میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
مسلم لیگ ن میں اختلافات کی لکیریں نمایاں ہونے لگیں

مسلم لیگ ن میں اختلافات کی لکیریں نمایاں ہونے لگیں

جرات ڈیسک
جمعرات, ۱۹ اکتوبر ۲۰۲۳

شیئر کریں

پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما اسد عمر نے کہا ہے کہ یہ نواز شریف کا ملک ہے انہیں واپس آنا چاہیے، میری خواہش ہے کہ وہ آئیں اور الیکشن لڑیں۔لاہور کی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ن لیگ اور پی ٹی آئی کے درمیان فیئر اینڈ فری الیکشن ہونا چاہئیں۔ نواز شریف کے ساتھ قانون کے مطابق سلوک ہونا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کو جلسے کی اجازت نہیں تو پھر کسی کو نہیں ہونی چاہیے، الیکشن کمیشن کو نوٹس لینا چاہیے ن لیگ کو جلسے کی اجازت ہے لیکن پی ٹی آئی کو نہیں۔
اسد عمر کی یہ سوچ جمہوری اصولوں کے عین مطابق ہے،جمہوریت کا بنیادی اصول ہی یہ ہے کہ کسی کی آواز زبردستی دبانے کی کوشش نہیں کی جانی چاہئے،اس لیے ہر جمہوری مزاج رکھنے والا فرد نواز شریف کی واپسی کی حمایت کرے گا لیکن ان کی واپسی پر ان کے استقبال کے حوالے سے ان کے پارٹی کے عمائدین خاص طورپر ان کی صاحبزادی مریم صفدر ابھی تک شش وپنچ کا شکار ہیں،اعلان کے مطابق 21اکتوبر کو بڑے میاں صاحب چاربرس کی خود ساختہ جلاوطنی گزار کرواپس تشریف تو لارہے ہیں لیکن ان کی پارٹی کے عمائدین ان کے استقبال کے حوالے سے ابھی تک متذبذب ہیں اور انھیں شک ہے کہ وہ اپنی تمام تر کوششوں کے باوجودان کے والہانہ استقبال کیلئے عوام کی بڑی تعداد جمع نہیں کرسکیں گے۔اسی لیے وہ اب تک پس وپیش سے کام لیتے رہے ان کی آمد سے پہلے مریم صفدر نے ایک بھرپور مہم کا اہتمام بھی کیاتھااور عوام کا موڈ دیکھنے کیلئے کئی جلسے بھی کئے جن میں لوگوں کو انواع واقسام کے کھانوں کے قاب دکھا کر لبھانے کی کوشش کی گئی لیکن یہ پرتکلف کھانے بھی عوام کو مسلم لیگ ن کے جلسوں کی طرف راغب کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق مسلم لیگ ن میں کراؤڈ پلر کہلانے والی مریم صفدر کے جلسے میں شرمناک حد تک کم لوگوں کی شرکت کے بعد اب مسلم لیگ ن کم وبیش 3 دھڑوں میں تقسیم ہوگئی ہے،جن میں سے ایک گروپ کی قیادت مریم صفدر،دوسرے کی خواجہ آصف اور تیسرے کی خود شہباز شریف کررہے ہیں،اطلاعات ہیں کہ اصل اختلافات مریم صفدر اور نواز شریف کے حالیہ جارحانہ بیانات پر ہیں،اور پارٹی کا مفاہمتی گروپ جس کی قیادت شہباز شریف کررہے ہیں، نواز شریف کی وطن واپسی مؤخر کرانے کے لیے سرگرم ہوگیاہے اور اس نے نواز شریف کی واپسی کو فی الحال ملتوی کرنے کی تجویز نواز شریف تک پہنچا دی ہے تاہم نواز شریف نے تجویز پر فوری طور پر ردعمل دینے سے گریز کیا ہے اور وہ اس سلسلے میں مریم صفدر سے بات کرنا چاہتے ہیں کیونکہ اطلاعات