میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
مگر یہ تو پاکستانی ہیں ۔۔۔؟؟؟

مگر یہ تو پاکستانی ہیں ۔۔۔؟؟؟

منتظم
پیر, ۱۹ دسمبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

bukhari-1

اسرار بخاری
کیاہمارا معاملہ” حمیت نام تھا جس کا نام گئی تیمور کے گھر سے “ کے مصداق ہوچکا ہے ۔جب یہ سطور شائع ہونگی پاکستانی سنیما گھروں میں بھارتی فلموں کی نمائش دوبارہ شروع ہوچکی ہوگی ، یہ اعلان حکومت نے نہیں سنیما مالکان نے کیا ہے ۔ ایٹریم سنیما کے مالک ندیم مانڈی والانے اس کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ پابندی کی وجہ سے جو فلمیں نمائش کے لیے رہ گئی تھیں انہیں پہلے نمائش کے لیے پیش کیا جائے گا۔
یہ افسوس ناک سے زیادہ انتہائی شرم ناک ہے کہ ایسے موقع پر جب بھارت کشمیری عوام پر ظلم ڈھا رہا ہے، پاکستان کے خلاف سازشوں میں مصروف ہے ، سی پیک کو ناکام بنانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگارہا ہے ، پاکستان کے بے حمیت لوگ بھارتی فلموں کی پذ یرائی کے ذریعے بھارت کو اربوں کا فائدہ پہنچا رہے ہیں ۔ گزشتہ عرصہ میں پاکستان میں بھارتی فلموں نے مجموعی طور پر 30 ارب کا بزنس کیا، 6 جولائی 2016 کو عید الفطر پر ریلیز ہونے والی بھارتی فلم ”سلطان “نے پہلے ہفتے میں 12 کروڑ روپے کا بزنس کیا ، جو اگلے ہفتے تک 30 کروڑ سے تجاوز کرگیا ، یاد رہے فلم سلطان میں بھارتی فلم ”دھوم “کا ریکارڈ توڑدیا ۔قبل ازیں بھارتی فلمیں ”جوانی پھر نہیں آنی “ ، فردوس“، دل والے “ اور ”فین “ کروڑوں کا بزنس کرچکی ہیں ۔ کیا پاکستان میں بھارتی فلموں کی نمائش کرنے اور دیکھنے کے شوقین لوگوں کو کبھی یہ احساس ہوا ہے کہ وہ کس طرح بھارتی معیشت کو سہارا دینے میں کردار ادا کررہے ہیں ، ان سے حاصل شدہ یہ پیسہ پاکستان کے خلاف سرگرمیوں ، سازشوں اور دہشتگردی کے ساتھ ساتھ مقبوضہ کشمیر میں ظلم و ستم کے لیے استعمال کیا جارہا ہے ۔ فلم ”سلطان “نے صرف لاہور سے جو بارہ کروڑ 86لاکھ کا بزنس کیا اس میں سے چار کروڑ 86لاکھ روپے براہ راست بھارتی فوج کو دئیے گئے جس سے کشمیریوں کو کچلنے کے لیے اسلحہ خریدا گیا ۔
بھارتی فلموں پر 1965 ءمیں جاری کردہ آرڈیننس کے سیکشن چھ کے تحت پابندی عائد کی گئی تھی لیکن اسمگلنگ کے ذریعے بھارتی فلموں کی آمد کا سلسلہ جاری رہا ، جو وی سی آر کے ذریعے دیکھی جاتی رہیں ، تاہم 1974 ءمیں بھارتی فلموں پر پابندی کے حوالے سے سخت قوانین نافذ کئے گئے ،کچھ ذمہ دار افراد کو سزا دی گئی اور چند سنیما ہاو¿س بند بھی کئے گئے مگر متعلقہ حکام کی ملی بھگت سے یہ سلسلہ کسی نہ کسی طرح جاری رہا، یہاں تک کے 2006ءمیں جنرل پرویز مشرف کے دور میں بھارت کی دو فلموں مغل اعظم اور تاج محل کو نمائش کی خصوصی اجازت دی گئی ، جس سے پاکستان میں بھارتی فلموں کی آمد کا راستہ کھل گیا ۔ قبل ازیں جنرل ضیاءالحق نے شیخ مختار کی فلم ”نور جہاں “ کو نمائش کی خصوصی اجازت دی ، صدارتی حکم نامے کے تحت اس فلم کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر اجازت دی گئی تھی کیونکہ شیخ مختیار نے جنرل ضیاءالحق سے درخواست کی تھی کہ یہ فلم ہی اس کی زندگی کا اثاثہ ہے، نمائش کی اجازت نہ ملنے پر وہ تباہ ہوجائے گا۔ اس حکم نامے کے بعد جنرل ضیاءالحق نے مارشل لاءکے ضابطہ1981 کے تحت یہ قرار دیا کہ” نورجہاں“ کے بعد بھارت کی کوئی فلم نمائش کے لیے پیش کرنا خلاف قانون و آئین ہوگا ۔
پاکستان میں بھارتی فلموں کی نمائش آئین کے آرٹیکلز 38,37کی بھی خلاف ورزی ہے جس کے تحت اسلام اور اسلام سے وابستہ روایات کے خلاف پراپیگنڈا نہیں کیا جاسکتا اسی طرح پاکستانی یا اسلامی کلچر کے خلاف کسی دوسرے کلچر کی تشہیر بھی ممنوع ہے ۔ لیکن ہوس زر کا شکار لوگ بالخصوص بھارتی لابی سے تعلق رکھنے والے ،بعض نام نہاد دانشور اور اداکار یہ ہرزہ سرائی کرتے ہیں کہ فن کی سرحدیں نہیں ہوتیں ،اور اسے بہانہ بناکر بھارتی فلموں میں کام کرنے پہنچ جاتے ہیں۔ اداکار ندیم ، میرا ، وینا ملک ، صبا قمر ، مائرہ خان ، علی ظفر ، فواد خان ، جاوید شیخ اس کی بیٹی مومل شیخ اور دیگر اداکار بھارتی فلموں میں کام کرچکے ہیں یا کررہے ہیں ۔حال ہی میں بعض کو بڑی تذلیل کے ساتھ بھارت سے نکالا بھی گیا ہے جب کہ گلوکار عدنان سمیع نے تو باقاعدہ بھارت کی شہریت حاصل کرلی ہے۔ بھارتی فلموں کی سب سے زیادہ نمائش کراچی اور اس کے بعد لاہور میں ہوتی ہے ، کراچی میں سنیما مالکان اور سلیم مانڈی والا بھارتی فلموں کی نمائش پر پابندی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں ، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان میں سالانہ پونے دو سو فلمیں درآمد کی جارہی ہیں ، سینسر بورڈ اور دیگر متعلقہ محکموں کے حکام اس آئینی اور قانونی خلاف ورزی میں پوری طرح سے ملوث ہیں جنہیں باقاعدگی سے حصہ پہنچادیا جاتا ہے ۔
بھارتی فلموں کو پاکستان لانے کے لیے یہ چکر چلایا جاتا ہے کہ ان کے مالک دبئی کے باشندے ظاہر کئے جاتے ہیں اور انڈین کی بجائے ”درآمدی فلم “ کا نام دے کر این او سی جاری کردیا جاتا ہے ۔ بھارتی فلموں کے حق میں یہ دلیل دی جاتی ہے کہ پھر لوگوں کے لیے اور تفریح کیا ہے، پاکستان میں اس معیار کی فلمیں بھی تو نہیں بنتیں ۔ اگر اداکاری دیکھ کر ہی تفریح کا تقاضہ پورا ہونا ہے تو یہ تو دن رات ٹی وی چینلز پر چلنے والے ڈراموں اور پاکستانی فلموں میں بھی دیکھ کر یہ تقاضہ پورا کیا جاسکتا ہے ۔ بھارت میں کانگریس کی رہنما سونیا گاندھی کا یہ بیان آن ریکارڈ ہے ” ہمیں پاکستانیوں کو جنگ کے ذریعے فتح کرنے کی ضرورت نہیں ہم نے پاکستانیوں کو ثقافت کے ذریعے تسخیر کرلیا ہے “ ۔2005ءمیں سمجھوتا ایکسپریس دوبارہ شروع ہوئی ،میں اس کی کوریج کےلئے نئی دہلی گیا تھا ، نئی اور پرانی دہلی کی گلیوں اور بازاروں میں گھنٹوں یہ دیکھنے کےلیے گھومتا رہا مگر کسی حجام کی دکان ، کسی چائے خانے یا بک اسٹال پر کسی پاکستانی اداکار یا اداکارہ کی تصویر کے پوسٹر نظر آئے نہ پاکستانی گانوں کی آواز سنائی دی ، نہ فٹ پاتھوں پر پاکستانی فلموں کی کیسٹیں فروخت ہوتی نظر آئیں، میں جس ہوٹل میں ٹھہرا تھا اس کے منیجر نے فون پر کہا ایک صاحب آپ سے ملنا چاہتے ہیں ، احتیاطاً کمرے میں بلانے کی بجائے خود لابی میں چلا گیا ، تعارف کرایا گیا یہ نزدیک واقع سنیما کے منیجر ہیں ۔ اس نے کہا ”مہاراج پتاچلا ہے آپ پاکستان کے پترکار ہیں، میری اِچھا ہے آپ آج ہمارے سنیما میں فلم ضرور دیکھیے گا ، بہت اصرار پر حامی بھرلی ، فلم شروع ہوئی تو بھارتی ترانے کے بعد جو منظر دکھایا گیا وہ میری آنکھوں میں کرچیاں بن کر چبھتا رہا ، منظر تھا جنرل نیازی ڈھاکا کے پلٹن میدان میں سرنڈر کی دستاویز پر دستخط کررہے ہیں ، ان کے کراو¿ن اتارے جارہے ہیں اور سنیما ہال جے ہند کے نعروں سے گونج رہا تھا ، مزید تاب نہ لاکر سنیما ہال سے باہر آگیا اور جان لیا کہ مقصد ذہنی اذیت پہنچانا تھا ، پاکستانیوں کے ساتھ بھارتیوں کا یہ رویہ انوکھا نہیں کیونکہ وہ تو دشمن ہیں ، پاکستان اور پاکستانیوں کو دکھ پہنچانے کا ہر حربہ اختیار کریں گے مگر چند ٹکوں کی خاطر بھارتی فلموں کی نمائش سے خود اپنی ثقافت پر بھارتی حملے ، بھارتی معیشت اور بھارتی فوج کی پاکستان دشمن سرگرمیوں کے لیے سرمایہ فراہم کرنے میں معاونت کرنے والے تو پاکستانی ہیں اور کیسے پاکستانی ہیں ؟
٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں