میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
سقوط ڈھاکہ کے اسباب....قسط 3

سقوط ڈھاکہ کے اسباب....قسط 3

منتظم
پیر, ۱۹ دسمبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

ishtiaq-ahmed-khan

اشتیاق احمد خان
1946 کے انتخابات تک مسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن کی جدوجہد تو جاری تھی لیکن اس میں وہ تیزی اور جذبہ نہیں تھا جو اس تحریک کو انجام تک پہنچانے کے لیے ضروری تھا ابھی کانگریس کے پروپیگنڈاکا اثر باقی تھااس وقت تک ایک ہی نعرہ تھا ” مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آ” لیکن ان انتخابات کے بعد آزادی کی تحریک کو ایک نیا تحرک ملا ،جس نے اس تحریک کو شعلہ جوالہ بنا دیا۔ اب نعروں میں شدت آ چکی تھی اور نئے نئے نعرے وضع ہو رہے تھے، اب منزل واضح ہو چکی تھی اس وقت کا مقبول ترین نعرہ تھا بٹ کے رہے گا ہندوستان ۔۔لے کر رہےں گے پاکستان، اور پاکستان کا مطلب کیا” لا الہ الا اللہ” اور رب بھی اس نعرے پر مہربان تھا۔ دسمبر 1946 سے تقریباً 5 ماہ کے مختصر عرصے میں انگریز نا صرف ہندوستان چھوڑنے پر آمادہ ہو گئے بلکہ پاکستان کے قیام پر بھی ۔3 جون1946 کو وائسراے ہند نے مسلم لیگ اور کانگریس کی قیادت کا اجلاس بلایا جس میں تقسیم ہند کے منصوبے کی باقاعدہ منظوری دے دی گئی ،فیصلہ کر لیا گیا کہ 14 اگست کو انگریز سرکار اس ملک سے رخصت ہو جائے گی ،تاج برطانیہ کی عملی داری ختم ہو گی اور برصغیر دو ملکوں میں بٹ جائے گا ہندوستان اور پاکستان ۔پاکستان دو حصوں پر مشتمل ہو گا مغرب میں چار صوبوں اور چند خودمختار ریاستوں پر اور مشرق میں مشرقی بنگال پر ۔
3 جون1947 کے اجلاس میں وائسرائے ہند نے 14 اگست کو ہندوستان کی آزادی اور 15 اگست کو پاکستان کے قیام کا منصوبہ پیش کیا تھا ،یہ ایک سازش تھی کہ جس کا مقصد آخری لمحہ میں قیام پاکستان سے انکار تھا ۔جب 14 اگست 1947 کو تاج برطانیہ کی عمل داری ہندوستان پر سے ختم ہو جاتی اور ہندوستان ایک ریاست کے طور پر آزاد ہو جاتا تو تاج برطانیہ کا نمائندہ وائسرائے ہند کس طرح 15 اگست کو اس ملک کی تقسیم کا اعلان کر سکتاتھا؟
اللہ تعالیٰ اپنے کلام میں فرماتے ہیں ” تم اپنی ترکیبیں کرواور میںاپنی ترکیب کرتا ہوں اور میری ترکیب ہی سب سے بہتر ہے”۔ تاج برطانیہ کے یہودی نمائندہ نے کانگریس کے ساتھ ملکر ایک سازش تیار کی تھی، ایک جال بنا تھا لیکن جب اللہ مہربان ہوتا ہے تو پھر ساری سازشیں ناکام ہو جاتی ہیں اور ہوتا وہی ہے جو اللہ کرنا چاہتا ہے۔ ہندو سعد ونحس پر ازحد اعتقاد رکھتے ہیں، وائسرائے ہند کی تجویز کو کانگریس نے فوری طور پر منظور نہیں کیا بلکہ پنڈت جواہر لال نہرو نے اپنے مذہبی رہنماو¿ں سے رائے لیکر اپنے فیصلہ سے آگاہ کرنے کا عندیہ دیا۔ ہندو پنڈتوں نے اپنے علم کی روشنی میں 14 اگست کو ہندوستان کی آزادی کے لیے نحس قرار دے دیا ۔یوں کانگریسی قیادت نے وائسرائے کو آگاہ کر دیا کہ وہ 14 اگست کے بجائے 15 اگست کو ہندوستان کی آزادی چاہتے ہیں۔ اب وقت کم تھا اور وائسرائے کو امید تھی کہ مسٹر جناح اپنی طبیعت کے مطابق اس تبدیلی کو قبول نہیں کرینگے ۔وائسرائے نے کانگریس کی جانب سے 14 کے بجائے15 اگست کو ہندوستان کی آزادی کا عندیہ دینے پر مسٹر جناح کو آگاہ کیا کہ منصوبہ تبدیل ہوگیا ہے اور اب 13 اور 14 اگست کی درمیانی شب پاکستان کا قیام عمل میں آئے گا اور 15 اگست کو ہندوستان آزاد ہو گا ،مسٹر جناح نے بغیر کسی پس وپیش یہ منصوبہ قبول کر لیا ۔5 جون کو کس کو علم تھا کہ جب 13 اور 14 اگست کی درمیابی شب قیام پاکستان کا اعلان ہو گا تو اس وقت رمضان المبارک کی 27 ویں شب ہوگی ۔لیلة القدر کو رب نے ظاہر نہیں کیا ہے اور رمضان المبارک کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں اسے تلاش کرنے کا حکم دیا ہے۔27 ویں شب بھی ان طاق راتوں میں سے ایک ہے یہ وہ رات ہے کہ جس کے لیے رب کریم اپنے کلام قرآن مجید فرقان حمید میں فرماتے ہیں ” ہم نے اس کو لیلة القدر میں نازل کیا اور تم کیا جانو لیلة القدر کیا ہے؟ یہ رات ہزار ماہ سے افضل ہے، اس میں فرشتے اور روح الامین اترتے ہیں اللہ کے حکم سے، اس وقت تک جب تک کہ فجر کا مطلع طلوع نہیں ہو جاتا "۔
اجماع امت ہے کہ 27 ویں شب ہی لیلة القدر ہے، یوں جب 13 اور 14 اگست کی درمیانی رات ڈھاکا اور لاہور ریڈیو اسٹیشن سے یہ صدا بلند ہوئی کہ یہ ریڈیو پاکستان ہے تواس وقت لاکھوں فرزندان توحید اپنے رب کے حضور سجدہ ریز تھے۔ اس اعلان نے کروڑوں مسلمانوں کو ان کی انتھک محنت کا ثمر حاصل ہونے کا مژدہ سنا دیا تھا ۔ (جاری ہے)
٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں