کالا کالی ،کارو کاری ،سیاہ کاری،طور طورہ ‘ ہر قتل، قتلِ غیرت ہے
شیئر کریں
سیمل راجہ
خاندان ایک ایسے خطِ مستقیم کا نام ہے جس کے ایک سرے پر مرد اور دوسرے سرے پر عورت کھڑی ہے۔ ان دونوں انتہاؤں کے بیچ میں جو خلا ہے، وہ تمام رشتے ناتوں، مرد و عورت کی ذمے داریوں، حقوق و فرائض کا تعین اور مرد و عورت کے کردار و عمل کی حدود سے پْر کر دیا گیا ہے۔ یہ تمام حیثیتیں تسبیح کے ان دانوں کی طرح ہیں کہ اگر اس کی ڈور ٹوٹ جائے تو تمام دانے بکھر جاتے ہیں۔ اسی طرح اگر مر د یا عورت اپنی صحیح حیثیت اور اپنے اصل مقام سے ہٹ کر کسی گم راہ کن فلسفے سے متاثر ہوکر یا اپنے خود ساختہ نظریات کی تکمیل میں اپنی راہ کھو بیٹھے تو اس کی بربادی کو کوئی نہیں روک سکتا۔
دنیا کے 50 سے زائد ممالک میں ہرسال ہزاروں عورتوں کو خاندان کی عزت و آبرو کے تحفظ کے نام پر ان ہی کے عزیز وں کی جانب سے قتل کیا جاتا ہے۔ قاتلوں شائد یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی شناخت خاندان کے نام سے جڑی ہے لہذا جب بھی خاندان کو بدنامی کا اندیشہ ہوتا ہے رشتے دار قاتل بن جاتے ہیں اور ان کوبدنامی سے سے بچنے کا واحد حل قتل دکھائی دیتا ہے۔ قتل کی یہ رسم برصغیر پاک و ہند سمیت عرب ممالک میں بھی موجودہے۔ انسانی حقوق کے علمبردارغیر مسلم ممالک میں بھی ہر سال ہزاروں عورتوں کو قتل کیا جاتا ہے۔ پاکستان کے چاروں صوبوں کے قبائل کے خیال میں اس طرح کا قتل نہ صرف جائز بلکہ اچھا عمل ہے لہذا اسی سوچ کے تحت حوا کی بیٹی کے قتل کی یہ رسم پائی جاتی ہے۔ سیاہ کاری،کاروکاری یا غیرت کے نام پر قتل کرنے کا دستور بہت قدیم ہے۔علاقائی زبانوں کے مطابق دئیے گئے نام ایک دوسرے سے مختلف ضرور ہیں مگر اسکے نتیجے میں قتل صرف ایک عورت ہی ہو تی ہے۔
وطن عزیز کے صوبہ بلوچستان میں ’’سیاہ کاری‘ ، سندھ میں ’’کاروکاری‘ پنجاب میں’’کالا کالی‘‘ اور خیبرپختون خواہ میں ’’طور طورہ‘‘ کے نام سے مشہورعورت کے قتل کی یہ رسم صدیوں سے جاری ہے اور نہ جانے اب تک کتنی خواتین کو اس رسم کاشکارہو کر اپنی قیمتی جانوں سے ہاتھ دھونہ پڑے۔ کالے رنگ کے مفہوم کی حامل یہ اصطلاحات زناکاری اوراس کے مرتکب ٹھہرائے گئے افراد کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔سیاہ اس شخص کو کہتے ہیں جس پر نکا ح کے بغیر جنسی تعلق رکھنے کا الزام لگایا گیا ہو۔ یا اپنے نکاح والے شوہر کے علاوہ کسی اور سے جنسی تعلق رکھنے والی عورت کو سیاہ یا سیاہ کار کہتے ہیں۔اور ایسے مجرم کو قتل کرنے کے عمل’’کو قتلِ غیرت‘‘ اور انگریزی میں ’’Honour Killings‘‘کہتے ہیں۔کاروکاری اور قتل غیرت میں محض معمولی سا فرق ہے۔ کاروکاری میں قبیلے یا خاندان کے بڑے جمع ہوکر ایک جرگے کی صورت میں قتل کا فیصلہ سناتے ہیں اور پھر قتل کیا جاتا ہے۔ جبکہ قتل غیرت میں خاندان کا کوئی فرد از خود غیرت میں آکر بغیر کسی جرگے کے قتل کردیتا ہے۔ یہاں یہ امر قابل غور ہے کہ غیرت کے نام پر جب بھی کوئی قتل ہوتا ہے تو قتل کے فریق قبائلیوں، ودیڑوں اور اس رسم کو اپنی ہزاروں سال پرانی تہذیب کہنے والوں کو مدعوکرنے کے بجائے ایسے مولوی کو بلا لیا جاتا ہے، جس بیچارے کو شاید کاروکاری کا معنی بھی نہ آتا ہو۔ اکثر مشاہدے میں آیا کہ قبائلی جرگے کے حکم پر بلوچستان کے کسی دور دراز علاقے میں قتل ہوا اور تفتیش کسی محلے کے امام مسجد سے راولپنڈی میں کروائی جا رہی ہوتی ہے۔ اگربلوچستان جا کرقبیلے والوں سے قتل کے محرکات و جواز کے بارے میں پوچھا جائے تو معلوم ہو گا کہ اس رسم کا غلط استعمال عام سی بات ہے۔ لوگ ذاتی دشمنیاں نکالنے کے لیے اپنے ہی خاندان کی عورتوں کا استعمال کرتے ہیں ان کومار کر دشمن کی لاش کے نزدیک ڈال دیا جاتا ہے اور لوگوں کو بتایا جاتا ہے کہ انہیں غلط کام کرتے دیکھا تھا اس لیے غیرت میں آ کران دونوں کو مار دیا۔
عورتوں کے قتل کے جتنے واقعات ہوتے ہیں ضروری نہیں کہ ہر قتل، قتلِ غیرت ہی ہواکثرخاندانی دشمنی،تقسیم میراث وغیرہ دیگر وجوہات ہوتی ہیں۔۔ اسلامی تعلیمات کی رو سے کسی پر زنا کا الزام اس وقت ثابت ہوتا ہے جب تک چار ایسے گواہ جنہوں نے اپنی آنکھوں سے زنا ہوتے دیکھا گواہی نہ دے دیں۔چنانچہ اس اسلامی حکم کے تناظر میں حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے سوال کیا یارسول اللہ اگر ہم اپنی بیوی سے کسی کو زنا کرتے دیکھیں تو کیا ایسے موقع پر ہم گواہ ڈھونڈنے نکل کھڑے ہوں؟ غیرت کے نام پر قتل کے حوالے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا بہت جامع فرمان احادیث میں موجود ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم تعجب کرتے ہو سعد کی غیرت پر، مگر میں اس سے زیادہ غیرت مند ہوں اور اللہ تعالیٰ مجھ سے زیادہ غیرت مند ہے۔یعنی جس اللہ نے یہ قانون بنایا ہے وہ زیادہ غیرت مند ہے لہٰذا اب گواہی کے بغیر کسی پر زنا کو ثابت کردینا اپنے آپ کو اللہ سے زیادہ غیرت مند بنانے کے مترادف ہے۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے قوانین میں کئی سقم پائے جاتے ہیں جو اس قبیح رسم کے ختم ہونے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں، مثلا ایسا قتل، قتلِ عمد نہیں سمجھا جاتا بلکہ قتلِ خطا شمار کیا جاتا ہے۔ ایسے قتل کا مقدمہ خاندان ہی کے کسی فرد کی مدعیت میں درج کیا جاتا ہے اور پھر وہی مدعی(مثلا باپ) مقتول (مثلا بیٹی)کا وارث ہونے کے ناطے قاتل(مثلا بیٹے) کو معاف کردیتا ہے۔ اگر ایسا مقدمہ سرکار کی مدعیت میں درج کیا جائے تو معافی کا سلسلہ ختم ہوسکتا ہے جو اس رسم کے خاتمے کا ذریعہ بنے گا۔ غیرت کا مطلب یہ نہیں کہ انسان جذبات آکر انسانی جان ضائع کردے۔غیرت کے نام پر قتل کے خاتمے کے لیے چند ضروری اقدامات کرلیے جائیں تو یہ قبیح رسم ختم ہوسکتی ہے۔