ کیا ہے یہ نفرت کی سیاست ہے جو کسی طوربھی ملک وقوم کے مفادمیںنہیں ہے پاکستان کی وسیع تر مفادمیں محاذ آرائی سے بچناکیلئے دلوںکو وسعت دینے سے ہی حالات بہتر ہوسکتے ہیں کیونکہ معاشرے میں پہلے ہی عدم برداشت سے بہت مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ لوگ ذرا ذرا سے بات پر مرنے مارنے پر تل جاتے ہیں اسی لئے ایک دوسرے کا حق تسلیم کئے بغیر پاکستان ترقی کرسکتا ہے نہ معیشت کی حالت بہتر ہوسکتی ہے ۔پی ڈی ایم رہنمائوں کو وسیع قلبی کا مظاہرہ کرناہوگا کیونکہ ملک میں اب ان کی حکومت ہے۔ پی ٹی آئی کے کچھ تحفظات ہیں تو انہیں دور کیا جائے یہی سب کے حق میں بہتر ہے ۔تحریک ِ انصاف اور حکومت کے مابین مذاکرات انتہائی ضروری ہیں ، کوئی مذاکرات تب تک نیتجہ خیز ثابت نہیں ہوتے جب تک سیاسی قوتیں ٹی او آرز ڈسکس نہ کریں اور پھر وہ ٹی او آرز اسٹیبلشمنٹ سے ڈسکس کریں۔ ایک دوسرے کے لیے کبھی کوئی مثبت بات نہیں کی، میڈیا میں مذاکرات کی بات تواتر سے آرہی ہے لیکن وفاقی وزراء عطا اللہ تاڑڑ ،خواجہ آصف وغیرہ بڑے تند لہجے میں کہتے ہیں مذاکرات نہیں ہو رہے۔ فریقین ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچیں مذاکرات میں پہل کرنا حکومت کی ناکامی یا ہار نہیں ۔یہ ملک بہت سی قربانیاں دے کر حاصل کیا گیاہے مسلح افواج آج بھی انتہا پسندی، دہشت گردی اور سماج دشمن عناصر کے خلاف نبرد آزماہے ۔ان قربانیوںکے پیش ِ نظر قومی مفاہمت سے ہی مسائل حل کئے جاسکتے ہیں ۔وگرنہ نفرت کی سیاست کہیں ملک کو خانہ جنگی کی طرف نہ دھکیل دے خدانہ کرے۔ آج یہی سوچ سوچ کر ہمارے دل مضطرب ہیں ۔دل کا سکون نفرت کی سیاست کا خاتمہ ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں