پانچ سو اور ہزار۔۔۔ مودی کا شدھ بھار
شیئر کریں
محمد اقبال دیوان
ہمارے ہر دل عزیز پردھان منتری کے سجن اور متّر، بھارت کے پردھان منتری نریندر مودی عجیب افتاد طبع کے مانس ہیں۔دُھن کے پکے،اوویواہ( Celibacy ) کے پرچارک،دوستیاں اڈانہ،امبانی جیسے دھن کے نام چیں پجاریوں سے ، خود دھن لوٹ سے اپنا دامن شدھ(پاک) رکھا مگر مسلمانوں کے خون سے ایساتر کر رکھا ہے کہ ان کی ہندوتوا کے متوالے اسی سے اشنان(نہانا دھونا) کرتے ہیں۔سیر و سیاحت کے رسیا ،جوان تھے تو سارا بھارت پیدل ناپ ڈالا۔ دیس سے باہر جہاں یاترا کے لیے جاتے ہیں مرکز توجہ بنے رہتے ہیں ۔جاپان جاتے ہیں تو ضد کرتے ہیں کہ اپنے پاٹھ شالے یعنی اسکول دکھاﺅ۔یہ بتاﺅ کہ تم لوگ ان اسکولوں میں صفائی کے لیے خاکروب کیوں نہیں رکھتے ،بڑے بچوں کو جھاڑو تھما رکھی ہے کہ اپنے اسکول کی صفائی خود اپنے ہاتھوں سے کرو تاکہ اوائل عمری سے ہی صفائی کی اہمیت، مزاج کا حصہ بن جائے۔ بیرون ملک دوروں پر کشمیری کھابوں،گوچی کے جوتے،فلپ پاٹیک کی گھڑیاں اور ڈیزائینر سوٹ کے بوتیک نہیں لبھدے پھردے،لندن کے مشہور ڈیپارٹمنٹل اسٹور ہیرڈز کا تو بھولے سے ذکر بھی نہیں کرتے۔
پچھلے دنوں ان کے دماغ میں کالے دھن کی صفائی کا ایسا بھوت سوار ہوا کہ آٹھویں نومبر کو ٹھیک آٹھ بج کے سترہ منٹ پر اعلان کیا کہ کالے دھن والوں کے پاس رقم کا جو ڈھیر ہے اس کو سفید اور شدھ کرنے کے لیے سواچی (کرپشن فری) بھارت میں کل چار گھنٹے باقی ہیں۔اس مہلت کے بعد پانچ سو اور ہزار کے نوٹ دفتر بے معنی ہوکر رہ جائیں گے۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق بھارت میں یہ دھن 35 لاکھ کروڑ روپے کا حجم رکھتا ہے۔اس کی موجودگی سے قیمتوں میں بلاجواز اضافہ ہوتا ہے۔رئیل اسٹیٹ میں اضافی قیمت پر رقم لاک اپ ہوجاتی ہے۔اس وجہ سے کرپشن کو فروغ ملتا ہے۔اپنے اس اقدام کی جانب انہوں نے جون کے مہینے میں اشارہ کیا تھا مگر اس کا اثر کالے دھن والوں نے ویسے ہی لیا جیسا منشا جی کورٹ کے احکامات کا گاہے بہ گاہے لیتے ہیں۔غم نہ دارد،فکر ما کوا کے انداز میں۔یہ ہلا گلا تو وکیلوں کی پریشانی ہے۔ مجھے فکر جہاں کیوں ہو۔
پردھان منتری مودی کو اپنے ٹیکس دہندگان سے بڑا شکوہ تھا جو حیلے بہانوں سے اور بدعنوان ٹیکس مشنری کی مدد سے ٹیکس بچاتے پھرتے ہیں۔ان کی حکومت کی میعاد آدھی ہوگئی اور حزب اختلاف کے الزامات کا شور بڑھنے لگا کہ مودی جی کالے دھن والوں کے پٹھو ہیں انہیں کی ہر سمے ڈفلی بجاتے ہیں تو انہوں نے کمر کسی اور کالے دھن پرہلہ بول دیا۔یو پی کا عام چناﺅ بھی بہت قریب تھا سو ان کی اس کارروائی سے ان کے مخالف ششدر رہ گئے۔کانگریس نے البتہ جوابی حملہ یہ کیا کہ ان کے مالدار حواری تو پہلے ہی پیسہ باہر منتقل کرچکے تھے۔اب یہ سارا کا سارا بار عام آدمی پر پڑے گا جو بینکوں میں پیسہ نہیں رکھتا۔کرناٹک کی ریاست کے ایک وزیر نرائین سوامی اور بینک کے صدر گوندا کروڑوں روپے کے ڈھیر لگا کر بیٹھ گئے کہ علاقے کے لوگ فی خاندان ان سے تین لاکھ روپے قرضہ لے کر دھن سفید کرالیں اور سال بھر کے اندر معمولی سود پر یہ قرضہ لوٹا دیں۔کانگریس نے یہ بھی الزام لگایا کہ بھارت میں 24کروڑ کے لگ بھگ ایسے عام لوگ ہیں جن کا بینکوں میں اکاﺅنٹ ہی نہیں۔اس کا جواب مودی جی کے ہاں سے یہ آیا کہ اس جن دھن یوجنا Demonitazation Policy سے بینکوں میں اتنے ہی نئے اکاﺅنٹس کھلیں گے، نئی ملازمتیں تشکیل پائیں گی۔اس سے الیکشن مہم میں جو کالا دھن لگتا ہے وہ بھی جمہوریت کو پاک صاف کردے گا۔بنگال ، یوپی اور پنجاب میں بی جے پی کی جو مخالف سیاسی پارٹیاں خزانوں کا منھ کھولنے پر آمادہ تھیں وہ اب سراسیمہ ہوکر رہ گئی ہیں۔وہ اب یہ الزام بھی لگا رہی ہیں کہ مودی جی نے بجٹ کے فوراً بعد اپنے حامیوں کو یہ بڑی خاموشی سے بتادیا تھا کہ اس سال پانچ سو اور ہزار کے نئے نوٹ کم سے کم تعداد میں جاری کیے جائیں گے لہذا وہ چھوٹے سو والے نوٹوں پر اپنا ادھیکار ( دار و مدار) رکھیں۔
ان دنوں بھارت کے ماہرین معاشیات اس بات کا جائزہ لے رہے ہیں کہ پہلے ہی سے شکستہ حال رئیل اسٹیٹ مارکیٹ اور یہ چودہ لاکھ کروڑ روپیہ جب مارکیٹ سے غائب ہوگا تو اس کا معاشیات پر کیا اثر ہوگا۔ اس میں نصف رقم تو وہ ہے جو کالا دھن ہے۔بھارت سرکار کا اندازہ ہے کہ اس سے ٹیکس کی مد میں جب یہ لوگ اپنی رقم بینکوں میں جمع کرائیں گے چار لاکھ کروڑ روپے جمع ہوں گے۔سر دست اس کا گہرا اثر رئیل اسٹیٹ اور اسٹاک مارکیٹ پر پڑا ہے، گو کچھ سرمایہ کار اسے ڈونلڈ ٹرمپ کی امریکا کا صدر بننے سے بھی منسوب کرتے ہیں۔ رئیل اسٹیٹ میں ہندوستان کی بہت بڑی رقم لگی رہتی ہے۔اس کا بندوبست تقریباً ویسے ہی کیا گیا تھا کہ جیسا پاکستان میں ہمارے وزیر خزانہ نے ان کا بجٹ آتے ہی اپنے بجٹ میں کیا کہ ظاہر کی گئی قیمت جو اصل مارکیٹ پرائس سے بہت کم ہوتی ہے اس کی بجائے اصل قیمت پر ٹیکس لگا کرے گا۔اس کی وجہ سے پاکستان کی رئیل اسٹیٹ مارکیٹ کوما میں بالکل ویسے ہی چلی گئی ہے جیسے ڈی ٹی ایچ (ڈائریکٹ ٹو ہوم ٹیکنالوجی ) کے لائسنس کی نیلامی سے کیبل ٹی وی والے بولائے بولائے پھر رہے ہیں۔
بھارت میں کالے دھن کے بیوپاریوں نے اس کا حل یہ نکالا کہ دو دن میں سونا بہت خرید کرلیا۔یہ دیوالی کا سیزن تھا ۔اس میں ہندو لکشمی پوجا کی وجہ سے سونا بہت خریدتے ہیں۔حکومت کو اس کا اندازہ نہ ہوا کہ دو دن میں سونے کی قیمت دو فی صد بڑھ گئی۔بھارت میں مودی جی کے اس اقدام سے لگ بھگ پچاس لوگوں کی اموات خودکشی یا قتل کی وجہ سے ہوئی ہیں۔ بھارت کے وزیر وین کھیا نیڈو سے جب پوچھا گیا کہ اتنا سخت اور تکلیف دہ قدم اٹھانے کا کیا فائدہ ہے تو ان کا جواب بہت دل چسپ تھا کہ” بچے کی پیدائش پر ماں کو بہت تکلیف ہوتی ہے مگر جب بچہ پیدا ہوجاتا ہے تو وہ یہ سب دکھ اور کرب بھول جاتی ہے اور خوشیوں میں گھری رہتی ہے“۔ان کے ایک اور وزیر گوئیل نے کہا کہ” بھارت میں ہر سال ٹریفک کے حادثات میں پانچ لاکھ لوگ مرتے ہیں۔ یہ آئس لینڈ کی آبادی سے دگنی تعداد ہے تو کیا ہم سڑکوں سے گاڑیاں ہٹالیں“۔ ہمارے اس اقدام سے کشمیری اور نکسالیٹس آتنک وادیوں کو بھی بہت دھچکا پہنچے گا جو اپنی دولت جنگل میں چھپا کر رکھتے ہیں اور جس کا علم ان کی صرف اعلی قیادت کو ہی ہوتا ہے۔ان کے گاڈچھرولی ضلع میں جہاں نکسالائٹ باغیوں کا بڑا زور ہے وہاں کے بینکوں میں بڑی تعداد میں ان کی جانب سے چھپائی گئی رقم جمع کی گئی ہے جس کی جانچ پڑتا ل ہوگی۔
پاکستان کے بینکوں میں بھی جابجا ایسے اشتہارات آویزاں دکھائی دیتے ہیں کہ دسمبر سے صرف نئے نوٹ قابل قبول ہوں گے۔بھارت کے مودی جی کے اچانک اعلان اور ہماری وزارت خزانہ کے اس اقدام میں ایک فرق ہے کہ انہوں نے بہ بانگ دہل اعلان کیا ہے کہ
ونگاں چڑھالو کڑیوں میرے داتا دے دربار دیاں (واضح رہے کہ سائیں اسحاق ڈار سرکار کو گنج بخش داتا دربار سے بڑی خصوصی عقیدت ہے) اس وجہ سے مشتری ہشیار باش ہوگیا ہے۔
٭٭