میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
سپریم کورٹ کافیصلہ اور الیکشن کمیشن کی ذمہ داری

سپریم کورٹ کافیصلہ اور الیکشن کمیشن کی ذمہ داری

ویب ڈیسک
منگل, ۱۹ دسمبر ۲۰۲۳

شیئر کریں

حمیداللہ بھٹی

سپریم کورٹ کے فیصلے سے شبہات اور قیاس آرائیاں ختم ہو گئی ہیں۔ اب آئندہ برس آٹھ فروری کے عام انتخابات میں کوئی ابہام نہیں رہا۔ عدالتی احکامات کی روشنی میںالیکشن کمیشن نے بھی انتخابی شیڈول کا اعلان کر دیا ہے مگر کیا واقعی ملک میں غیر جانبدارانہ ،شفاف اور منصفانہ ایسے انتخابی نتائج سامنے آئیں گے جنھیں سب تسلیم کرلیں گے حالاتِ حاضرہ کی روشنی میں وثوق سے کچھ کہنا مشکل ہے کیونکہ کئی ایسے چیلنجز ہیں جو نگران حکومت کی جانبداری کی طرف اشارہ کرتے ہیں نگران حکومت کا حصہ کچھ چہرے تو انتخابی شیڈول جاری ہونے سے قبل اپنے عہدوں سے مستعفی ہوئے تاکہ انتخابات میں حصہ لے سکیں مگراب بھی کئی نگرانوں کی جانبداری عیاں ہے جو نتائج کے بعد تشکیل پانے والی حکومت سے عہدوں کی شکل میں نوازشات اور مراعات کے لیے منصبی فرائض کے منافی سرگرمِ عمل ہیں جس کی وجہ سے کئی چہرے چہیتے اور جماعتیں اگر نگران سیٹ اَپ کی منظورِ نظر ہیں تو کچھ چہرے اور جماعتیںلیول پلیئنگ فیلڈ نہ ملنے پر شکوہ کناں ہے ماضی میں بھی عام انتخابات کے نتائج کے حوالے سے ہماری تاریخ کچھ زیادہ خوشگوار اور شاندار نہیںجس کی وجہ سے ملک میں سیاسی عدمِ استحکام ہے، اب بھی جس قسم کے حالات ہیں اور جس طرح کسی پر نوازشات اور کسی کومحدود کرنے پرکام ہورہاہے سے خدشہ ہے کہ شاید ہی نتائج کودرست تسلیم کیاجائے نیز بعد ازانتخابات کسی بڑی تحریک کے امکان کو رَد نہیں کیا جا سکتا۔
انتخابی عمل میں خامیوں کے تناظر میں کسی جماعت یا سیاسی رہنما کو شکایت ہوناقابلِ فہم ہے اور ایسی شکایات ہونا بعید ازامکان نہیں لیکن سارے انتخابی نتائج پر اثر اندازہونادھاندلی کہلاتا ہے اِس سے لاڈلے کا تاثر بنتاہے ایک تو کمزور جمہوری اقدارہیں دوسرایہ کہ سیاستدان الزام تراشی کو طول دیکر مخالف کی اِس حدتک تذلیل کرتے ہیں کہ حکمران ملک و قوم کی خدمت کرنی کی بجائے اپنی صفائیاں دینے تک محدود ہوکررہ جاتے ہیں۔ الزام تراشی کا مقصدبھی انصاف نہیں مخالف کو عوام کی نظروں سے گرانا ہوتا ہے مگر وقت نے ثابت کردیاہے کہ یہ طرزِ عمل ٹھیک نہیں تذلیل کے عمل سے نہ صرف فیصلوں میں تسلسل نہیں رہابلکہ معاشی گراوٹ میں بھی اسی طرزِ عمل کاکلیدی کردار ہے اب تو سیاستدانوں میں رواداری اور برداشت کاجذبہ بھی ماند پڑنے لگا ہے۔ ملک میں الزام تراشی اور گالی گلوچ کا کلچرپہلے ہی خطرناک تھا، اب تو انتخاب بھی ایسے حالات میں ہونے جارہے ہیں کہ نہ صرف ایک سے زائد جماعتیں بے اطمنانی کا شکار ہیں بلکہ پہلی بارقبل ازوقت انتخابی نتائج کے متعلق دعوے سنے جارہے ہیں کیونکہ واضح طورپرایک مخصوص جماعت اور اُس کے اتحادیوں کو فتح دلانے کاتاثرہے۔ مرکز اور صوبوں میں اتحادی حکومتیں بنوانے کے لیے منقسم مینڈیٹ لانے کے خدشات قوی تر ہورہے ہیں جس سے اندیشہ ہے کہ انتخابات کے باوجودنہ صرف سیاسی استحکام کی منزل محال رہے گی بلکہ معیشت بہتر بنانے کا مقصد بھی شاید ہی حاصل ہو ۔
منصفانہ ،غیر جانبدارانہ اور شفاف انتخابات سیاسی استحکام کے لیے ناگزیر ہیں تاکہ عوامی تائید سے منتخب قیادت اعتماد سے ایسے فیصلے کر سکے جن سے نہ صرف قرضوں کے بوجھ میں کمی آئے بلکہ عام شہریوں کے مسائل بھی حل ہوں اگر جانبدارانہ فیصلے ہوں گے اور ناپسندیدہ جماعتوں کو دیوار سے لگانے اور مخصوص لوگوں کو منتخب کرایاجائے گا تو حکومتیں تشکیل دینے والی قیادت دلیرانہ فیصلوں کی صلاحیت سے محروم اور منتخب کرانے والی قوتوں کی احسان مندہوکررہ جائے گی اور تابع فرمان بن کرحکومت کرنے کی کوشش کرے گی ایسی قیادت جلد عوامی نفرت کا شکار ہوجاتی ہے اِس لیے بہتر ہے کہ عوام کو نمائندے منتخب کرنے کی آزادی دی جائے یادرہے کہ مقبول قیادت ہی سیاسی استحکام کا باعث بنتی ہے غیر مقبول اور ناپسندیدہ چہرے اگر اقتدار میں آبھی جائیں تو عوام کے حقیقی اعتمادسے محروم ہونے کی بناپر انجام کار خودبھی عوامی نفرت کا شکارہوتے ہیں اور مہربانوں کی ساکھ کے لیے مُضرثابت ہوتے ہیں اندرونی اور بیرونی حالات کا تقاضہ ہے کہ ایک اور نیا تجربہ کرنے کی بجائے عوام کوبغیر کسی دبائو کے آزادانہ طوراپنے نمائندے منتخب کرنے کا حق دیا جائے تاکہ نتائج سبھی کے لیے قابلِ قبول ہوں۔
زمینی حقائق یہ ہیں کہ جمہوریت اور جمہوری عمل کے باوجود اگریہ کہیں کہ ملک میں سیاسی استحکام ناپید ہے تو یہ قرین انصاف ہے اِس کی ایک اہم وجہ سیاستدانوں کی باہمی محاز آرائی اور بے لچک رویے بھی ہیں جس سے نہ صرف ملک حقیقی جمہوریت سے دور ہے بلکہ مسائل کی بڑی وجہ بھی یہی ہے اب بھی کئی جماعتوں نے تو بات چیت تک کے دروازے ایک دوسرے کے لیے سختی سے بند کررکھے ہیں جو سیاسی تنائو باعث ہے بہتر جمہوری ماحول کے لیے لازم ہے کہ سیاسی جماعتوں کی اصلاح کی جائے ہمارے وطن میں یہ روایت پختہ ہو گئی ہے کہ انتخابی بیانیہ یا منشور کواہمت ہی نہیں دی جاتی، بظاہر سیاسی جماعتیں معاشی منصوبہ بندی سے تہی لگتی ہیں اور سبھی اقتدار کے لیے انتخابی میدان میں اُترتیںاور پھر بدعنوانی جیسی رسوائیاں سمیٹ کر رخصت ہو جاتی ہیں۔ بارباربدنامیاں لیکررخصت ہونے کے باوجودیہ اپنی خامیاں تسلیم دور کرنے سے زیادہ مخالف فریق کو رگیدنے پر ہی توجہ دیتی ہیں۔ اگر الزام تراشی کی بجائے ایک دوسرے کے مینڈیٹ کا حترام کریں اور تعمیری نکتہ چینی کریں تو ملک میں کبھی ڈیڈلاک کا رجحان نہ ہواور نہ ہی جمہوری قدریں کمزور ہوں ۔اگر بات چیت سے سب کے لیے کسی قابلِ قبول حل پر اتفاق کر لیں تو ہر معاملا عدالت میں لے جانے کی حوصلہ افزائی نہ ہو، بدقسمتی سے اپنی خامیاں ،کوتاہیاں دور نہیں کی جاتیں بلکہ عدالتوں کو سیاسی مقدمات جلد سننے پر مجبور کیا جاتا ہے جو نظام ِ انصاف میں سستی کا موجب ہے یہ بہتر روش نہیں ۔
آٹھ فروری کے انتخابات کے حوالے سے سپریم کورٹ کے بروقت نوٹس سے ہی ا لیکشن کمیشن نے شیڈول جاری کیا ۔ایسا نہ ہوتا تو شاید سیاسی بے چینی کو مزید فروغ ملتا ۔بروقت عدالتی احکامات سے کئی سیاسی قباحتوں کا خاتمہ ہو گیاہے۔ اب یہ سیاسی قیادت کی ذمہ داری ہے کہ وہ انتخابی عمل کو آزادانہ اور منصفانہ بنانے میں معاونت کریں تاکہ نہ صرف جمہوری اقدار مضبوط ہوں بلکہ منتخب قیادت یکسوئی سے ملکی بھلائی کے لیے فیصلے کر سکے مگر اِس کے لیے لازم ہے کہ سیاسی جماعتیں جائز و ناجائز طریقے سے اقتدار حاصل کرنے پرتوجہ دینے کی بجائے مثبت اور تعمیری کردار اداکریں۔ انتخابی عمل کے دوران کردار کشی اور الزام تراشی سے پرہیزنیز قومی و عوامی مسائل کے حوالہ سے ایسا منشور پیش کریںجس سے ووٹروں میں یہ خیال راسخ ہو کہ سیاسی قیادت کو نہ صرف اُن کے مسائل کا مکمل ادراک ہے بلکہ حل کرنے میں بھی سنجیدہ ہیں، اگر جانبداری اور نوازشات کاسلسلہ جاری رہااور سیاسی قیادت کھلونا بنی رہی تو مجھے کہنے دیں کہ انتخابی نتائج پرشور اُٹھے گااور2018 کے انتخابی نتائج جیسا ہی فروری کے انتخابات کابھی حشر ہوگا۔ نیز تشکیل پانے والی حکومتیں عوامی تائیدو حمایت نہ ہونے کی بناپر غیر موثررہیں گی۔ سپریم کورٹ نے تو آٹھ فروری کو عام انتخابات بارے واضح حکم جاری کر دیاہے۔ اب یہ الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ وہ چنائو کے روز انتخابات کی شفافیت یقینی بنائے اور اِس حوالے سے نگران حکومتیں معاونت کریں ۔اِس کے لیے ضروری ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کے امیدواروں کو بلا امتیاز انتخابی مُہم چلانے کے لیے یکساں سازگار ماحول یقینی بنایا جائے۔ اگر پسندیدہ جماعتوں کو انتخابی سرگرمیوں کی آزادی اور بقیہ کے امیدواروں کو خوف و ہراس سے دوچار رکھا جائے گا تو مجھے کہنے دیں شفاف انتخابات کا مقصد پورانہیں ہو گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں