میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
سفر یاد۔۔۔ قسط 14

سفر یاد۔۔۔ قسط 14

منتظم
هفته, ۱۹ نومبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

shahid-a-khan

شاہد اے خان
ڈائجسٹ پڑھتے ہوئے وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوا۔ وقت دیکھا تو رات کے ساڑھے دس بج رہے تھے، گلزار ابھی تک واپس نہیں آیا تھا ہمیں فکر ستانے لگی، موبائل فون ابھی عام نہیں ہوا تھا گلزار سے رابطے کی کوئی صورت نہیں تھی، اگرچہ گلزار جاتے وقت کہہ گیا تھا کہ ہم جاتے وقت دوکان کے شٹر کو باہر سے تالا لگا کر جا سکتے ہیں لیکن اب کافی رات ہو چکی تھی ہمیں گلزار کی فکر ہو رہی تھی۔ اتنے میں شٹر اوپر اٹھا اور گلزار کی شکل نظر آئی، ہم نے کہا بھائی کہاں رہ گئے تھے ،ہم تو پریشان ہوگئے تھے، گلزار نے کہا بھائی جان میں قریب دس بجے واپس آگیا تھا لیکن اپنے فلیٹ پر اتر گیا میرا خیال تھا آپ دوکان کو تالالگا کرجا چکے ہوں گے لیکن پھر خیال آیا کہ اگر آپ نہیں گئے ہوئے تو کوئی مسئلہ نہ ہو گیا ہو، یہاں کسی کی دوکان پر بغیر اس دوکان کے ورک پرمٹ کے بیٹھنا جرم ہے اور رات میں شرطے (سعودی پولیس) گشت کرتے ہیں۔ دوکان کا شٹرگرا ہوا دیکھ کر وہ ضرو ر چیک کرتے اور آپ اندر سے نکلتے تو انہوں نے سیدھا آپ کو جیل لے جانا تھا، آپ کے پاس تو ابھی اقامہ بھی نہیں ہے بس آپ کا تو کام ہو جانا تھا، اسی فکر کی وجہ سے میں فلیٹ سے بھاگا بھاگا آیا ہوں اور آپ یہیں موجود ہیں ،شکر کریں ابھی تک کوئی شرطہ نہیں آیا۔ ہم نے ڈائجسٹ دکھاتے ہوئے کہا یہ مل گیا تھا تو ہم پڑھنے میں لگ گئے وقت کا پتہ ہی نہیں چلا۔ گلزار نے کہا ڈائجسٹ کو چھوڑیں باہر نکلیں بہت دیر ہو چکی ہے۔ ہم گلزار کے ساتھ دوکان سے باہر نکل آئے اس نے شٹر کو تالا لگایا اور ہم ساتھ ساتھ چل پڑے۔ گلزار نے کہا دعا کریں شرطے نہ مل جائیں ورنہ آپ کو اقامہ نہ ہونے پر اور مجھے آوارہ گردی کے الزام میں اندر کر دیں گے۔ سڑک پر ہم دونوں پیدل چلے جا رہے تھے کچھ دیر میں اکا دکا گاڑی بھی گزر جاتی تھی۔ گلزار نے دور سے آتی ایک گاڑی کی طرف دیکھ کر کہا شرطے آرہے ہیں، اس نے اچانک ہمارا ہاتھ پکڑا اور ایک گلی میں داخل ہو گیا۔ گلیاں کافی چوڑی تھیں اور گلزار تیز تیز قدموں سے ایک سے دوسری گلی میں مڑ رہا تھا۔ گلزار نے پوچھا آپ کا کیمپ کس طرف ہے ؟ہم نے کہا بھائی ہم تو دو روز پہلے ہی یہاں پہنچے ہیں اور آج پہلی بار کیمپ سے جنادریہ کی طرف آئے تھے ، ویسے بھی ہم مغرب سے پہلے نکلے تھے، اس وقت روشنی تھی اب اندھیرے میں ہمیں کچھ اندازہ نہیں کیمپ کس طرف ہوگا۔ گلزار نے کہا یہ تو مسئلہ ہو گیا آپ کچھ سوچ کر بتائیں کوئی نشانی کوئی جگہ جو آپ کو یاد ہو۔ ہم نے کہا ہمارے کیمپ کے سامنے بڑا سا میدان ہے او ر اس کے قریب کالج واقع ہے، گلزار نے کہا یہاں تو مین روڈ کے ساتھ میدان ہی میدان ہے چلیں اللہ مالک ہے کوشش کرتے ہیں۔ گلیوں میں سناٹا تھا ہم 2 ذی روح تھے جو تیز تیز قدموں سے چلے جا رہے تھے۔ شرطوں کی گاڑی کا دھڑکا لگا ہوا تھا۔
ہم دونوں ایک گلی سے دوسری میں مڑے ہی تھے کہ سامنے آنے والی گاڑی کی لائٹوں سے آنکھیں چندھیا گئیں۔ گاڑی والے نے ہمارے قریب آکر گاڑی روک لی۔ ہم تو سہمے ہوئے تھے لیکن گلزاربھی زیادہ پراعتماد نظر نہیں آرہا تھا ، ہم نے پوچھا کیا یہ شرطے ہیں، گلزار نے کہا گاڑی تو شرطوں کی نہیں لیکن شرطے بھی ہو سکتے ہیں۔ گاڑی سوار نے شیشہ نیچے اتارا اور عربی میں زور سے کچھ کہا ، گلزار نے بھی عربی میں جواب دیا، پھر گلزا ر گاڑی کے قریب چلا گیا اور دونوں میں کچھ بات چیت ہوئی۔ اتنے میں گلزار کی آواز آئی، بھائی جان آئیں ، گاڑی میں بیٹھ جائیں۔ ہم پچھلا دروازہ کھول کر گاڑی میں بیٹھ گئے۔ گلزار عربی کے ساتھ اگلی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ ہم حیران وپریشان تھے۔ گلزار نے کہا یہ عربی اس کا جاننے والا ہے، اس کے اے سی فریج وغیرہ کی مرمت گلزار کی دوکان سے ہی ہوتی ہے۔ جان پہچان تھی اس لیے بچت ہو گئی ورنہ کوئی شرطہ یا کوئی اور عربی ہوتا تو ہماری شامت آگئی تھی۔ گلزار نے عربی کوکیمپ کے بارے میں بتایا ،زراسی دیر میں ہم کیمپ کے سامنے پہنچ چکے تھے۔ ہم اپنے کیمپ پراتر گئے جبکہ وہ عربی گلزار کو چھوڑنے چلا گیا، سچ ہے اچھے برے لوگ ہر جگہ ہوتے ہیں۔ بلکہ زیادہ تر لوگ اچھے ہی ہوتے ہیں۔ ویسے بعد میں سعودی عرب میں ہمارا یہ خیال خام خیالی ہی ثابت ہوا۔ ہم اپنے کیبن میں پہنچے تو سوا گیارہ ہو چکے تھے۔ کیمپ میں دوسرا دن گزر چکا تھا۔۔۔۔ جاری ہے۔
٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں