نابالغ کی عارضی ومستقل حوالگی کا پاکستانی قانون
شیئر کریں
پی ایل جے (دوسری قسط)
1982 (Lah کے مطابق لاہور ہائی کورٹ نے یہ قرار دیا ہے کہ اگر نابالغ یا نابالغہ کی زندگی یا صحت کو خطرات درپیش ہوںتوا ِس کا مطلب یہ ہے کہ یہ معاملہ ار جنٹ نوعیت کا ہے۔ PLD 2008 Kar 198 کے مطابق سندھ ہائی کور ٹ نے یہ قرار دیا کہ نابا لغ یا نابالغہ جو کہ اپنی ماں کے پاس رہتے ہیں ماں اپنے تین بھائیوں کے ساتھ رہتی ہے۔اِن تین بھائیوں میں سے ایک سزا یافتہ ہے باپ کی فیملی کا ماحول بچووں کی نشو نماء کے لیے بہت بہتر ہے باپ کے پاس بچوں کی پرورش کے لیے وسائل بھی بہتر ہیں.۔ اِس لیے نابا لغ یا نابالغہ کو باپ کے حوالے کر دیا جائے۔
1997 P Cr LJ 1251 کے مطابق بچوں کی ماں وفات پاء گئی ہے۔ اُنھیں کسی غیر محرم کے ساتھ جانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔ بچیاں اپنے ماموں کے ساتھ رہ رہی ہیں ۔ گارڈین کورٹ کوچاہیے کہ وہ شہادتیں ریکارڈ کرنے کے بعد بچیوں کی فلاح و بہبود کو مد نظر رکھتے ہوئے اُن کی حوالگی کا فیصلہ کرئے ۔ بچیوں کا اپنے ماموں کے پاس رہنا غیر قانونی یا غیر موزوں نہیں ہے۔
1998MLD 1996 کے مطابق محمڈن لاء میں یہ قرار دیا گیا ہے ماں کی غیر موجودگی میں نانی کو باپ کے مقابلے میں نابا لغ یا نابالغہ کی حضانت / حوالگی کے معاملے میں ترجیحی حق حاصل ہے۔
PLD 2004 SC-1 کے مطابق سپریم کورٹ نے یہ قرار دیا کہ باپ کی حضانت میں نا بالغاں کی موجودگی سیکشن 491 Crpc میں نہیں آتی لیکن عدالت کا یہ فرض ہے کہ وہ بچوں کے حقوق کی حفاظت کر تے ہوئے بہتر انداز میں فیصلہ کرئے۔ 2000MLD 351 کے مطابق دودھ پیتے بچے کو غیر قانونی کسٹڈی میں رکھا ہو تو ماں کی تحویل میں دیا جانے ماں کا تر جعیی حق ہے۔ 1996 P.cr.LJ کے مطابق ہائی کورٹ کو دودھ پیتے بچے کی حوالگی کے معاملے میںسماعت اختیار حاصل ہے۔ لیکن بچے کی حوالگی کا حتمی فیصلہ گارڈین کورٹ میں سماعت کے بعد ہی ہوگا۔
2264MLD 2264 کے مطابق ہائی کورٹ کا یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ نا بالغ/ نا بالغہ کی حوالگی کے کیس کی سماعت کرئے۔
1997MLD 197 کے مطابق یہ قرار دیا گیا ہے کہ اگر نا بالغ/ نا بالغہ کی حوالگی کی بابت کوئی معائدہ کیا جائے تو وہ قابل نفاذ نہ ہوگا۔ اِس پر عمل در آمد نہ ہوسکتا ہے۔
000SCMR 1804 کے مطابق سپریم کورٹ نے اِس کیس میں فیصلہ کیا کہ گارڈین کورٹ میں ابھی کیس زیر سماعت تھا کہ باپ بچے کو ملنے کی سہولت کے دوران وقت میںبچے کو بیرون ملک لے گیا۔ والد اور اُس کے ساتھیوں کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی۔ سپریم کورٹ نے باپ کے ساتھیوں کی ضمانت کی درخواست کی سماعت کے دوران ازخود نوٹس لیتے ہوئے بچے کو بیرون ملک سے بازیاب کروانے کے لیے اعلیٰ حکام کو حکم دیا ۔ اعلیٰ حکام نے بچے کو بیرون ملک سے بازیا ب کرو الیا اور بچے کو اُسکی ماں کے حوالے کردیا۔ سپریم کورٹ نے یہ حکم دیا کہ گارڈین کورٹ بچے کی حوالگی کے حوالے سے فیصلہ کرئے کہ اِس نے کس کے پاس رہنا ہے۔
اوپر درج کردہ ریسرچ کی بنیاد خالصتاً سیکشن بارہ گارڈین اینڈ وارڈ ایکٹ کے ریفرنس سے بیان کی گئی ہے اب ہم سیکشن 25 گارڈین اینڈ وارڈ ایکٹ کے حوالے سے بحث کرتے ہیں۔
سیکشن 25 گارڈین اینڈ وارڈ ایکٹ 1890 کے مطابق (1) اگر کوئی بچہ یا کوئی ذہنی طور پر متاثرہ شخص یا کوئی شخص جسے عدالت نے اُس کی پروٹیکشن کے لیے گارڈین کے حوالے کیا ہو اور وہ اُس گارڈین کو چھوڑ جائے یا اُسے کوئی لے جائے۔ تو اُ س وارڈ کی ویلفیر کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ گارڈین کی تحویل میں رہے تو عدالت اُسے اُسی گارڈین کی تحویل میں واپس دئیے جانے کا حکم صادر کر سکتی ہے۔ اِس مقصد کے لیے وارڈ کو گرفتار کرکے بھی عدالت میں پیش کرنا پڑئے تو عدالت اِس کا حکم فرما سکتی ہے۔
(2 اگر وارڈ کو گرفتار کرکے گارڈین کی تحویل میں دینا ہو تو گارڈین کورٹ کے پاس مجسٹریٹ درجہ اول کے اختیارات جو کہ Cr.pc 1898 کے سیکشن 100 کے تحت ہوتے ہیں اُن کو استعمال کیا جاسکتا ہے۔
(3 اگر کوئی وارڈ اپنے گارڈین کی مرضی کے خلاف کسی اور شخص کے ساتھ رہائش پذیر ہو تو اُس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ گارڈین کی گارڈین شپ ختم ہو گئی ہے۔ سیکشن25 کا تعلق وارڈ کی حوالگی کے متعلق ہے۔ اگر وارڈ گارڈین کے پاس سے خود چلا جائے یا گارڈین کی کسٹڈی سے کوئی لے جائے تو وارڈ کی حوالگی کے متعلق یہ دیکھاجائے گا کہ وارڈ کی فلاح و بہبود کس میں ہے۔
1989 ILJ 214 Comp41 کے مطابق سیکشن 25 اِس وقت تک پلائی نہیں ہوتا جب تک کہ یہ ظاہر نہ ہوجائے کہ نابالغ کو گارڈین سے چھین لیا گیا ہے یا وہ خود چلا گیا ہے۔
2000MLD 1261 کے مطابق صرف اِس بناء پر کہ نا بالغ کی سات سال عمر ہوگئی ہے اور اُس کی گاردین شپ تبدیل کردی جائے۔ نا بالغ اپنی ماں کی تحویل میں اچھی تعلیم حاصل کر رہا ہے اور اُس کی صحت بھی اچھی ہے ۔ بچے کو باپ کے حوالے کیا جانا بچے کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ عدالت عالیہ کے مطابق گاردین اینڈ وارڈ ایکٹ 890 کے سیکشن 25 کے تحت مندرجہ ذیل اصول بچے کی حوالگی کے حوالے سے مدِ نظر رکھنا پڑتے ہیں۔
(aباپ بچے کا قدرتی طور پر گارڈین ہے بچہ بے شک ماں کی تحویل میں ہو پھر بھی باپ کو یہ حق حاصل ہے اور اِس کا یہ فرض بھی ہے کہ وہ بچے کی نگرانی اور کنٹرول کی بابت اپنا کردار ادا کرئے۔
b) باپ کا یہ فرض ہے کہ وہ بچے کے تمام اخراجات ادا کرئے بے شک بچہ اپنی ماں کے پاس رہ رہا ہو۔ خاص طور پر جب عدالت نے یہ حکم دیا ہو کہ وہ بچے کا خرچہ ادا کرئے ا گر وہ بچے کے اخراجات ادا نہیں کر تا تو عدالت اُس شخص کی جانب سے بچے کی حوالگی کا دعویٰ کرنے سے اُس شخص کو نا اہل قرار دے سکتی ہے۔ اِسکے باوجود کے بچے نے ماں کے پاس رہنے کیمدت پوری کر لی ہو۔
(c ماں بے شک غریب ہے لیکن اگر وہ بچوں کی اچھی طرح دیکھ بھال کر رہی ہے۔ اُن کو بہتر طریقے سے تعلیم دلا رہی ہے اور خاتون نے طلاق کے بعد دوسری شادی بھی نہیں کی۔ مرد نے دوسری شادی بھی کر لی ہو تو عورت کا یہ زیادہ حق بنتا ہے کہ وہ بچے اپنے رکھے۔
2004 CLC 228 کے مطابق گار ڈین کورٹ نے والد کی طرف سے سیکشن پچس کے تحت بچے کی حوالگی کی درخواست منظور رکر لی ۔ اور اپیلٹ کورٹ نے نے ٹرائل کورٹ کا حکم ختم کر دیا۔ہائی کورٹ نے بھی اپیلٹ کورٹ کا حکم بحال رکھا کہ چھوٹی عمر کے بچے کو ماں سے علحیدہ کرنا ظلم ہے بچے کی فلاح و بہبود میں ذہنی سماج روحانی بہبود بھی شامل ہے۔
1979 CLC کے مطابق شیعہ فیملی قوانین کے تحت نابالغ کی فلاح و بہبود باپ کے پاس حوالگی میں ہے۔ 2005CLC 817 کے مطابق اگر کوئی شخص اپنا مذہب تبدیل کر لیتا ہے تو اُسے فیملی قوانین بھی تبدیل ہو جاتے ہیں یوں نئے فیملی قوانین ہی بچوں کی وراثت کا تعین کریں گے۔
2009MLD736ے مطابق باپ نے ماں کو طلاق دے دی اور بیرون ملک چلا گیا اور دوسری شادی کر لی جبکہ مان نے دوسری شادی نہ کی نا بلغان اپنی ماں کے پاس ہی رہ رہے ہیں۔ اور اُن کی ماں اچھے ادروں میں اُن کو تعلیم دلا رہی ہے اُن کی اچھی طرح دیکھ بھال بھی کر رہی ہے۔ بچوں کی فلاح و بہبود کے لیے بہتر ہے کہ وہ ماں کے پاس رہیں۔YLR 926 2013کے مطابق باپ نے دوسری شادی کر لی ماں نے اپنی باقی زندگی اپنے بچے کے لیے صرف کردی حقیقی ماں سے بچہ لے سٹیپ ماں کے حوالے نہیں کیا جاسکتا۔بچہ پیدائش سے لے کر گیارہ سال تک کی عمر تک ماں کے پاس ہے اگر بچے کو سٹیپ ماں کے ھوالے کیا گیا تو بچے کے لیے ذہنی نفسیاتی مسائل پیدا ہوجائیں گے۔ بچے کی فلاح و بہبود کے لیے یہ بہتر نہ ہے ماں کی گود خدا کی گو دہے ۔ صرف ماں کی غربت کی وجہ سے بچے کو ماں سے علیحدہ نہیں کیا جاسکتا۔
راقم نے بطور طالب علم نابالغان کی تحویل کے حوالے سے پاکستانی قوانین کی بنیاد پر ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے جتنے بھی فیصلہ جات کا مطالعہ کیا ہے اور اِس حوالے سے اِس آرٹیکل میں جتنے بھی ریفرنسز پیش کیے ہیں اُن تمام میں ایک بات ہی اہم ہے کہ نا بالغان کی حوالگی کے حوالے سے کوئی تکنیکی یا ہارڈ اینڈ فاسٹ قانون نہیں ہے بلکہ حالات و واقعات کے تحت عدالت نے صرف اور صرف نا بالغان کی ویلفئیر دیکھنا ہوتی ہے کہ ماں یا باپ یا کسی بھی اور شخص کو بچے کی گارڈین شپ دی جائے یا اُس کی جا ئیداد کے حوالے سے کسی کو گاردین مقرر کیا جائے ۔ مقصد صرف نا بالغان کی ویلفیئر ہے۔ (ختم شد)