کے مطابق اس وقت وہ اپنے چھوٹے بھائی شہباز شریف سے زیادہ مریم صفدر کی باتوں اور مشوروں کو اہمیت دے رہے ہیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ مفاہمتی گروپ کا موقف ہے کہ شاہدرہ مریم صفدر کے شرمناک حد تک فلاپ جلسے اور لاہور جسے نواز شریف اور شہباز شریف کے جاں نثاروں کا شہر سمجھا جاتا رہے میں شہباز شریف کی گاڑی روک کر شدید احتجاج کے بعد یہ ظاہر ہوگیاہے کہ فی الحال مہنگائی، بے روزگاری اور بے تحاشا یوٹیلیٹی بلز سے پریشان عوام کو نواز شریف کی وطن واپسی میں زیادہ دلچسپی نہیں ہے، شہباز شریف، مریم صفدر اور حمزہ شہباز لاہور میں عوامی رابطہ مہم شروع کر کے عوامی رائے بھانپ چکے ہیں، اس لیے موجودہ حالات میں عوام کی جانب سے نواز شریف کے شایان شان استقبال کی توقع رکھنا مناسب نہیں۔پارٹی ذرائع کے مطابق عام انتخابات کی تاریخ کا ابھی اعلان نہیں ہوا، عام انتخابات کے قریب یا باقاعدہ تاریخ کا اعلان ہونے کے بعد نواز شریف وطن واپس آئیں تو زیادہ بہتر ہے۔تاہم نواز شریف واپسی کا ذہن بنا چکے ہیں اور پارٹی کو استقبال کی تیاری کا کہہ چکے ہیں۔نواز شریف کی وطن واپسی کے اصرار کی حمایت کرتے ہوئے ن لیگ میں موجود دوسرے گروپ کا کہنا ہے کہ نواز شریف کی واپسی کو ملتوی کیا گیا تو عوام میں ہمارا اچھا تاثر نہیں جائے گا اس لیے نواز شریف کو وطن واپسی کے اپنے فیصلے پر قائم رہناچاہئے۔
اب یہ بات سب پر واضح ہوچکی ہے کہ پاکستان کی سیاست میں سیاسی جماعتوں کی کارکردگی سے زیادہ اہمیت ان کے بیانیہ کو حاصل رہی ہے۔سیاست میں بیانیہ کی یہ روایت اگرچہ ہے توپرانی مگر اسے باقاعدہ سیاسی مہم اور جلسوں میں عوامی تحرک پیدا کرنے کیلئے انتہائی موثر انداز میں پاکستان تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے عمران خان نے استعمال کیا۔ وہ تبدیلی اور احتساب کا بیانیہ لے کر اقتدار تک پہنچے اور اپنی سیاسی نااہلی اور وزارت عظمٰی سے برطرفی کے بعد”ووٹ کو عزت دو“کے بیانیہ کے ساتھ عوامی رابطہ مہم پر نکلے مگر پھر جیل سے ہوتے ہوئے لندن جا پہنچے اور ان کا وو ٹ کو عزت دو کا بیانیہ کہیں راستے میں ہی کھو گیا۔عدالتی فیصلے کے مطابق وہ سزا یافتہ ہیں اور بیماری کی شدت کو جواز بناتے ہوئے انہیں علاج کی غرض سے ضمانت پر باہر جانے کی اجازت ملی تھی جسے انہوں نے از خود جلاوطنی میں بدل لیا۔ اب تقریبا 4 سال کے بعد وہ احتساب کے بیانیہ کے ساتھ وطن واپسی کا ارادہ رکھتے ہیں، جس سے ایک بار پھر سیاسی حلقوں بالخصوص ان کی جماعت میں بے چینی بڑھ گئی ہے۔ حالانکہ ان کی تمام تر سیاست اس بات کی مظہر ہے کہ یہ بھاری پتھر ان سے نہ پہلے کبھی اٹھ پایا ہے اور نہ ہی اب، اس عمر ضعیفی میں، وہ اٹھا پائیں گے۔ ان کی جماعت انہیں ایک سیاسی مسیحا کے طور پر پیش کر رہی ہے لیکن اس بیانیہ میں عوام اور ریاست کی مشکلات کا نسخہ کہیں نہیں ہے۔ احتساب پر مبنی ان کا یہ بیانیہ حسب سابق ان کے پچھلے سیاسی بیانیوں کی طرح ایک مذاق بن چکاہے اور خود ان کی پارٹی کے بنیادی رہنماؤں نے اس بیانئے کومسترد کرکے نواز شریف کو اپنے اس بیانیہ کو تبدیل کرنے پر مجبور کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ان کی جماعت کے دیگر قائدین اور کارکن ان کے بیانیہ کی وضاحتیں ہی کرتے رہ جائیں گے۔ شہباز شریف اور ان کی سیاسی سوچ کے حامی اس بیانیہ پر مضطرب ہیں۔وہ یہ سمجھتے ہیں کہ نواز شریف کے سیاسی راستے سے جو رکاوٹیں شہباز شریف نے اپنی 16 ماہ کی وزارت عظمٰی کے دوران ہٹائی تھیں یا انہیں ہٹانے کی کوششیں کی تھیں اس بیانیہ سے وہ رائیگاں ہو رہی ہیں۔شنید ہے کہ نواز شریف شہباز شریف اور دوسرے اہم رہنماؤں کے اصرار پر اپنے بیانیہ کو تبدیل کرنے پر مجبور ہوگئے جس کا اندازہ ان کے سمدھی اسحاق ڈار کے اس بیان سے لگایاجاسکتاہے کہ نواز شریف اب احتساب کا معاملہ اللہ کے سپرد کر چکے ہیں۔ حقیقت یہ کہ نواز شریف عدالت سے سزا یافتہ ہیں، ان کے جرم کی نوعیت خواہ کچھ بھی رہی ہو۔ انہیں سزا عدالت نے دی ہے۔ عدالت کے فیصلہ کی وجہ سے ہی انہیں علاج کیلئے ضمانت پر لندن جانے کی اجازت ملی تھی۔ اب عدالت ا ن کی واپسی کی منتظر ہے۔ وہ آئیں اور خود کو عدالت کے سامنے پیش کریں۔یہ ہی درست اور با وقار راستہ ہے جسے اختیار کیا جاناچاہئے۔ سیاسی سرگرمیاں،جلسے،جلوس اور ایک بار پھر وزارت عظمٰی پر متمکن ہونے کی ان کی آرزو سب بعد کی باتیں ہیں۔ جو سیاسی رہنما تین بار وزیراعظم رہ چکا ہو، اسے قانون کی پاسداری کیلئے ایک قابل تقلید نمونہ ہونا چاہئے مگرنواز شریف کا معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ وہ خود کو قانون سے بالا تر سمجھنے لگے ہیں اور عدالتوں اور ججوں کو دباؤ میں لانے کیلئے عدالتوں پر چڑھائی کرنے کو بھی غلط تصور نہیں کرتے۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے پاکستان میں احتساب کی روایت کبھی پختہ نہیں رہی۔اسے ہمیشہ ایک سیاسی حربے کے طور پرآزمایا گیا جس میں احتساب سے زیادہ انتقام اور سیاسی دباؤ کا پہلو نمایاں ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیاستدان بالعموم اپنی قابل احتساب کارکردگی پر بھی انتقام کا شور مچاتے ہوئے اپنی سیاسی ساکھ بچانے میں کامیاب رہتے ہیں اور احتساب کا عمل ہمیشہ ادھورا ہی رہ جاتا ہے۔ نواز شریف کا موجودہ سیاسی بیانیہ ریاست کی موجودہ سیاسی اور معاشی حالت سے ہرگز مطابقت نہیں رکھتا۔ ایک سیاسی رہنما کے طور پر ان کے پاس ملک کی معیشت کی بہتری کا کوئی لائحہ عمل ہونا چاہیے تھا۔کوئی ایساواضح پروگرام جس سے ملک میں موجود سیاسی فضا کو بہتر بنایا جاسکے۔ سیاسی استحکام سے ہی معیشت کے استحکام اور بہتری کی راہیں کھل سکیں گی اور ریاست کا عالمی سطح پر تاثر بہتر بنایا جا سکے گا۔ ان کی سیاسی جماعت تسلسل سے یہ دعوی کر رہی ہے کہ وہ ملک کو موجودہ مشکلات سے نکال سکتے ہیں تاہم ان کے بیانئے سے ایسا کوئی تاثر نہیں ملتا۔وہ حسب سابق اسٹیبلشمنٹ سے ٹکرانے کا تاثر دیتے ہوئے بالآخر اس سے ہی مصالحت پر آمادہ ہو چکے ہیں۔ نواز شریف کی سیاست اب تک اسی روش پر گامزن رہی ہے۔ پاکستان کی سیاست کا المیہ ہی یہ ہے کہ سیاستدانوں میں تحمل، تدبر اور دور اندیشی کا فقدان ہے۔ جمہوری سیاسی نظام میں اختیارات کی تقسیم اور اداروں کا احترام اور استحکام بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔پاکستان کے جمہوری سیاسی نظام میں اداروں کے بجائے شخصیات میں اختیارات کے ارتکاز کو ہمیشہ ہی پیش نظر رکھا گیا ہے جس کا نتیجہ ریاست کے سیاسی نظام اور اس کی عوام کے سامنے ہے۔ جمہوری اقدار سے وابستگی محض نعروں کی حد تک ہے۔ سیاسی جماعتوں پر کچھ شخصیات اور خاندانوں کا اجارہ ہے جس کے استقرار پر ہی ان کی سیاست کا انحصار ہے۔ سیاسی اقتدار کے اس کھیل میں اسٹیبلشمنٹ کو اثر انداز ہونے کی پوری طاقت اور توانائی حاصل ہے۔سماج کے بااثر طبقوں نے پاکستان کے سیاسی اور معاشی نظام کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ان کے باہمی مفادات اور مراعات کے حصول کی کشمکش نے اداروں کی اہلیت اور ان کی آئینی حدود کو شدید متاثر کردیا ہے۔ پاکستان کی سیاسی حرکیات اور قومی وسائل کی تقسیم میں عوام کا حصہ سب سے کم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں سیاسی جماعتیں جو اقتدار کا حصہ بنتی ہیں عوام کو کم ہی اہمیت دیتی ہیں۔پاکستان کی اب تک کی سیاسی تاریخ اسی تواتر پر استوار ہے۔
سیاسی جماعتوں کے پاس پاکستان کو درپیش مشکلات سے نکالنے کا کوئی واضح لائحہ عمل اور ویژن موجود نہیں ہے۔ بصیرت اور ارادے سے محروم سیاست دانوں کی ریاست کے حقیقی مسائل پر توجہ ہی نہیں ہے۔ نواز شریف کا موجودہ سیاسی بیانیہ بھی پاکستان کے سیاسی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتا۔ ان کا بیانیہ محض ایک خیال خام ہے جس کے پختہ ہونے کا انہیں خود بھی یقین نہیں ہے۔ ایک سیاسی رہنما کی حیثیت سے سب سے پہلے تو انہیں عدالت کے سامنے پیش ہونا چاہئے پھر عدالت کے فیصلے کی روشنی میں ہی انہیں اپنے سیاسی سفر کو آگے بڑھانا چاہئے۔اگر وہ واقعی پاکستان کے سیاسی نظام میں سیاسی جماعتوں اور سیاست دانوں کی اہمیت اور وقعت کے خواہاں ہیں تو پھر انہیں اپنا طرز سیاست کو بدلنا ہوگا۔ عوام کی بات کرنا ہوگی۔ اقتدار کیلئے عوام پر بھروسہ کرنا ہوگا۔ ان کیلئے جینا اور ان کیلئے ہی مرنا ہوگا۔تب جا کر وہ تاریخ میں اپنا مقام بنا پائیں گے۔مگر نواز شریف کی فیملی کا کوئی بزعم خود رہنما اس پر یقین نہیں رکھتا۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں