میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
انکارروحِ اسلام ہے!

انکارروحِ اسلام ہے!

ویب ڈیسک
جمعرات, ۱۹ اکتوبر ۲۰۲۳

شیئر کریں

سمیع اللہ ملک
زندگی کی متاعِ عزیزکیاہے؟روپیہ پیسہ،زروجواہر،زمینیں اورجائداد،منصب،جاہ وجلال،ناموری،واہ واہ،دادوتحسین،صلہ وستائش، بیوی بچے عزیزواقربا،یاردوست۔کیایہی ہے زندگی کی متاعِ عزیز!توپھرنظریہ کیاہے،اصول کیاہے،حق وصداقت کیاہے،دارورسن کیا ہے، شہادت کیاہے،عشق کیاہے،محبت کیاہے،بے غرضی کیاہے،جاں نثاری کیاہے، مرمٹناکیاہے؟بتایئے پھریہ سب کیاہیں؟کسے کہتے ہیں متاع عزیز؟کیاانکارمتاعِ عزیزنہیں ہے؟جبرکے سامنے انکار،فرعونیت کاانکار،صلہ کاانکار،سودے بازی سے انکار، دولتِ بے بہا کا انکار،باطل کاانکار،سرجھکانے سے انکار،ظلم وجبرکاانکار،رب کی حاکمیت کے سواسب کاانکار۔انکارمتاعِ عزیزنہیں ہے توپھرکیاہے انکار؟ انکاراور یکسر انکار ،پورے شعورکے ساتھ انکار۔کوئی مصالحت نہیں،بالکل بھی نہیں۔مجسم انکار۔۔باطل کے سامنے،طاغوت کے سامنے، رب کے باغیوں کے سامنے،نفس پرستوں کے سامنے،دنیائے حرص وتحریص کے سامنے، دھوکے کے سامنے،بے وفائی کے سامنے،خدائی لہجے میں بات کرنے والوں کے سامنے۔۔انکاراوریکسرانکار۔۔پورے شعور اورپورے وجودکے ساتھ انکار،بس انکار۔
دلیل چاہے کتنی بھی مضبوط ہو،رب کے سامنے کیاحیثیت رکھتی ہے!بس انکار،لیکن انکاراپنے نفس کوخوش کرنے کیلئے نہیں، نفس کوخوش کرنے کیلئے انکار،انکارِابلیس ہے۔اپنے رب کیلئے انکار۔۔یہی ہے اصل اورکچھ نہیں۔ نہیں مانیں گے کسی کی بھی۔ کسی طاقت کی،کسی بھی نظام باطل کی۔۔نہیں مانیں گے چاہے لاکھ دلیلیں دو۔بس مانیں گے توصرف رب اعلیٰ کی،بس اسی کی اورکسی کی بھی نہیں۔ یہی توحیدہے اورہے کیا توحید!میرادین توشروع ہی انکارسے ہوتاہے یعنی لاسے۔پہلے انکارکی منزل ہے پھر تسلیم کی۔میں انکار کیے بغیرتسلیم کیسے کرسکتا ہوں!اگرمیں انکارنہ کروں اورتسلیم بھی کروں تویہ منافقت ہے،کھلاتضادہے جوقابلِ قبول نہیں۔ملاوٹ نہیں خالص درکارہے بالکل خالص۔ ۔چاہے ذرہ ہی ہو۔ ملاوٹ شدہ پہاڑدرکارنہیں ہے۔یہی ہے اخلاص اورکیاہے!
