میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
بے عمل مجلس کے بحالی

بے عمل مجلس کے بحالی

منتظم
منگل, ۱۹ دسمبر ۲۰۱۷

شیئر کریں

اکتوبر (دوسری قسط)
2002 کے انتخابات سے قبل دینی جماعتوں کا ایک اتحاد وجود میں آیا جس میں جماعت اسلامی جمعیت علماء اسلام (ف) جمعیت علماء پاکستان ، جمعیت علماء اسلام (س) جمعیت اھلحدیث مولانا اعظم طارق کی سپاہ صحابہ اور علامہ ساجد نقوی کی تحریک اسلامی شامل تھیں گویا یہ اتحاد ابتداء ہی سے تضادات کا مجموعہ تھا جس میں سب سے بڑا تضاد سپاہ صحابہ اور اسلامی تحریک کا یکجا ہونا تھایہ پہلا موقعہ تھا جب فقہ جعفریہ سے تعلق رکھنے والی اسلامی تحریک کسی ایسے اتحاد کا حصہ تھی جس میں پیپلز پارٹی شامل نہیں تھی ورنہ یہ تصور عام تھا کہ اس مسلک سے تعلق رکھنے والے پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے ساتھ ہیںمتحد ہ مجلسی عمل نے جہاں یہ تاثر زائل کیا وہیں فرقہ وارانہ اختلافات کی شدت میں بھی کافی کمی آئی اس اتحاد کے پلیٹ فارم سے پہلی مرتبہ دینی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے افراد بڑی تعداد میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کا حصہ بنے اتحاد کے سربراہ علامہ شاہ احمد نورانی نے عام انتخابات میں حصہ نہیں لیا تھا اور بعد ازاں سینٹ کے رکن منتخب ہوئے تھے قاضی حسین احمد قومی اسمبلی کے رکن اور اتحاد کے جنرل سیکریٹری تھے انہوں نے ایثار کا مظاھرہ کرتے ہوئے اپنے دیرینہ دوست مفتی محمود کے فرزند مولانا فضل الرحمان کو قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف بنوا دیا۔
2007میں جب جنرل مشرف نے اس وقت کی اسمبلی سے ہی ایک مزید مدت کے لیے صدر منتخب ہونے کا فیصلہ کیا تو متحدہ مجلس عمل کی قیادت نے اس کا راستہ روکنے کے لیے شمال مغربی سرحدی صوبہ ( اب کے پی کے) کی اسمبلی کی تحلیل کا فیصلہ کیا کہ اس ایک اسمبلی کی عدم موجودگی کے باعث صدارتی انتخاب کا الیکٹرول کالج ختم ہو جاتا اس وقت متحدہ مجلس عمل کی ایک جماعت جمعیت علماء اسلاف (ف) کے اکرم درانی اس صوبہ کے وزیر اعلیٰ تھے اور انہوں نے ہی گورنر کو اسمبلی کی تحلیل کا مشورہ دینا تھا لیکن انہوں نے اس مشورہ کی تاریخ کا اعلان کر کے صوبہ میںحزب اختلاف جس کے سینئر رھنما سو مرتبہ مشرف کو منتخب کرانے کے عزم کا اظہار کر تے نہیں تھکتے تھے کو موقعہ فراہم کردیا کہ وزیر اعلیٰ کی مشورہ سے قبل وزیر اعلیٰ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لا کر اس اسمبلی کو صدارتی انتخاب سے قبل تحلیل ہونے سے بچاتے ہوئے صدارتی انتخابات کے الیکٹرول کالج کو برقرار رکھے مولانا فضل رحمان ایک تجربہ کر سیاستدان ہیں اور اس وقت نہ صرف وہ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف تھے بلکہ ایم ایم اے کے جنرل سکریٹری بھی اور اس ائینی صورتحال کا ادراک رکھتے تھے اور وزیر اعلیٰ اکرم دورانی کے اقدامات ان ہی کی منظوری کا نتیجہ تھے گویا مولانا فضل الرحمان نے مفادات پر دینی اتحاد کو قربان کردیا یہاں یہ ذکر بھی غیر ضروری نہ ہوگا کہ شمال مخربی سرحدی صوبہ میں ایم ایم اے کی حکومت تھی لیکن اس صوبہ میں بھی ایم ایم اے کی منشور کے ان حصوں پر بھی عمل نہیں کیا گیا جن پر صوبائی سطع پر بھی عمل کیا جا سکتا تھا اس کے باوجود کہ حکمت عملی کا انکشاف وزیر اعلیٰ نے کیا تھا اسمبلی کے تحلیل نہ ہونے کا ملبہ جماعت اسلامی کے اسپیکر پر ڈالنے کی کوشش کی گئی۔
