ہروقت رونا دھونا آخر کیوں؟
شیئر کریں
سچی کہانی فرضی نام کے ساتھ
ڈاکٹر سید مبین اختر
جب والدین کے ہمراہ وہ کمرے میں داخل ہوئی تو کمرہ رونے کی آواز سے گونج اٹھا اور والدین کے چہرے سے پریشانی صاف ظاہر تھی۔ باپ کی گود میں وہ بچی تھی ،اس کا نام عائشہ تھا ،جس کے رونے کی آوازسے کمرہ گونج رہا تھا۔ عائشہ 6ماہ پہلے کھیلتے ہوئے گر گئی،ٹانگ پر ہلکی سی چوٹ آئی مگر عائشہ چوٹ ٹھیک ہوجانے کے بعد بھی درد کی شکایت کر تی رہتی تھی۔ تمام جدید ٹیسٹ کروالئے گئے مگر تمام نتائج بالکل ٹھیک آئے اور ہرڈاکٹر نے یہی جواب دیا کہ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ڈاکٹروں نے عائشہ کو صحت مند قرار دے دیا تھا۔
پیر فقیروں کے چکر بھی لگائے ،کوئی کہتا کہ جن چڑھ گیا ہے اور وہ اسکی جان لے کر رہے گا۔ والدین پریشانی کے عالم میں اِدھر اُدھر بھاگتے رہے ،کبھی ایک آستانے جاتے کبھی دوسرے ،کبھی ایک پیر کی مانگ پوری کر تے کبھی دوسرے فقیر کے نظرانے ادا کر تے ،مگر کو ئی افاقہ نہیں ہوا،بلکہ حالت بتدریج خراب ہوتی جارہی تھی اور والدین الگ پریشان تھے۔ حکیموں کے دروازے بھی کھٹکھٹائے گئے دوستوں اور رشتے داروں نے بھی مختلف مشورے دینا شروع کر دیئے مگر حالت نہ سدھرنی تھی اور نہ ہی سدھری ۔ عائشہ کے والدین اسکو آبائی گاو¿ں بھی لے گئے۔ وہاں بھی مختلف جگہوں کی خاک چھانتے رہے مگر بے سود رہا۔ وہاں سے آنے کے بعد تو اور زیادہ طبیعت خراب ہوگئی تھی۔ اسی پریشانی میں دادی اور پھوپھو بھی ان کے ساتھ کراچی آگئیں کیونکہ گاو¿ں سے واپسی پرعائشہ نے ضد کی اور جب منع کیا گیا تو رونے کی شدت اور بڑھ گئی۔
ایک دن عائشہ کے والد کو انکے ایک دوست نے نفسیات کے ڈاکٹر کو دکھانے کی تجویز دی ۔ والد نے جب گھر آکر بتایا تو وادی نے گھر میں ایک کہرام مچا دیا کہ بچی کو پاگل سمجھا جارہا ہے ۔دادی نے اس منّت کا حوالہ دیا جو انہوں نے مان رکھی تھی کہ دو دن میں یہ ٹھیک ہوجائے گی مگر دو دن گزرجانے کے بعد بھی کوئی افاقہ نہیں ہواتو آخر کار والد نے عائشہ کو ہسپتال لے جانے کا فیصلہ کیا۔
ساری تفصیلات معلوم کر نے کے بعد پتہ چلا کہ اب اس بات کو 6ماہ کا عرصہ گزرچکا ہے ، نہ اب یہ بولتی ہے نہ ہی کچھ کھاتی ہے، بس ہروقت روتی رہتی ہے ۔مزید معلوم کر نے پر پتہ چلا کہ اگر یہ کوئی ضد کر ے اور پوری نہ کری جائے تو آواز اور اونچی ہوجاتی ہے اور ہر وقت والدہ کے پلو سے لگی رہتی ہے جس کی وجہ سے والدہ کو باقی بہنوں کی دیکھ بھال کرنے کا موقع ہی نہیں ملتا تھا اور اس طرح ساری توجہ عائشہ اپنی طرف مرکوز رکھتی تھی۔
دراصل بچی کوہسٹریا( Conversion) تھا جس میں مریض پریشانی میں پر ایسی حرکات کر تا ہے جس سے لوگ اس کی طرف متوجہ ہوں، یہ اس بیماری کی ایک علامت ہے۔ اس میں مریض کسی ایسے حالات سے بھی اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے جو اسکے لئے ناپسندیدہ ہوتے ہیں۔ اس میں بچی کو محسوس ہوتا تھا کہ کہی چھوٹی بہنوں کو زیادہ توجہ ملنے کے سبب والدہ اسکو نظر انداز نہ کر دیں اور جب چوٹ لگی تو سب نے ہاتھوں ہاتھ لیا تو رونا، درد، کھانانہ کھانا کو مستقل طور پر اپنا لیا تھا۔
والدین کو اس بات کا احساس دلایا گیا کہ اس رویے کو ختم کر نے کیلئے آپ کو اس کی پریشانی کی وجوہات ختم کر نی ہونگی۔ ادویات بھی تجویز کی گئیں،نومیت( Hypnosis)کیا گیا ،جس سے خاطرخواہ افاقہ ہوا۔
علاج کے بعد اب بچی روتی نہیں ہے اور بیمار ہونے سے پہلے والی صحتمندی پر آگئی ہے ۔ والدین بھی مطمئن اور پرسکو ن ہیں۔
اپنے مسائل اور ذہنی امراض کے لئے مندرجہ ذیل پتہ پر خط لکھیں:کراچی نفسیاتی ہسپتال ،ناظم آباد نمبر3 ،کراچی