توحید تو یہ ہے کہ خدا حشر میں کہہ دے
یہ بندہ زمانے سے خفا میرے لیے ہے
انکارروحِ اسلام ہے۔انکارروحِ حسینیت ہے۔انکار۔۔جا،نہیں مانیں گے۔تمہارے دھوکے تمہیں مبارک،ہماراسچ ہمیں۔انکارلکھنے میںبہت آسان ہے۔پنج حرفی لفظ بہت آسان ہے لکھنا،کرنابہت مشکل ہے۔جان لیواہے،بہت نقصان دہ،بہت قربانی چاہتا ہے۔ خود سے بھی لڑناپڑتا ہے۔اپناانکاربھی،نہیں اپنی بھی نہیں مانوں گا۔بہت مشکل ہے یہ بہت کٹھن منزل۔معرکہ خیروشرکیاہے؟معرکہ حق وباطل کیاہے ؟یہی توہے،حق کاساتھ دیناخیر،باطل کاساتھ دیناشر۔رب کے سامنے تسلیم خیراورابلیس کاپیروکاربننا شر۔ معرکہ خیروشریہی ہے۔بس یہی ہے۔پورے عالم میں یہی کچھ ہوتاہے۔ہوتارہے گا۔نہیں رکے گایہ معرکہ۔کربلاکادرس کیاہے؟جنگِ بدرکیاہے؟معرکہ احد میں دندانِ مبارک شہیدہوگئے،چچا حمزہ کے ٹکڑے کردیے گئے،بلک بلک کررودیے لیکن سرتشکرسے جھک گئے کہ یہی اللہ کی مرضی، جہاد کیا ہے؟یہی ہے بس۔سب کادرس ایک ہے:بس انکار۔ انکار کروتوجان سے گزرناپڑتاہے۔خاندان نثارکرناپڑتاہے۔سب کچھ قربان کرنا پڑتاہے۔آگ وخون میںنہاناپڑتاہے۔خاک آلودہوناپڑتاہے۔اپنی خواہشات کوذبح کرناپڑتاہے۔تیزدھارپرسے گزرنا پڑتا ہے، لاشے اٹھانے پڑتے ہیں۔جب شعورکے ساتھ انکارہوتوہرلاشہ اٹھاتے ہوئے یقین بڑھتاہے۔پختگی آتی ہے۔ربِ اعلی کیلئے سب کچھ قربان کرنے کا حوصلہ پیداہوتاہے۔
انکارجتنی شدت اختیارکرتاچلاجائے انقلاب اسی شدت سے نمودارہوتاہے اورپھرہمارامسئلہ نتائج نہیں کارزارِخیروشرمیں اپنا کام سرانجام دیناہے۔ ایسے ویسے چونکہ چنانچہ لیکن ویکن نہیں،یکسرانکار۔رب پرکامل یقین کیساتھ باطل کاانکار۔طاغوت کاانکار۔خون رنگ لاتا ہے، پھر انقلاب آتاہے۔کب رکاتھامعرکہ حق وباطل!نہیں رکے گایہ معرکہ خیروشر ۔بس غالب وہی رہیں گے جواپنے رب کے ساتھ جڑے رہیں گے۔پورے یقین کے ساتھ،پوری سرشاری کے ساتھ۔ انکارروحِ دین ہے،باطل کاانکار۔طاغوت کی ہرشکل کا انکار،یکسرانکارکوئی مصالحت نہیں،بالکل بھی نہیں۔قربانی ہی قربانی،سرشاری ہی سرشاری!
سرشاری اسے ہی کہتے ہیں۔ہنستے کھیلتے لاشے اٹھانااورپھرآوازِبلندسے رب کی کبریائی بیان کرنا۔یہی ہے دین،اورہے ہی کیا!اسے کہتے ہیں اپنی نذرپوری کرنا۔اپنے دعوے کی صداقت کومجسم کردینالیکن یہ ہے بہت مشکل،توفیق پرہے یہ۔جانوں کا نذرانہ پیش کرنا اور رب سے التجاکرناکہ قبول کرلیجیے ہماری قربانی اورپھریقین کی منزل پرپہنچ کرپکارنا:کہہ دوبے شک میری نمازاورمیری قربانی اور میرا جینا اور میرا مرنااللہ ہی کیلئے ہے جوسارے جہانوں کاپالنے والاہے۔رب کیلئے خالص۔باطل ہمیشہ سے گھمنڈی ہوتاہے،دھوکے کا شکار ۔
ایک مختصرحدیث سن لیں:اہل ہندکے مسلمان پہلے اہل کفرہندسے جنگ کریں گے اوران کے امرااورروساکوگرفتارکریں گے پھرشام میں مریم کے بیٹے کاساتھ دیں گے‘‘۔گویایہ پاکستان کی منزل یاتقدیرپہلے سے طے ہوچکی ہے۔جومرضی کرلیں۔اب یہ آپ پرمنحصرہے کہ تندی بادمخالف کاساتھ دیناہے یا منافقین غم گسارکا۔اب مخالفین جوکچھ مرضی کرلیں، جتنامرضی زورلگالیں،قدرت کے اٹل فیصلوں کو ٹالا نہیں جاسکتا۔خطے میں ایسے حالات پیداکئے جارہے ہیں کہ پاک وہند کامحاذایساگرم ہوجس کے جواب میں مکمل جنگ ہواور میرے آقا کا فرمان مکمل ہوکررہے گا۔ حدیث کے دوسرے حصے کے مطابق شام میں جانے سے مراداسرائیل کے ساتھ مکمل جنگ کی پیشگوئی ہے۔یہ وقت اورموقع کب آئے گا ، اس کیلئے فی الحال وقت کاتعین مشکل ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ ایساہوگاضرور،چاہے ہمارے اپنے دورمیں ہو، یاآنے والی نسل کویہ معرکہ درپیش ہوکیونکہ کتاب لکھنے والے نے اس حقیقت سے آگاہ کردیاہے اورلکھنے والے نے توزمانے کی قسم کھا کر، وقت کو گواہ بناکرخبردارکیاہے اورزمانے میں پیش آنے والے سارے واقعات اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ میرارب اپنے اپنے وعدے کی خلاف ورزی کبھی نہیں کرتااوراس کے احکام کی تکمیل میں کہاجانے والا ’’کن‘‘فوری طورپر’’فیکون‘‘میں تبدیل ہوجاتاہے۔
یہاں کے مورخین کی کثرت اب منطقی طورپراس نتیجے پرپہنچ چکی ہے کہ مستقبل میں پاک وہنداوربعدازاں اسرائیل کے ساتھ جنگ کا معرکہ ضرورپیش آئے گااوروہ ان حقائق کا انکشاف بھی کررہے ہیں کہ اب مغرب کاتسلط اورعروج روبہ زوال ہے،مغرب اورامریکا کی اکانومی تیزی سے بکھررہی ہے،دن بدن تجارتی حالات اورخسارہ بے قابوہوتاجارہا ہے ،مغرب بشمول امریکاکی طاقت کامحوربھی مشرق کی طرف تبدیل ہورہاہے۔یادرہے جب اسلام اٹھاتھاتواس وقت بھی چین اورروس دوبڑی طاقتیں موجودتھیں،اب ایک مرتبہ پھر اسلام کی نشاۃ ثانیہ کاسورج طلوع ہورہاہے اوریہی دوعالمی طاقتیں میدان میں موجودہیں اوردونوں ایک دوسرے کی حلیف بھی ہیں۔ مغرب اور امریکاکے بیشترمعاشی ماہرین نے جاری معاشی بحران سے نکلنے کیلئے ایک چھوٹے سے اندازہ کے مطابق700ٹریلین ڈالرکاتخمینہ لگایا ہے اوریہ ناممکن خزانہ اگرمغرب وامریکاکے ہاتھ لگ بھی جائے توپھربھی ان کی تجارتی ترقی کاگراف بلندنہیں بلکہ دیوالیہ سے بچانے میں میں مددگارہوگالیکن اس کے مقابلے میں مشرق میں عروج کاسورج اوراس کی روشنی میں اس قدراضافہ ہونے کا امکان ہی نہیں بلکہ یقین ہے کہ یہ خطہ زمین میں پوشیدہ خزانوں کودریافت کرنے کے بعدایک ایسی منزل کی طرف رواں دواں ہوگا جس میں پاکستان کے بیشتر لامحدود توانائی کے ذخائراس کی نئی منزل کاتعین کریں گے۔انہی غیرملکی ماہرین کے مطابق پاکستان میں15ہزاربلین ڈالر کا لوہا موجود ہے، ہم اس وقت گیس کی کمیابی اوربحران میں مبتلاہیں لیکن ہمارے سمندرسے جہاں ہمیں فی الحال بیرونی دباؤکی بنا پرگیس نکالنے سے روک دیا گیا ہے کہ وہاں گیس کے وسیع ذخائرپاکستان کی خوشحالی میں ممدومعاون ہونے کیلئے بے چین ہیں۔اس لئے مغرب وامریکاکے ہاتھوں سے عالمی اقتدارکاتاج مشرق کی طرف شفٹ ہوچکاہے اوریہی دوطاقتیں روس اورچین کیلئے پاکستان کاجغرافیائی محل وقوع لازم وملزوم کی حیثیت اختیارکرچکاہے۔یہی وجہ ہے کہ چندسال قبل چینی وزارت خارجہ کے ایک اہم رکن نے مثال دیتے ہوئے کہاتھاکہ جس طرح امریکاکیلئے اسرائیل بہت اہم ہے،اسی طرح اس خطے میں چین اوردیگرہمارے حلیفوں کیلئے پاکستان اس سے کہیں زیادہ اہم ہے۔
اللہ کی سنت ہے کہ وہ اپنے باغیوں کوایک حدتک تومہلت دیتاہے اوراسی مہلت کے دوران اپنے وفاداروں کومختلف امتحانات سے گزار کر ان کی تربیت کے بعدان پراپنے انعامات کابنددروازہ کھول دیتاہے۔ہمارے لیے شرط یہ ہے کہ ہم اپنے رب کی طرف پلٹ کراس کی وہ بندگی اختیارکریں جس کاہم نے اپنے رب سے وعدہ کیاہے،اس کے بعدہمارا کریم رب اپناوعدہ ضرورپوراکرے گا،اس کیلئے ضروری ہے کہ ہم اپنے ملک میں ایماندارقیادت کا انتخاب کریں۔اپنے عمل سے یہ ثابت کرناہوگاکہ ہم ایسے افرادکاانتخاب کریں جوملک وملت کے اثاثوں کے مکمل امین ہوں،یقین رکھیں کہ جس طرح اللہ نے بنی اسرائیل سے یہ مطالبہ کیاتھاکہ تم اگرمیری طرف پلٹ آؤگے تومیں بھی تمہاری طرف پلٹ آؤں گا۔میرے رب کاتوہم سے یہ وعدہ ہے کہ تم اگرچل کرمیرے پاس آؤ تومیں دوڑکرتمہارے پاس آؤں گا ۔
امام نسائی نے اسی حدیث کواپنی دوکتابوں میں نقل کیاہے:محمدﷺبن عبداللہ کے آزادکردہ غلام ثوبان روایت کرتے ہیں۔میری امت میں دوگروہ ایسے ہوں گے جنہیں اللہ نے آگ سے محفوظ کردیاہے،ایک گروہ ہندوستان پرچڑھائی کرے گااوردوسراگروہ جوعیسی ابن مریم کے ساتھ ہوگا۔حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺنے ہندوستان کاتذکرہ کرتے ہوئے ارشادفرمایا:ضرورتمہاراایک لشکر ہندوستان سے جنگ کرے گا،اللہ ان مجاہدین کوفتح عطافرمائے گاحتی کہ وہ(مجاہدین) ان کے بادشاہوں کوبیڑیوں میں جکڑ کرلائیں گے اوراللہ ان کی مغفرت فرمادے گا۔پھرجب وہ مسلمان واپس پلٹیں گے توعیسی ابن مریم کوشام میں پائیں گے۔حضرت ابوہریرہ نے فرمایا’’اگرمیں نے وہ غزوہ پایا تو اپنانیااورپراناسب مال بیچ دوں گااوراس میں شرکت کروں گا۔جب اللہ تعالی نے ہمیں فتح عطاکردی اور ہم واپس پلٹ آئے تو میں ایک آزادابوہریرہ ہوں گاجوملک شام میں اس شان سے آئے گاکہ وہاں عیسی ابن مریم کوپائے گا۔یارسول اللہﷺ !اس وقت میری شدید خواہش ہوگی کہ میں ان کے پاس پہنچ کرانہیں بتاؤں کہ میں آپ کاصحابی ہوں۔ راوی کابیان ہے) کہ حضور مسکرا پڑے اورہنس کر فرمایا:’’بہت زیادہ مشکل،بہت زیادہ مشکل۔۔۔۔۔۔۔۔ حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں:نبی کریمﷺنے ہم سے غزوہ ہندکاوعدہ فرمایا۔اگر مجھے اس میں شرکت کاموقع مل گیاتومیں اپنی جان ومال اس میں خرچ کردوں گا۔اگرقتل ہوگیاتومیں افضل ترین شہدا میں شمارکیاجاؤ ں گا۔
حضرت نعمت اللہ شاہ ولی کی پیش گوئیوں کے مطابق بھارت پاکستان سے جنگ توضرورکرے مگرانہوں نے یہ بھی صاف بتادیاتھا کہ وہ جنگ کشمیرکے علاقے سے شروع ہوگی اور دیکھتے ہی دیکھتے پورے ملک کولپیٹ میں لے گی اوریہیں سے بھارت کی بربادی کے دن شروع ہوں گے۔جنگ میں دونوں طرف لازمی نقصان ہوتاہے لیکن مبارک ہومسلمانوں کوکہ یہ وہ جنگ ہوگی جس میں شرکت کرنے کیلئے صحابہ کرام بھی دعائیں کیاکرتے تھے کیونکہ ہمارے نبی اکرمﷺنے اپنے اصحاب کوواضح بتادیاتھاکہ مسلمانوں کا ایک لشکرہندفتح کرے گا اور ہند کے بادشاہوں کوبیڑیوں میں جکڑکرلائے گااوراللہ ان مجاہدین کی مغفرت فرمادے گااور جب وہ لشکرواپس لوٹے گاتوشام میں عیسی ابن مریم کوپائے گا۔
الحمداللہ ہندکی بربادی پاکستان کے ہاتھوں اللہ نے لکھ دی ہے اورہندکی بربادی کے ساتھ ہی دنیامیں بڑے بڑے معرکے شروع ہو جائیں گے۔اولیااللہ کے نزدیک غزوہ ہندکی فاتح فوج بعدمیں حضرت عیسی ابن مریم کے ساتھ مل جائیں گے اورتب اس دنیاکی آخری سب سے بڑی جنگ ہوگی جہاں ایک طرف اہل حق ہوں گے اوردوسری طرف کفارو مشرکین۔حدیث کے مطابق وہ سب سے بڑی اور خون خوارجنگ ہوگی جس میں مسلمان کے مقابل80جھنڈوں تلے فوج ہوگی اورہرجھنڈے تلے12000ہزارفوجی ہوں گے،اس حدیث کے مطابق80جھنڈے یعنی80ممالک ہیں اورہمارے خیال سے یہ80ممالک ’’نیٹو‘‘ کااتحادہوگاجواقوام متحدہ کے زیرسایہ اہل حق یعنی مسلمانوں سے ایک آخری جنگ کرے گا۔اس جنگ میں اللہ مجاہدین کو فتح نصیب فرمائے گااورمجاہدین کی نصرت کیلئے آسمان سے فرشتے اتریں گے یہاں تک کہ ایک ایک کافرکوجہنم واصل کردیاجائے گا،اس جنگ میں پہاڑاوردرخت بھی مجاہدین کاساتھ دیں گے سوائے گرقدکے درخت کے جوآج یہودی پورے اسرائیل میں لگارہے ہیں۔
الحمداللہ،یہ زندگی اللہ نے اپنی خوشنودی کیلئے عطاکی ہے،اورجب زندگی کی اصل منزل موت ہے تواللہ کی راہ میں شہیدہوناسب سے افضل ترین موت شمارہوگی۔ یقیناجوانکارکی عظمت سے واقف ہیں،رب ذوالجلال انہی کوفرعونی طاقتوں کے سامنے سراٹھاکرحق بات کہنے کی توفیق اور فرعونی تکبرکونیست ونابوداورنمرودی طاقتوں کے سامنے سینہ سپرہونے کاحوصلہ عنائت کرتاہے۔یارکھیں!انکارجتنی شدت اختیار کرتاچلاجائے،انقلاب اسی شدت سے نمودارہوتاہے،ایساانقلاب توحیداورحب رسول کی محبت اورخود داری کے نشے میں مبتلاکرتا ہے،اورپھرہمارامسئلہ نتائج نہیں کارزارِخیروشرمیں اپناکام سرانجام دیناہے۔ایسے ویسے چونکہ چنانچہ لیکن ویکن نہیں ۔یکسر انکار۔رب پرکامل یقین کے ساتھ باطل کا انکار۔طاغوت کا انکار۔خون رنگ لاتاہے،انقلاب آتاہے۔کب رکاتھامعرکہ حق وباطل؟ نہیں رکے گایہ معرکہ خیروشر۔بس غالب وہی رہیں گے جواپنے رب کے ساتھ جڑے رہیں گے۔پورے یقین کے ساتھ پوری سرشاری کے ساتھ، انکار روحِ دین ہے،انکارروحِ حسینیت ہے،عاشورکادرس یہی ہے اورکچھ نہیں۔باطل کاانکار ۔ طاغوت کی ہرشکل کا انکار۔۔ یکسرانکارکوئی مصالحت نہیں،بالکل بھی نہیں۔قربانی ہی قربانی،سرشاری ہی سرشاری۔کوئی بھی تونہیں رہے گا۔رب کی قسم کوئی بھی نہیں۔ بس نام رہے گااللہ کا۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں