میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
ٹرمپ کوبطورصدرِامریکا خیالات تبدیل کرنا پڑیں گے

ٹرمپ کوبطورصدرِامریکا خیالات تبدیل کرنا پڑیں گے

منتظم
هفته, ۱۹ نومبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

ونکٹ اچالم
امریکاکے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ انتخابات جیتنے کے باوجود ابھی تک نہ صرف پوری دنیا میں بلکہ خود امریکا کے عوام میں بھی متنازع بنے ہوئے ہیں اور امریکی عوام کی اکثریت انھیں اپنا صدر تسلیم کرنے پر تیار نظر نہیں آتی جس کا اندازہ ان کے خلاف امریکا کی مختلف ریاستوں خاص طورپر ان میں بھی جن ریاستوں نے ان کی کامیابی میں کلیدی کردار اداکیا ہے ان کے خلاف مظاہروں کاسلسلہ جاری ہے اور انتظامیہ کی جانب سے مظاہرے روکنے کی تمام تر کوششوں کے باوجود یہ سلسلہ رکنے میں نہیں آرہا۔ڈونلڈ کو صدر تسلیم کرنے سے امریکی شہریوں کے انکار یاان کے انتخاب پر غصے کے اظہار کا بڑا سبب ڈونلڈ ٹرمپ کی بد زبانی اور بیہودگی بتائی جاتی ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے منتخب ہونے سے قبل اپنی انتخابی مہم کے دوران امریکا میں موجود اقلیتوں ہی کوناراض نہیں کیا بلکہ یورپی ممالک کو بھی ناراض کرنے میں کوئی کثر نہیں چھوڑی یہی وجہ ہے کہ یورپی ممالک بھی ڈونلڈ ٹرمپ سے بھلائی کی کوئی امید نہیں رکھتے اور ڈونلڈ ٹرمپ کا انتخاب امریکا کی اقلیتوں کے علاوہ پڑوسی یورپی ممالک کیلیے بھی ایک بہت بڑا دھچکا ثابت ہوئے۔ڈونلڈ ٹرمپ کے انتخابی بیانات کی بنیاد پر امریکی اقلیتوں اور پڑوسی یورپی ممالک میں پایا جانے والا خوف اور غیر یقینی کی کیفیت ایک سمجھ میں آنے والی بات ہے لیکن امریکی انتظامیہ کے سینئر اور تجربہ کار اس حوالے سے بالکل الگ رائے رکھتے ہیں ،ان کاکہناہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے انتخابی بیانات سے قطع نظر ان کے عہدہ صدارت سنبھالنے کے بعد ان کی بالکل نئی شکل سامنے آئے گی ،کیونکہ عہدہ صدارت سنبھالنے کے بعد ان کو یہ احساس ہوجائے گا کہ دوسرے ممالک خاص طورپر امریکا کے قریبی اتحادی کا کردار اداکرنے والے ممالک پر اپنی مرضی مسلط نہیں کی جاسکتی اور امریکا کی جانب سے ان ملکوں کا ساتھ چھوڑنے کی صورت میں امریکا کے دیرینہ اتحادی ممالک کو تو زیادہ نقصان نہیں پہنچے گا لیکن امریکا دنیا میں بتدریج تنہا ہوتا چلا جائے گا جس سے دنیا کی سب سے بڑی طاقت کی حیثیت سے امریکا کی ساکھ مجروح ہوگی کیونکہ امریکا تنہا دنیا میں کسی بھی محاذ پر کوئی فوجی یا ا قتصادی کامیابی حاصل نہیں کرسکتا، اور قریبی اتحادیوں کے برگشتہ ہوجانے کی صورت میں دنیا کے دیگر ممالک کو امریکی نقطہ نظر تسلیم کرنے اور اس کے مفادات کے مطابق کام کرنے پر مجبور کرنا آسان نہیں رہے گا کیونکہ ایسی صورت میں ان ملکوں کے پاس امریکا کو چھوڑ کر دیگر ممالک سے مدد حاصل کرنے کا آپشن موجود ہوگا ،اس طرح دنیا کی سب سے بڑی طاقت کی حیثیت سے امریکا کی ساکھ تباہ ہوکر رہ جائے گی اورظاہر ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اتنے بیوقوف بھی نہیں ہیں کہ وہ تاریخ میں اپنا نام امریکی گورباچوف کے طورپر درج کرانے پر تیار ہوجائیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے انتخابی مہم کے دوران کسی ایسی اچھی کارکردگی کامظاہرہ نہیں کیا جس کی بنیاد پر ان کی جیت کی توقع یا پیشگوئی کی جاسکتی،ٹی وی پر صدارتی امیدواروں کے درمیان دوبدو مقابلے اور مباحثوں کے دوران بھی ان کی کارکردگی اوسط سے بھی کم رہی اور ان کی مدمقابل ہلیری کلنٹن نے یہ تینوں مقابلے آسانی سے جیت لیے۔ایران اور امریکا کے درمیان ہونے والے ایٹمی معاہدے، چین کے خلاف ان کے خیالات نیٹو کے بارے میں ان کے تبصرے امریکا کے سنجیدہ طبقے کو بالکل پسند نہیں آئے خاص طورپر داعش کو 30دن کے اندر ختم کرنے کے حوالے سے ان کے دعووں کو محض ان کی بڑھک تصور کیا گیا ۔یہی وجہ تھی کہ رائے عامہ اس بات پر متفق نظر آتی تھی کہ ڈونلڈ ٹرمپ میں دنیا کی سب سے بڑی طاقت کے سربراہ کاعہدہ سنبھالنے کی صلاحیت نہیں ہے۔ مسلمانوں، ہسپانوی باشندوں اور خود میکسیکو اور اردگرد کی ریاستوں کے تارکین کے بارے میں ان کے براہ راست تبصروں نے ان کمیونٹیز کو خوف ودہشت میں مبتلا کردیاتھا۔
ان کے برعکس ہلیری کلنٹن کو امور مملکت کا وسیع تجربہ تھا پوری دنیا کے ممالک کے سربراہوں اور کارپردازوں سے ذاتی سطح پر ان کے تعلقات تھے، وہ امریکی اقلیتوں کے علاوہ امریکا کے اتحادی ممالک کی ترجیحات اور سوچ سے بھی کما حقہ واقف تھیں،اسی لیے انھیں امریکی صدر کے عہدے کیلیے موزوں ترین امیدوار تصور کیاجارہاتھا اور ان کی کامیابی کی صد فی صد پیش گوئی کی جارہی تھی۔لیکن امریکا میں صدر کے انتخاب کیلیے اختیار کیا جانے والا پیچیدہ نظام ان کی راہ میں حائل ہوگیا اوروہ ڈونلڈ ٹرمپ سے پونے دو لاکھ ووٹ زیادہ حاصل کرنے کے باوجود ناکام ہوگئیں۔
امریکا میں صدر کاانتخاب الیکٹورل کالج کے نظام کے تحت ہوتاہے اس نظام کے تحت ہر ریاست کو ان کی آبادی اور رقبے کے اعتبار سے الیکٹرول ووٹس میں تقسیم کردیاجاتاہے اور سب سے زیادہ ووٹ یعنی کم از کم 270 ووٹ حاصل کرنے والے امیدوار کوصدر اور نائب صدر کے عہدے کیلیے کامیاب قرار دے دیاجاتاہے۔مثال کے طورپر ٹیکساس کے38 الیکٹرورل کالج ووٹ ہیں۔ڈونلڈ نے اس ریاست سے 52.6 فیصد حاصل کئے جبکہ ہلیری کلنٹن کو اس ریاست سے 3.4 4فی صد ووٹ ملے اور اس طرح ڈونلڈ ٹرمپ کو اس ریاست کے تمام کے تمام یعنی 38 الیکٹرورل ووٹ مل گئے اور43.4 فیصد ووٹ لینے کے باوجود ہلیری کو اس ریاست کا کوئی الیکٹرورل ووٹ نہیں مل سکا۔اسی طرح مشی گن میں 16 الیکٹرورل ووٹ ہیں ڈونلڈٹرمپ نے اس ریاست سے 47.6 فیصد ووٹ جبکہ ہلیری نے ان سے صرف اعشاریہ 3 فیصد کم ووٹ حاصل کئے لیکن ڈونلڈ کو اس ریاست کے تمام الیکٹرورل ووٹ مل گئے۔اس کے علاوہ ڈونلڈ ٹرمپ امریکا کی نسبتاً پسماندہ ریاستوں میں جہاں بیروزگاری کی شرح زیادہ ہے جن میں اوہائیو، مشی گن، فلوریڈا، لووا ،پنسلوانیہ، اور نارتھ کیرولینا جیسی ریاستوں میں جنھیں سوئنگ ریاستیں کہا جاتا ہے کامیابی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے اور اس طرح صدارت کے سنگھاسن کیلیے کامیاب امیدوار قرار پائے اورہلیری کلنٹن پاپولر ووٹ حاصل کرنے کے باوجود ناکامی کا داغ سجانے پر مجبور ہوگئیں۔
ہلیری کلنٹن کی ناکامی میں سب سے زیادہ کردار ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے ملک کے عوام کی اکثریت کے بنیادی مسائل خاص طورپر روزگار کے مواقع میں اضافہ کرنے میں ناکامی نے ادا کیا۔ ڈیموکریٹک پارٹی ایک طرف بیروزگاری پر قابو پانے کیلیے ملازمتوں کے نئے مواقع پیدا کرنے میں ناکام رہی اور دوسری طرف ملک میں موجود ایسے بہت سے کام اس نے تیسری دنیا کے پسندیدہ ملکوں کے حوالے کردئے جن کے ذریعے مقامی آبادی کوروزگار مل سکتاتھا۔ ڈیموکریٹک پارٹی کی اس پالیسی پر سیاہ فاموں کے علاوہ سفید فام ورکرز کی اکثریت بھی برہم تھی اور انتخابات میں انھوںنے ہلیری کے مقابلے میں اس امید پر ڈونلڈ ٹرمپ کو ترجیح دی کہ وہ پرانا کاروباری شخص ہے اور وہ نہ صرف یہ کہ ملک میں روزگار کے مواقع پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتاہے بلکہ بیرون ملک سے سرمایہ کاروں کو امریکا لانے اور اس طرح روزگار کے مواقع پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتاہے ۔
برطانیہ کے موقر اخبار گارجین نے ڈونلڈ ٹرمپ کی خارجہ پالیسی کے حوالے سے اپنے اداریئے میں خیال ظاہر کیا ہے کہ خارجہ تعلقات کے بارے میں ڈونلڈ ٹرمپ کے خیالات خاص طورپر ہر ملک کے سربراہ سے خواہ وہ آمر ہی کیوں نہ ہوں براہ راست بات چیت کے ذریعے معاملات طے کرنے کی پالیسی پر عمل امریکی اقدار کے منافی ثابت ہوگااور اس سے امریکا کے دیرینہ حلیف اس سے دور ہوتے جائیں گے اور امریکا غیر یقینی کی صورت حال سے دوچار ہوجائے گا۔اس طرح ان کے امریکا کے صدر بن جانے سے دنیا پہلے سے کہیں زیادہ خطرناک اور غیر یقینی کی شکار سرزمین ثابت ہوگی۔تاہم ابھی یہ نہیں کہاجاسکتا کہ ڈونلڈ ٹرمپ عہدہ صدارت سنبھالنے کے بعد کس حد تک اپنی پالیسیاں تبدیل کرنے پر تیار ہوں گے اور اس کے نتیجے میں امریکا کو بظاہر درپیش غیر یقینی کی صورتحال سے کس حد تک نجات مل سکے گی ، تاہم یہ بات یقینی ہے کہ عہدہ صدارت سنبھالنے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کو دیگر ممالک کے ساتھ امریکا کے تعلقات کے حوالے سے اپنے خیالات میں بنیادی تبدیلیاں لانا ہوں گی اور اپنے دیرینہ اتحادی یورپی ممالک کے خوف اور ناراضگی کودور کرنے کیلیے فوری اقدامات کرنا ہوں گے اس کے ساتھ ہی انھیں ایک پر امن ملک کی حیثیت سے امریکا کی ساکھ بحال رکھنے کیلیے امریکا میں موجود اقلیتوں خاص طورپر تارکین کے بارے میں بھی اپنے خیالات تبدیل کرنا ہوں گے اور یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ امریکا کو عظیم بنانے میں تارکین وطن کی خدمات نمایاں رہی ہیں۔ڈونلڈ ٹرمپ انتخابات جیتنے کے فوری بعد روس اور چین کے سربراہوں کے مبارکباد کے پیغامات کے جواب میں انھیں ساتھ لے کر چلنے اور عہدہ سنبھالنے کے بعد ترجیحی بنیادوں پران سے ملاقات کیلیے وقت نکالنے کے ارادے کا اظہار کرکے یہ اشارہ دے چکے ہیں کہ وہ دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے اپنی انتخابی تقریروں سے ہٹ کر کچھ نیا کردکھانے کی کوشش کریں گے۔ یہی وجہ ہے کہ اب امریکی انتظامیہ کے سینئر حکام یہ توقع کررہے ہیں کہ عہدہ صدارت سنبھالتے ہی ڈونلڈ ٹرمپ کو یہ اندازہ ہوجائے گا کہ دوسرے ملکوں پر امریکا کی رائے مسلط کرنے کی پالیسی کسی بھی طرح دانشمندانہ نہیں ہوسکتی اورسب کو ساتھ ملا کر چلے بغیر امریکا کی عظمت برقرار رکھنا ممکن نہیں ہوسکتا۔
٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں