شام کی کہانی
شیئر کریں
دریا کنارے /لقمان اسد
کیا یہ وہی شام ہے جہاں 2009 میں ایک رپو رٹ کے مطابق 6 ملین سیاح آئے۔ آج شام کو دیکھ کے ایسا گمان ہوتا ہے شاید زندگی کا یہاں سے کبھی گزر نہیں ہوا۔ہر طرف موت کے سائے منڈلاتے نظر آتے ہیں۔ شام کا شہر ایلیپو جو کہ یو نیسکو ورلڈ ہر یٹیج سائٹ ہے تبا ہی کا دردناک منظر پیش کر تا ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں ہونا چا ہیے کہ شام کا مسئلہ اس طر ح حل نہیں ہو سکتا کیو نکہ اس میں شکار صر ف عام شہری ہی ہوتے ہیںشام کی موجودہ صورتحال کا ایک پس منظر ہے ۔
2011 میں ہی یہ نام نہاد انقلابی تحریک مسلح بغاوت میں بدل گئی اور پوری دنیا پر بھی یہ بات آشکار ہوگئی کہ شام کا مسئلہ دراصل اندرونی نوعیت کا نہیں بلکہ بیرونی مداخلت کا نتیجہ ہے اور دہشت گردوں کا استعمال صرف اس لئے کیا گیا ہے تاکہ مزاحمت کی کمر توڑی جائے اور اپنے فیصلوں میں ایک آزاد اور خود مختار خیال کے حامل ملک شام کو بعض دیگر عرب ریاستوں کی طرح امریکہ اور مغرب کی کٹھ پتلی بنا دیا جائے۔چونکہ شام نے کبھی بھی امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی ہاں میں ہاں نہیں ملائی اور اسرائیل مخالف موقف اپناتے ہوئے ہمیشہ فیصلے اپنے لوگوں کا فائدہ دیکھ کر کئے، اس لئے بشار الاسد کی زیر قیادت شام کی حکومت ان کے راستے کا کانٹا بن گئی جس کو ہٹانے کیلئے انہوں نے دنیا بھر سے دہشت گردوں کو شام میں جمع کرکے انہیں مہلک ہتھیاروں سے لیس کیا اور یہی وجہ رہی کہ جنگ عظیم دوئم کے بعد سب سے زیادہ ہجرت ہوئی اور تین لاکھ سے زائد افراد کی جانیں تلف ہوئیں۔شام جو کہ انبیاء کی سر زمین بھی کہلاتا ہے ۔ وہ ایسے خو نی مسائل کا شکار ہوا کہ آ ج تک ہزاروں جا نیںقر بان کرنے کے با وجود کو ئی حل نظر نہیں آتا۔پر امن احتجاج کو خو نیں بنانے میں شام کے صدربشا ر الا سد کا بھر پور ہاتھ ہے جب مختلف ممالک میں عرب اسپر نگ کا آغاز ہو ا تو شام میں بھی جمہو ریت کے حامیوں نے پر امن احتجاج کا آ غاز کیا۔ اس پر امن احتجا ج کو حکو مت نے تسلیم نہ کیا اور لو گو ں کو پکڑنے کے بعد انہیں بدترین تشدد کا نشانہ بنا یا،قتل کیا گیا۔ اس کے نتیجے میں انسانیت و امن دشمنوں کو مو قع مل گیا اور پھر تقسیم در تقسیم ہو گئی۔مختلف گرو پس بن گئے۔شام میںکبھی فر قہ وارانہ تقسیم نہ تھی لیکن ان تضادات کے دوران فرقہ واریت کو بھی خو ب ہوا دی گئی۔ان حا لات میں عا لمی طا قتوں نے بھی بھر پور حصہ ڈالا۔ مسلمان مما لک نے آپس میں اس مسئلے کو حل کرنے کے بجا ئے فر قوں کی بنیاد پر گروپس بنا لئے۔ امر یکہ اور روس نے اس میں ان کا ساتھ دیا۔بشا ر الا سد کو ایران،لبنان کی حز ب اللہ اور عر اق کی حما یت جبکہ ترکی اور قطر بشا ر الا سد کے مخا لفین کی حما یت میں شام میں موجود ہیں۔اس سارے عمل میں داعش نے بھی اس دہشت ذدہ جنگ میں شام اور عر اق کو تبا ہی کے دہا نے پر پہنچا دیا۔
شامی حکومت کیلئے 2012 اور2013 کے سال انتہائی مشکل تھے جس دوران نہ صرف بڑی تعداد میں شہری ہلاکتیں ہوئیں بلکہ فوج کا قبضہ بھی آہستہ آہستہ سکڑنے لگا اور داعش، القاعدہ (موجودہ النصرہ فرنٹ)، احرار الشام اور نہ جانے کیسی کیسی درندہ صفت دہشت گرد تنظیمیں وجود میں آئیں جنہوں نے اپنے اپنے زیر قبضہ علاقوں میں نام نہاد خلافتیں قائم کرکے لوگوں کا بے دردی سے قتل کیا اور پچھلے کچھ برسوں میں ایسی دل دہلادینے والے ویڈیوز اور مناظر دیکھے گئے جن کی انسانی تاریخ میں کوئی مثال ہی نہیں ملتی۔پس منظر میں جھانکیں تو پچھلے سال کے اواخر میں ملک کے سب سے بڑے صنعتی شہر حلب کی دہشت گردوں کو شکست فاش دے کر آزادی حاصل کرنا تھا جب مغرب نواز میڈیا نے اپنے تمام تر وسائل کا استعمال کرتے ہوئے واویلا مچایا اور دنیا بھر میں یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ حلب شہر کا سقوط ہوگیا ہے۔ شام کے دشمن ممالک کی نظر میں اس ملک کے شہروں پر اقتدار کا جائز حق دنیا بھر سے آئے ہوئے دہشت گردوں کا ہے نہ کہ شام کی قانونی اور جمہوری حکومت کا۔
شام کے معاملے میں پروپیگنڈا تو بہت کیا گیا لیکن مسلمان یہ تک بھی نہیں سمجھ پائے کہ وہاں کون کس کا اتحادی ہے۔ یہ بات عام فہم ہے کہ جس فریق کو اسرائیل اور امریکہ جیسی غاصب حکومتیں مدد کررہی ہوں، وہ اسلامی اقدار کے منافی ہی کام کرے گا کیونکہ ان صہیونی اور سامراجی طاقتوں کا مقصد ہی مسلمانوں اور اسلام کو نقصان سے دوچار کرنا ہے۔دراصل شام میں دہشت گردوں کو جمع کرکے یہی مقصد حاصل کرنا مقصود تھا کہ اسلام کو کمزور کیا جائے اور اس جنگ کو شیعہ سنی کا نام دے کر دونوں فرقوں کو ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کیا جائے۔