اس وقت کے پی کے میں جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کی مخلوط حکومت قائم ہے جس نے کس حد تک اپنے اہداف بھی حاصل کیے ہیں 2013کے انتخابات میں جمعیت علماء اسلام (ف) کو ان حلقوں میں بھی شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا جو اس کے دائمی حلقے کہلاتے تھے جمعیت علماء اسلام (ف) کے قائد بھی بمشکل تمام اپنی نشست بچا نے میں کامیاب ہوئے تھے ان انتخابات کے نتائج اور بعد ازاں تحریک انصاف سے اتحاد کی کوششوں میں ناکامی اور تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کی حکومت کی کامیابیوں نے جمعیت علماء اسلام اور اے این پی کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے اے این پی ممکنہ طور پر مسلم لیگ (ن) سے اتحاد کرلے جمعیت علماء اسلام (ف) اس وقت بھی مسلم لیگ (ن) کی اتحادی ہے لیکن نواز شریف کی نااہلی اور ختم نبوت کے معاملہ پر حکومتی اقدامات نے اس کے اتحادیوں کی راہ میں تقریبا ناقابل عبور روکاوٹیں کھڑی کردی ہیں پھر مسلم لیگ (ن) اندرونی انتشار کا شکار بھی ہے ان حالات میں جمعیت علماء اسلام(ف) کو اپنی کشتی ڈوبتی نظر آرہی ہے مولانا سمیع الحق کی جمعیت علماء اسلام کے تحریک انصاف کے ساتھ اتحاد نے مولانا فضل الرحمان کی پریشانیوں میں بے پناہ اضافہ کردیا ہے اور اگر جماعت اسلامی بھی جمعیت علماء اسلام (س) کے ساتھ تحریک انصاف کی انتخابی اتحادی بن جائے تو نہ صرف جمعیت علماء اسلام (ف) کی شکست یقینی ہے بلکہ بحرانوں میں گھری مسلم لیگ (ن) کے لیے مزید مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں ان حالات میں مولانا فضل الرحمان نے اپنی اور اپنے اتحادی کے بچاو کے لیے کسی بھی حد تک جانے کے لیے تیار ہیں مولانا فضل الرحمان ہاتھ پاوٗں مار رہے ہیں لیکن اس میں جماعت اسلامی کی قیادت اور اس کے امیر سراج الحق کی فراست کا امتحان ہے حدیث مبارک ہے کہ مومن ایک سوراخ سے دوبار نہیں ڈسا جاتا ہے کیا جماعت اسلامی ایک مرتبہ مزید دھوکہ کھانے کے لیے تیار ہے یہ تو وقت ہی بتائے گا آخری اطلاعات کے مطابق متحدہ مجلس عمل بحال ہوگئی ہے لیکن کہیں یہ مولانا فضل الرحمان کی چال تو نہیں کہ جماعت اسلامی کو تحریک انصاف سے جدا کر کے مسلم لیگ (ن) کے لیے آسانیاں پیدا کی جائیں ۔ متحدہ مجلس عمل کی بحالی میں بنیادی نکتہ نظر انداز کردیا گیا ہے جمعیت علماء پاکستان کے ایک دھڑے کو جس کی قیادت علامہ شاہ احمد نورانی ؒکے قریبی رفیق صاحبزادہ ڈاکٹر ابو الخیرمحمد زبیر کر رہے ہیں کو شامل نہیں کیا گیا ہے وہیں کے پی کے میں موثر اثرورسوخ رکھنے والی جمعیت علماء اسلام (س) کو بھی نظر انداز کیا گیا ہے جس کے نتیجہ میں اس اتحاد کی بحالی کے وہ ثمرات حاصل نہیں ہو سکیں گے جن کے لیے علامہ شاہ احمد نورانی ؒ اور قاضی حسین احمد ؒ کی کاوشوں سے یہ اتحاد قائم ہوا تھا مولانا فضل الرحمان کے لیے تو یو ٹرن لینا کوئی اجنبی بات نہ ہوگا کہ وہ اتنے یو ٹرن لے چکے ہیں کہ جن کی تعداد شاید انہیں بھی یاد نہ ہو لیکن وہ اپنے ہر یو ٹرن کی منطقی دلیل بھی رکھتے ہیں کہ منطق ان کے گھر کی لونڈی ہے وہ جیسے چاہیں اسے استعمال کریں۔ (ختم شد)


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں